نکاح سے گریز اور دنیا سے لا تعلقی کی ممانعت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

دنیا سے لا تعلقی (شادی نہ کرنا) جائز نہیں الا کہ انسان نکاح کی ضروریات و لوازمات کو پورا کرنے سے عاجز ہو
➊ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن التبتل
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے الگ رہ کر زندگی گزارنے سے منع فرمایا ہے ۔“
اور قتادہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی کہ:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةٌ [الرعد: 38]
”اور بے شک ہم نے آپ سے پہلے رسول بھیجے اور انہیں بیویاں اور اولادیں بھی عطا کیں ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1499 ، كتاب النكاخ: باب النهي عن التبتل ، ابن ماجة: 1849 ، ترمذي: 1082]
➋ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو تبتل سے منع فرما دیا تھا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہو جاتے ۔“
[بخارى: 5073 ، كتاب النكاح: باب ما يكره من التبتل والخصاء ، مسلم: 1402 ، أحمد: 175/1 ، ترمذي: 1083 ، نسائي: 58/6 ، ابن ماجة: 1848 ، دارمي: 133/2 ، ابن الجارود: 674 ، ابن حبان: 4027]
مثلاً انسان میں جماع کی طاقت نہ ہو تو ایسی صورت میں نکاح نہ کرنے کی رخصت ہی نہیں بلکہ نکاح کرنا حرام ہے کیونکہ یہ محض عورت کو اذیت و ضرر پہنچانا ہی ہے اور قرآن میں ہے کہ :
وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا [البقرة: 230]
”اور انہیں نقصان پہنچانے کی غرض سے مت روکو۔“
اور ایک دوسرے مقام میں ہے کہ :
وَلَا تُضَارُوهُنَّ [الطلاق: 6]
”عورتوں کو ضرر نہ پہنچاؤ ۔“
علاوہ ازیں بعض نے تو یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی شخص حسنِ معاشرت اختیار نہ کر سکے تب بھی وہ نکاح سے اعراض کر سکتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [النساء: 19]
”اور عورتوں سے حسنِ معاشرت اختیار کرو۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1