نوافل اور تلاوت کو ریاکاری کہہ کر روکنے کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، جلد1، صفحہ 146

سوال:

اگر کوئی شخص نوافل ادا کرتا ہے یا قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اور دوسرا شخص اسے یہ کہہ کر روکتا ہے کہ یہ ریاکاری (دکھاوا) ہے اور اسے ریاکار قرار دیتا ہے، تو کیا روکنے والے کی بات درست ہے یا نوافل اور تلاوت کرنے والے کا عمل؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اگر کسی شخص کا کوئی شرعی معمول ہو، جیسے چاشت کی نماز، تہجد، یا دیگر عبادات، تو اسے جہاں بھی موقع ملے، وہ عبادت کرنی چاہیے اور لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے عبادت کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔”
(مجموع الفتاویٰ: 23/174)

ریاکاری کے وہم سے عبادت ترک کرنا غلط ہے

◈ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"لوگوں کی وجہ سے عمل ترک کرنا ریاکاری ہے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے عمل کرنا شرک ہے۔”
(مجموع الفتاویٰ: 23/174)

◈ اگر کسی جگہ عبادت کرنا زیادہ سکون اور یکسوئی کا باعث ہو تو وہیں عبادت کرنا افضل ہے، بجائے اس کے کہ کوئی ایسی جگہ ہو جہاں دنیاوی مصروفیات عبادت میں خلل ڈالیں۔

ریاکاری کے ڈر سے عبادات ترک کرنے کی تردید

1. کسی کو عبادت سے روکنا جائز نہیں

◈ ریاکاری کے ڈر کی وجہ سے کسی کو نوافل یا تلاوت کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ عبادت جاری رکھی جائے۔

◈ اگر ہم کسی کو عبادت کرتے ہوئے دیکھیں، تو اسے عبادت کرنے دیں، خواہ ہمیں شک ہو کہ وہ دکھاوے کے لیے کر رہا ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے منافقین کو بھی نماز ادا کرنے سے نہیں روکا تھا، حالانکہ وہ ریاکاری کے لیے نماز پڑھتے تھے۔


"إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا”

"بے شک منافق لوگ اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ وہی انہیں دھوکہ دینے والا ہے، اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کو دکھاوا کرتے ہیں، اور اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں۔”
(سورۃ النساء: 142)

2. ریاکاری کا انکار کرنے کے اصول

◈ اسلام میں صرف اس چیز کا انکار کیا جاتا ہے جو حقیقت میں خلافِ شریعت ہو۔
◈ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"مجھے لوگوں کے دل چیر کر دیکھنے کا حکم نہیں دیا گیا۔”
(صحیح بخاری، حدیث: 4351)

◈ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"جو شخص ہمارے سامنے نیکی ظاہر کرے، ہم اس سے محبت کریں گے، خواہ اس کے دل میں کچھ بھی ہو، اور جو ہمارے سامنے برائی ظاہر کرے، ہم اس سے نفرت کریں گے، خواہ اس کے دل میں کچھ بھی ہو۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ: 7/254)

3. اگر عبادت سے روکنا جائز مان لیا جائے تو کیا ہوگا؟

◈ اگر ہر نیک عمل کو ریاکاری کہہ کر روک دیا جائے، تو فاسق اور مشرک لوگ دیندار افراد کو عبادت سے روک دیں گے۔
◈ سچے اور مخلص افراد عبادت کرنا چھوڑ دیں گے، جس سے خیر کے کام موقوف ہو جائیں گے اور فاسد عقائد کو فروغ ملے گا۔
◈ یہ سب سے بڑا فساد ہوگا، جو دین کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے۔

4. نیکی کرنے والوں پر اعتراض کرنا منافقوں کی عادت ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ”

"وہ لوگ جو ایمان والے صدقہ دینے والوں پر طعن کرتے ہیں اور ان پر بھی (طنز کرتے ہیں) جو اپنی محنت کے سوا کچھ نہیں پاتے، پس وہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ نے ان سے تمسخر کیا ہے، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔”
(سورۃ التوبہ: 79)

◈ غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی کریم ﷺ نے صدقے کی ترغیب دی، تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم بھری تھیلیاں لے آئے اور کچھ لوگ تھوڑا سا صدقہ لائے۔
◈ منافقین نے دونوں پر طعنہ زنی کی۔
◈ اللہ نے اس عمل کی مذمت میں آیت نازل کی۔

نتیجہ

نوافل ادا کرنا اور قرآن کی تلاوت کرنا مستحب اور باعثِ اجر ہے۔
کسی کو عبادت سے روکنا، ریاکاری کا الزام لگانا غلط ہے۔
ریاکاری کے وہم سے عبادات کو ترک کرنا درست نہیں۔
ظاہر پر فیصلہ کیا جائے گا، کسی کے دل میں نیت کو جانچنے کا اختیار کسی کو نہیں۔
نیکی کرنے والوں پر طعن کرنا منافقوں کا طریقہ ہے۔

لہذا، عبادات کو ریاکاری کہہ کر روکنا یا کسی کو ریاء کار کہنا غلط اور خلافِ شرع ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1