نماز کے لیے مصلے کا استعمال
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جیسا کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :
كان رسول الله يصلى على الخمرة
[بخاري 379 ، 333 ، كتاب الحيض : باب الصلاة على النفساء وسنتها ، مسلم 513 ، أبو داود 656 ، ابن ماجة 958 ، نسائى 57/2 ، أحمد 330/6 ، دارمي 319/1 ، ابن خزيمة 1007 ، بيهقي 421/2]
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔“
(جمہور ) اسی کے قائل ہیں ۔
[نيل الأوطار 620/1]
جوتوں اور موزوں سمیت نماز پڑھنا
جائز و مباح ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ :
ا كان النبى صلى فى نعليه
[بخاري 386 ، 5850 ، كتاب الصلاة : باب الصلاة فى النعال ، مسلم 555 ، ترمذي 440 ، نسائي 74/2 ، أحمد 100/3 ، ابن خزيمة 1010]
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتوں میں نماز پڑھ لیتے تھے ؟ تو انہوں نے جواب میں کہا نعم ” ہاں ۔“
➋ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
خالفوا اليهود فإنهم لا يصلون فى نعالهم ولا خفافهم
[صحيح: صحيح أبو داود 607 ، كتاب الصلاة : باب الصلاة فى النعل ، أبو داود 652 ، حاكم 260/1 ، بيهقى 432/2]
” یہود کی مخالفت کرو بلاشبہ وہ اپنے جوتوں اور موزوں میں نماز نہیں پڑھتے ۔“
صحیح ابن حبان کی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں :
خالفوا اليهود والنصارى …..
” یہود و نصاری کی مخالفت کرو….“
➌ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو اپنے جوتوں کو پھیر کے دیکھ لے اگر ان میں گندگی نظر آئے تو انہیں زمین پر رگڑے.“ ثم ليصل فيهما ”پھر ان میں نماز پڑھ لے ۔“
[صحيح : صحيح أبو داود 605 ، أيضا ، أحمد 20/3 ، أبو داود 650 ، دارمي 320/1 ، أبو يعلى 1194 ، ابن خزيمة 1017]
➍ وہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے جس میں ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران نماز جوتیاں اتار دیں یہ دیکھ کر صحابہ نے بھی اپنی جوتیاں اتار دیں….“
[صحيح : صحيح أبو داود 605 ، أيضا ، إرواء الغليل 284]
(شوکانیؒ) جوتے پہن کر نماز پڑھنا مستحب ہے ۔
[نيل الأوطار 625/1]
(ابن حجرؒ) اس عمل میں یہود کی مخالفت کے ارادے کی وجہ سے استحباب ہے۔
[تحفة الأحوذي 444/2]
(ابن دقیق العیدؒ ) یہ عمل مستحب نہیں ہے بلکہ محض ایک رخصت ہے ۔
[أيضا]
وجوبِ نماز کے لیے عقل و بلوغت شرط ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین آدمیوں کا گناہ نہیں لکھا جاتا :
عن النائم حتى يستيقظ و عن الصبى حتى يحتلم وعن المجنون حتى يعقل
[صحيح : صحيح أبو داود 3698 ، كتاب الحدود : باب فى المجنون يسرق أو يصيب حدا ، أبو داود 4398 ، نسائي 3432 ، ابن ماحة 2041]
” خوابیدہ شخص کا جب تک کہ وہ بیدار نہ ہو جائے، بچے کا جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے، اور پاگل کا جب تک کہ وہ عقلمند نہ ہو جائے ۔ “
(شوکانیؒ ) اس مسئلے پر اجماع ہے۔
[السيل الجرار 100/1]
قبروں کی جانب رخ کر کے نماز پڑھنا
متعدد احادیث میں اس کی ممانعت مروی ہے ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: :
لا تصلوا إلى القبور ولا تجلسوا عليها
[مسلم 972 ، كتاب الجنائز: باب النهي عن الجلوس على القبر والصلاة عليه ، أبو داود 3229 ، ترمذي 1050 ، نسائي 760 ، ابن خزيمة 793 ، بيهقي 435/2]
” قبروں کی طرف رخ کر کے نماز نہ پڑھو اور نہ ان پر بیٹھو۔“
➋ حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا تتخذو القبور مساجد فإني أنها كم عن ذلك
[مسلم 532 ، كتاب المساجد و مواضع الصلاة ، باب النهي عن بناء المساجد على القبور أبو عوانة 401/1]
” قبروں کو مسجد میں مت بناؤ بے شک میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں ۔“
حمام میں نماز پڑھنا ممنوع ہے
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الأرض كلها مسجد إلا المقبرة والحمام
[صحيح : إرواء الغليل 320/1 ، صحيح أبو داود 507 ، كتاب الصلاة : باب فى المواضع التى لا تجوز فيها الصلاة ، أبو داود 492 ، أحمد 83/2 ، ترمذي 317 ، ابن ماجة 745 ، بيهقى 435/2 ، حاكم 251/1 ، ابن خزيمة 791]
”قبرستان اور حمام کے سوا ساری زمین مسجد ہے ۔“
(ابن حزمؒ) کسی صورت میں بھی حمام میں نماز پڑھنا جائز نہیں۔
(جمہور) حمام اگر پاکیزہ ہو تو نماز صیح ہے مگر مکروہ ہوگی۔
(شوکانیؒ ) انہوں نے امام ابن حزمؒ کی بات کو برحق کہا ہے۔
[إنيل الأوطار 929/1]
جانوروں کے باڑوں میں نماز پڑھنا
شریعت نے بھیڑ بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے جبکہ اونٹوں کے باڑوں میں نماز پڑھنا حرام قرار دیا ہے۔ اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
صلوا فى مرابض الغنم ولا تصلوا فى أعطان الابل
[صحيح : صحيح ترمذي 285 ، كتاب الصلاة : باب ما جاء فى الصلاة فى مرابض الغنم ، ابن ماجة 768 ، أحمد 451/2 ، ابن خزيمة 795 ، بيهقي 449/2 ، ترمذي 348]
” بھیٹر بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھ لو لیکن اونٹوں کے باڑوں میں نماز نہ پڑھو۔“
حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ سے بھی اسی معنی میں حدیث مروی ہے۔
[صحيح: صحيح أبو داود 169 ، أبو داود 184 ، أحمد 288/4]
(احمدؒ ، ابن حزمؒ ، شوکانیؒ ) اسی کے قائل ہیں۔
(جمہور ) نجاست نہ ہو تو نھی کو کراہت پر اور نجاست موجود ہوتو نھی کو تحریم پرمحمول کیا جائے گا۔
[نيل الأوطار 635/1-636]
(راجح) پہلا موقف حدیث کے زیادہ قریب ہے۔
غصب شدہ زمین پر نماز پڑھنا
بالکل جائز نہیں ہے۔ امام شوکانیؒ بھی اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[السيل الجرار 168/1]
پتلون ( یعنی پینٹ ) میں نماز پڑھنا
(البانیؒ) اس میں دو مصیبتیں ہیں:
➊ کفار کی مشابہت ۔
➋ ستر کی حفاظت نہ ہونا بالخصوص حالت سجدہ میں ۔
[القول المبين فى أخطاء المصلين ص/ 20]
( ابن بازؒ) اگر پینٹ تنگ نہ ہو وسیع ہو تو اس میں نماز صحیح ہے اور افضل یہی ہے کہ اس کے اوپر ایک ایسی قمیض ہو جو ناف اور گھٹنوں کے درمیانی حصے کو چھپالے اور نصف پنڈلی یا ٹخنے تک نیچے لٹک جائے کیونکہ یہی چیز ستر میں زیادہ مکمل ہے۔
[الفتاوى للشيخ عبدالعزيز بن بار 69/1]
سعودی مجلس افتاء نے بھی اسی طرح کا فتوی دیا ہے۔
[فتاوى اللجنة الدائمة رقم 2003]
باریک و شفاف کپڑوں میں نماز
(ابن بازؒ) جب کپڑا شفاف یا باریک ہونے کی وجہ سے جلد کو چھپا نہ سکتا ہو تو کسی مرد کے لیے اس میں نماز ادا کرنا درست نہیں اِلا کہ ایسے کپڑے کے نیچے پاجامہ یا تہبند ہو جو ناف اور گھٹنوں کے درمیانی حصے کو چھپا سکے۔ اور عورت کے لیے بھی ایسے کپڑے میں نماز جائز نہیں اِلا کہ اس کے نیچے ایسا کپڑا یا کپڑے ہوں جو اس کے تمام بدن کو چھپا سکیں ۔ ایسے کپڑے کے نیچے چھوٹا سا پاجامہ کفایت نہیں کرتا۔
[الفتاوى الإسلامية 253/1 ، فتاوى ابن باز مترجم 57/1 ، محلة ”الدعوة“ رقم 886]