نو اور دس محرم کے روزے کی اہمیت اور مشروعیت
تحریر: حافظ خضر حیات

نو اور دس محرم کے روزے کی مشروعیت اور دلائل

جمہور علما کا عمومی موقف یہ رہا ہے کہ محرم کی 10 تاریخ کو روزہ رکھنا افضل ہے، اور اگر 9 تاریخ کا روزہ بھی شامل کر لیا جائے تو یہ مزید بہتر ہے۔ تاہم، ہر سال کچھ افراد یہ بحث چھیڑتے ہیں کہ عاشورہ (10 محرم) کا روزہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اور صرف 9 محرم کا روزہ مشروع ہے۔ یہ موقف دلائل کی روشنی میں کمزور ہے، جبکہ اصل مشروعیت 10 محرم کے روزے کی ہے۔ اس تحریر میں 9 اور 10 محرم کے روزے کی اہمیت اور مشروعیت کو ثابت کرنے کے ساتھ صرف 9 محرم کے روزے کے حق میں پیش کردہ دلائل کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

نو اور دس محرم کے روزے کی مشروعیت سے متعلق احادیث

پہلی حدیث: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ فَرَأَى اليَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: «مَا هَذَا؟»، قَالُوا: هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ، فَصَامَهُ مُوسَى، قَالَ: «فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ»، فَصَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ۔
(صحیح البخاری: 3/44، حدیث نمبر: 2004)

ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی، اور موسیٰ علیہ السلام نے اس دن شکرانے کے طور پر روزہ رکھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، "ہم موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حق دار ہیں۔” چنانچہ آپ ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی دیا۔

دوسری حدیث: حکم بن اعرج کا بیان

عَنِ الْحَكَمِ بْنِ الْأَعْرَجِ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَهُ فِي زَمْزَمَ، فَقُلْتُ لَهُ: أَخْبِرْنِي عَنْ صَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: «إِذَا رَأَيْتَ هِلَالَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ، وَأَصْبِحْ يَوْمَ التَّاسِعِ صَائِمًا»، قُلْتُ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ قَالَ: «نَعَمْ»۔
(صحیح مسلم: 2/797، حدیث نمبر: 1133)

حکم بن اعرج بیان کرتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے عاشورہ کے روزے کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے فرمایا، "جب محرم کا چاند نظر آئے تو نویں دن روزے سے رہو۔” میں نے پوچھا: کیا نبی کریم ﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: "جی ہاں۔”

تیسری حدیث: ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان

عن عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: حِينَ صَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ» قَالَ: فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
(صحیح مسلم: 2/797، حدیث نمبر: 1134)

ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھنا شروع کیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یہ دن یہود و نصاریٰ کے نزدیک بھی مقدس ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، "آئندہ سال ہم نویں محرم کا بھی روزہ رکھیں گے۔” لیکن آپ ﷺ آئندہ سال سے پہلے وفات پا گئے۔

صرف 9 محرم کے روزے کے دلائل کا تجزیہ

دلائل اور ان کی کمزوری

  • عدد میں حصر: نبی کریم ﷺ کے الفاظ "لأصومن التاسع” کو بعض حضرات حصر پر محمول کرتے ہیں، لیکن یہ حصر کے الفاظ نہیں ہیں۔
  • اگر نبی کریم ﷺ نے نو کا ذکر کیا ہے تو دس کا ذکر بھی کیا ہے۔
  • دونوں احادیث میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ان کا مقصد یہودیوں سے مخالفت کے طور پر ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ رکھنا ہے۔
  • نسخ کا دعوی: یہ کہنا کہ 10 محرم کا روزہ منسوخ ہو گیا، ناقابل قبول ہے کیونکہ نسخ کی شرائط میں نصوص کے درمیان مکمل تعارض ہونا ضروری ہے۔ یہاں تطبیق ممکن ہے۔
  • مختصر روایات سے استدلال: بعض لوگ مختصر روایات سے استدلال کرتے ہیں جو سیاق و سباق کے بغیر ہوتی ہیں۔ اصولِ حدیث کے مطابق ایسی مختصر روایات کو مکمل احادیث کے ساتھ تطبیق دی جاتی ہے۔

امام خطابی اور نووی کا بیان

  • امام خطابی: جب دو احادیث میں بظاہر اختلاف ہو تو ان میں تطبیق دینا اولیٰ ہے۔ (معالم السنن: 3/68)
  • امام نووی: نسخ تب ہوتا ہے جب جمع و تطبیق ممکن نہ ہو، اور یہاں جمع ممکن ہے۔ (شرح مسلم: 8/13)

خلاصہ اور نتیجہ

مذکورہ دلائل اور تجزیے کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:

  • عاشورہ (10 محرم) کا روزہ مشروع ہے اور نبی کریم ﷺ نے اس پر عمل بھی کیا۔
  • 9 محرم کا روزہ رکھنے کی خواہش بھی نبی کریم ﷺ نے ظاہر کی تاکہ یہودیوں سے اختلاف ہو۔
  • جمہور علما کے نزدیک 9 اور 10 محرم کا روزہ رکھنا افضل ہے۔

اختلافی مسائل میں اجماعِ علما اور نصوص کے مجموعی مفہوم کو دیکھنا چاہیے۔ عوام کو ایسی باتوں سے اضطراب میں مبتلا کرنے سے گریز کرنا چاہیے جو نصوص اور جمہور علما کے موقف کے خلاف ہوں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے