ننگے سر جماعت کرانے کا حکم
سوال : کیا کوئی آدمی ننگے سر جماعت کرا سکتا ہے ؟ اگر کرا سکتا ہے تو دلائل سے آگاہ کریں۔
جواب : حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ اس کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں :
”ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا يقبل الله صلاة حائض الا بخمار [ابوداؤد، كتاب الصلاة : باب المرة تصلي بغير خمار 641 ]
”اللہ تعالیٰ بالغہ عورت کی ننگے سر نماز کو قبول نہیں کرتا۔“
یہ حدیث صحیح ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کو صحیح ابن ماجہ اور صحیح ابوداؤد میں درج فرمایا ہے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بالغ عورت کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ مرد اور نابالغ عورت کی نماز ننگے سر ہو جاتی ہے، لہٰذا اگر کوئی مرد ننگے سر نماز پڑھتا ہے تو اس سے الجھنا نہیں چاہئیے۔ ننگے سر نماز پڑھنے والے کو بھی غور کرنا چاہیے کہ ننگے سر نماز پڑھنے میں سر ڈھک کر نماز پڑھنے سے کوئی زیادہ ثواب نہیں ملتا کہ اس عمل پر اصرار کرے، الغرض سر ڈھک کر نماز پڑھنے کی پابندی بالغ عورت کے لیے ہے، مرد کے لیے سر ڈھک کر نماز پڑھنے کی فرضیت کتاب و سنت میں کہیں وارد نہیں ہوئی، ﴿خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾ [الاعراف : 31] مرد کے لیے سر ڈھک کر نماز پڑھنے کی فضیلت پر استدلال درست نہیں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب [أحكام ومسائل : 101 ]
حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ کا جواب بالکل صحیح اور درست ہے، جب کتاب و سنت میں کہیں بھی مرد کے لیے سر ڈھانپ کر نماز پڑھنے کی پابندی وارد نہیں ہوئی تو نمازی خواہ امام ہو یا مقتدی یا منفرد اس کی نماز ننگے سر درست ہوگی۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ننگے سر نماز نہیں ہوتی وہ اپنے اس دعویٰ کی کوئی صحیح دلیل پیش کریں۔ انہوں نے مساجد میں ایسی فضول اور عبث ٹوپیاں رکھی ہوتی ہیں جنہیں پہن کر خود مسجد سے باہر جانا بھی پسند نہیں کرتے وہ پہن کر نماز ادا کرتے ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی مونڈ کر کبھی نماز نہیں پڑھی تو کیا یہ لوگ فتویٰ صادر کریں گے کہ ننگے منہ یعنی داڑھی منڈے کی نماز نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ دین کا صحیح فہم عطا کرے اور کتاب و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماے۔ (آمین ! )