نماز کی تکبیر کا صحیح طریقہ اور نبیﷺ کی ہدایت
ماخوذ:فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 174

سوال

نماز کی تکبیر کیسے کہنی چاہیے؟ اکہرے لفظوں کا زیادہ ثواب ہے یا دوہرے لفظوں کا؟ نبی علیہ السلام کی تاکید کردہ تکبیر کی وضاحت کریں، کیونکہ نظام آباد میں اس مسئلے پر جھگڑا پایا جاتا ہے، اور بعض اہل حدیث بھی دوہرے لفظوں کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔

الجواب

تکبیر کے ہر ایک کلمہ کو ایک مرتبہ کہنا افضل ہے، سوائے "قد قامت الصلوٰۃ”کے، جسے دو مرتبہ کہا جاتا ہے۔

روایات

زید بن عبد البر کے تلقین شدہ الفاظ اسی طریقے کے ہیں۔ یہ الفاظ احمد ملتقی میں مروی ہیں۔
ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:
"امر بلال ان یشفع الاذان ولو ترالا فامۃ”
"بلال کو حکم دیا گیا کہ اذان کو ٹھہر ٹھہر کر ادا کریں، چاہے ان کی آواز نہایت خوش الحان نہ ہو۔”
(یہ روایت صحاح میں موجود ہے۔)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
"إنما کان الاذان علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم مرتین مرتین والاقامة مرة غیر ان یقول قد اقامت الصلٰوة قد قامت الصلٰوة”
"بے شک رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اذان دو دو مرتبہ (ہر کلمہ دہرا کر) دی جاتی تھی، اور اقامت ایک مرتبہ (ہر کلمہ صرف ایک بار) کہی جاتی تھی، سوائے اس کے کہ اقامت میں ‘قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة’ دو مرتبہ کہا جاتا تھا۔”
(ابو داؤد، نسائی)

حوالہ

فتاویٰ ثنائیہ، جلد اول، صفحہ ۳۲۹

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے