صلاۃ کی ابتداء:
ابو حمید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے پھر تکبیر ( یعنی اللہ اکبر ) کہتے اور پھر قرآن پرھتے ۔
(ابوداؤد، الصلاة، 730)
بدعت:
نماز سے پہلے اردو، پشتو، بنگلہ یا کسی دوسری زبان میں نیت کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، لہذا یہ بدعت ہے، نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔ ( صحیح بخاری)
حلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے دیکھا۔
(مسند احمد : 226/5)
امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ کا پڑھنا:
سوال:
کیا امام کے ساتھ جہری صلاۃ میں ہمارے لیے سورۃ الفاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے؟ کیونکہ میرے ایک بھائی نے بتلایا ہے کہ علامہ البانی کی رائے ہے کہ امام کا سورہ فاتحہ پڑھنا میری قرات کے لیے کافی ہے۔
جواب:
جہری قرات کی صورت میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں علماء کے تین اقوال ہیں:
① جہری صلاۃ میں اگر مقتدی امام کی قرات سن رہا ہے تو اسے نہ سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے اور نہ کوئی اور سورت ، جمہور علماء کا مسلک یہی ہے اور یہی مذہب امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کا ہے، امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے۔
② دوسرا قول یہ ہے کہ سری صلاۃ کی طرح جبری صلاۃ میں بھی مقتدی پر سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے ، شافعیہ کا مذہب یہی ہے اور امام حزم کا بھی یہی قول ہے۔
اضافہ:
اور اسی کے قائل شیخ ابن باز اورشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ بھی ہیں۔
③ اس بارے میں تیسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا مستحب ہے اہل علم کی ایک جماعت اس کے قائل ہیں اور یہی امام اوزاعی کا بھی مسلک ہے۔
میری رائے کے مطابق بہتر اور صحیح مسلک پہلا قول ہے اور یہی جمہور علماء کی رائے ہے کہ جہری قرات کی صورت میں اگر مقتدی امام کی قرات سن رہا ہے نہ تو اسے سورہ فاتحہ پڑھنا ہے اور نہ ہی کوئی دوسری سورت پڑھے گا، اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا عمل اس پر دلالت کرتا ہے اور اکثر حدیثوں کا اتفاق اس پر نظر آتا ہے نیز اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے امام کی قرات کرنے کی صورت میں خاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
(الاعراف:204)
اور جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو خاموش رہو کہ تم پر رحم کیا جائے۔
امام کے قرات کرنے کی صورت میں خاموش رہنے کی وجوب کی تائید وہ حدیث بھی کرتی ہے جو صحیح مسلم میں حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بار رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا جس میں آپ نے ہمارا طریقہ واضح کیا اور ہمیں صلاۃ سکھلائی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی صفوں کو سیدھی رکھو پھر تم میں سے کوئی تمہاری امامت کرے۔ جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، ایک لمبی حدیث ذکر کی اور اس حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ جب امام پڑھے تو خاموش رہو، یہ حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے، اسی طرح امام احمد بن حنبل، امام داؤد، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
امام تو اس لیے بنایا گیا ہے کہ تم لوگ اس کی اتباع کرو لہذا جب وہ اللہ اکبر کہے تو بھی اللہ اکبر کہو اور جب امام قرات کرے تو خاموش رہو۔
امام مسلم سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے تعلق کا پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا :
یہ حدیث میرے نزدیک صحیح ہے۔
امام کے جہراً قرات کی صورت میں مقتدی کے خاموش رہنے پر یہ حدیث بھی دلیل ہے، جسے اصحاب سنن وغیرہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صلاۃ پڑھائی جس میں آپ نے جہرا قرات کی، صلاۃ کے بعد آپ نے سوال کیا کہ کیا کوئی ابھی میرے ساتھ ساتھ قرات کر رہا تھا ؟ ایک شخص نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ ایسا ہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہی وجہ ہے کہ میں سوچ رہا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ قرات کرنے پر مجھے الجھن ہورہی ہے، تو جب لوگوں نے سن لیا تو اس کے بعد سے جب صلاۃ میں نبی ﷺ آواز سے قرات کرتے تھے تو لوگوں نے قرات کو ترک کر دیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے راوی ابن اکیمہ کی وجہ سے کچھ علماء نے اس حدیث پر کلام کیا ہے حالانکہ یہ کوئی بڑی اہم بات نہیں ہے کیونکہ ابن اکیمہ کے بارے میں امام کبھی ابن سعید کہتے ہیں کہ وہ ثقہ ہیں اس طرح اور علماء نے بھی ثقہ قرار دیا ہے۔
اسی طرح اس حدیث میں وارد جملہ: لوگ امام کے پیچھے قرات سے رک گئے اس کے بارے میں بعض علماء کا قول ہے کہ لفظ حدیث میں مدرج ” یعنی اضافہ ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول نہیں ہے بلکہ یہ امام زہری کا قول ہے جیسا کہ امام بخاری ، امام ذیلی اور امام داؤد وغیرہ کا خیال ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث سے استدلال بہر حال صحیح ہے، خواہ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہو یا امام زہری کا چنا نچہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ مجموع فتاوی 274/23 میں لکھتے ہیں کہ اگر یہ قول زہری کا مان لیا جائے تو بھی یہ بہت بڑی دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہری صلاۃ میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین قرات نہیں کرتے تھے کیونکہ زہری اپنے زمانہ کے بہت بڑے امام اور اپنے زمانہ کے علماء میں حدیث کا علم رکھنے والے ایک بہت بڑے عالم ہیں، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قرات واجب یا مستحب ہوتی تو یہ عام احکام میں ہوتی ، جسے صحابہ وتابعین جانتے ہوتے اور امام زہری کو بھی اس کا علم ہوتا، نیز امام زہری کا یہ بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا نہیں تھا ، چہ جائے کہ امام زہری یہ وضاحت کر رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جہری صلاۃ میں قرات نہیں کرتے تھے۔
امام کے پیچھے جہری صلاۃ میں قرات کی عدم مشروعیت پر اس سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے کہ ایک مشہور حدیث ہے جس کا امام ہو تو امام کی قرات اس کی یعنی مقتدی کی قرات ہے اس حدیث کو ائمہ کی ایک جماعت نے متعدد سندوں سے متعدد صحابہ سے روایت کیا ہے اس بارے میں سب سے معتبر روایت حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث ہے، حالانکہ وہ ضعیف ہے، ماہرین فن علماء نے اس پر سخت کلام کیا ہے اس حدیث سے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ مجموع فتاوی 18 / 271-271 میں لکھتے ہیں، یہ حدیث مرسل و مسند دونوں طرح سے مروی ہے، البتہ قابل اعتماد ائمہ نے اسے عبد اللہ بن شداد سے مرسل ہی روایت کیا ہے اور بعض ائمہ نے اسے مسند روایت کیا ہے، نیز امام ابن ماجہ نے بھی اسے مسند ہی روایت کیا ہے لیکن اس مرسل روایت کی تائید قرآن وسنت کے ظاہر ہی سے ہو رہی ہے اور صحابہ و تابعین اور جمہور اہل علم کی رائے یہی ہے تو اس قسم کی مرسل حدیث سے استدلال پر ائمہ اربعہ وغیرہ کا اتفاق ہے، اس حدیث اور اس کے طرق پر تفصیلی گفتگو امام دار قطنی رحمہ اللہ کی العلل میں موجود ہے۔
مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ امام بخاری و مسلم رحمہ اللہ کی روایت کردہ حضرت عبادہ بن صامت کی حدیث:
لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب .
(البخاری، الآذان : 714)
جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی صلاۃ نہیں ہوتی۔
اپنے عام معنی میں نہیں بلکہ جو آیت و حدیث اوپر مذکور ہیں ان سے اس عام کو خاص کر دیا گیا ہے ۔ اس طرح امام مسلم رحم اللہ کی روایت کردہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث :
من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج ثلاثا غير تمام . (رواه مسلم)
جس نے کوئی ایسی صلاۃ پڑھی جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ صلاۃ ناقص ہے۔
یہ حدیث بھی خاص ہے، یہ دونوں حدیثیں اور اس معنی کی دیگر حدیثیں مقتدی کے علاوہ صلاۃ ادا کرنے کے لیے ہیں، اس طرح تمام حدیثوں میں تطبیق ہو جاتی ہیں۔
ان حدیثوں کے عدم عموم کی تائید امام احمد بن حنبل کے ذکر کردہ اجتماع سے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل” کہتے ہیں کہ اہل اسلام میں سے کسی سے بھی نہیں سنا جو یہ کہتا ہو که امام جب جہری قرات کر رہا ہو اور اس کے پیچھے قرات نہ کی جائے تو صلاۃ نہیں ہوگی۔ البتہ حضرت عبادہ بن صامت کی وہ حدیث جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی صلاۃ پڑھائی اور جس میں قرات کرنا آپ کے لیے مشکل ہو گیا، پھر جب صلاۃ سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا :
میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو لوگوں نے جواب دیا کہ ہاں ضرور پڑھتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تفعلوا إلا بأم القرآن، فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها .
(ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ بھی نہ پڑھو کیونکہ بغیر سورہ فاتحہ کے صلاۃ نہیں)
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام ابن ماجہ کے علاوہ اصحاب سنن نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں محمد بن اسحاق روای ہیں جن کے بارے میں امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ اس حدیث کو ان کے علاوہ اور کسی راوی سے مرفوعا نہیں روایت کیا۔ شیخ الاسلام مجموع الفتاوی 286/23 میں لکھتے ہیں کہ حدیث ائمہ حدیث کے نزدیک کئی اعتبار سے معلل ہے ( یعنی عیب دار ) ہے امام احمد اور دیگر ائمہ نے اسے ضعیف گردانا ہے، نیز شیخ الاسلام ان لوگوں کا قول نقل کرنے کے بعد جو اس حدیث کو حسن یا صحیح کہتے ہیں، لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کچھ پڑھتے تھے یا نہیں پڑھتے تھے، اس کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں تھا اور اور یہ امر واضح ہے کہ اگر مقتدیوں پر قرات کرنا واجب ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ضرور حکم دیتے کیونکہ بیان وضاحت کو وقت حاجت سے مؤخر کرنا جائز نہیں۔ اگر عام لوگوں کے علم میں یہ بات ہوتی تو سورہ فاتحہ ضرور پڑھتے لیکن کسی ایک یا دو اشخاص نے بھی نہیں پڑھا اور سوال کرنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی، اس لیے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے جہری صلاۃ میں امام کے پیچھے پڑھنا ضروری نہیں ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ لوگ آپ کے پیچھے پڑھتے ہیں تو سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ اور پڑھنے سے منع کر دیا ، جو یہ ذکر کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرات کرنا مشکل ہو گیا تو یہ اس وقت ہوگا جب امام جہراً قرات کرنے کی حالت میں مقتدی بھی قرات کرے خواہ سورہ فاتحہ پڑھے یا اس کے علاوہ کوئی اور سورت پڑھے، لہذا جو چیز بھی امام کی قرات پر التباس اور مشکل ہونے کا سبب بنے وہ ممنوع ہوگا۔ لہذا مذکورہ بیان کی روشنی میں جو مسلک میرے نزدیک راج ہے وہ یہی ہے کہ امام کے جہر ا قرات کرنے کی صورت میں مقتدی کا قرات کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی منع کا مفہوم پایا جاتا ہے، لیکن امام کے سکتات (یعنی درمیان میں خاموش ہونا) کی حالت میں اگر مقتدی قرات کر سکتا ہے تو یہ مطلوب ہےور نہ قرات نہ کرنے کی وجہ سے اس پر کوئی حرج نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرات سے منع فرمایا ہے۔ فرمان نبوی ہے:
جس چیز سے میں منع کروں اس سے حتی الامکان بچو اور جس چیز کا حکم دوں اس پرختی الامکان عمل کرو، اس حدیث کو امام احمد اور امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ واللہ اعلم
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو جگہ سکتہ (خاموشی) فرمایا کرتے تھے:
ایک جب آپ صلوۃ شروع فرماتے اور دوسرے جب آپ قرات سے فارغ ہو جاتے۔
دوسری روایت میں ہے:
ایک سکتہ جب آپ ’’الله اكبر “ کہتے اور دوسرے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالین پر ۔
(ابوداؤد، ترمذ ی ، ابن ماجہ)
رفع الیدین
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وأصحابه اتباعه أجمعين، وبعد :
سوال:
اس صحیح و متواتر حدیث سے متعلق جو صلاۃ میں رکوع کرنے سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں ہاتھوں کو اٹھانے کے متعلق یہ حدیث صحیح ہے اور صحیح بخاری ومسلم اور سنن ابی داؤد میں موجود ہے، سوال یہ ہے کہ احناف اس حدیث کو کیوں قبول نہیں کرتے ؟ اس حدیث کو چھوڑنے کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ حدیث امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو اس وقت نہیں پہنچی تھی ؟
جواب :
الحمد للہ ! جس حدیث کی طرف سائل نے اشارہ کیا ہے اس کے الفاظ یوں ہیں:
عن سالم بن عبد الله، عن أبيه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه حذو منكبيه إذا افتتح الصلاة وإذا كبر للركوع، وإذا رفع رأسه من الركوع رفعهما كذلك أيضا وقال: سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد، وكان لا يفعل ذلك فى السجود.
(صحیح بخاری: 735 صحیح مسلم : 390)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صلاۃ شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تب بھی اسی طرح اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور سمع اللہ لمن حمدہ ، ربنا لک الحمد کہتے اور سجدوں میں ایسا نہیں کرتے تھے۔
جمہور علماء نے اس حدیث پر عمل کیا ہے اور حدیث میں مذکور مقامات میں رفع الیدین کرنے کو مستحب قرار دیا ہے اور امام بخاری نے خاص اس مسئلے پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا انہوں نے نام دیا ہے ( جزء رفع الیدین ) اس میں انہوں نے ان دو مقامات پر (رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے) دونوں ہاتھوں کا اٹھانا ثابت کیا ہے۔ اور جو اس کی مخالفت کرتے ہیں ان پر سخت انکار کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صلاۃ میں رکوع کے لیے جھکتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ حسن بصری نے کسی ایک صحابی کو بھی مستثنیٰ نہیں کیا اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے یہ ثابت ہے کہ وہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔
(دیکھئے علامہ نووی رحمہ اللہ کی کتاب : الجموع شرح المذہب ج : 3 : 399 تا 405)
باقی رہی یہ بات کہ رفع الیدین کی احادیث امام ابوحنیفہ کو پہنچی تھی یا نہیں؟ تو اس بارے میں ہم نہیں جانتے۔ البتہ ان کے پیروکاروں کو تو یہ احادیث پہنچیں ہیں۔ لیکن انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ کیونکہ ان کے نزدیک دوسری ان احادیث اور آثار سے ٹکراتی ہیں جو تکبیر تحریمہ کے علاوہ باقی مقامات پر رفع الیدین نہ کرنے کے بارے میں ہیں۔
ان میں سے ایک وہ روایت ہے جسے ابوداؤد نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صلاۃ شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے قریب اٹھاتے اور پھر دوبارہ ایسا نہ کرتے ۔
اور ایک وہ روایت جسے ابوداؤد نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا:
کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی صلاۃ نہ پڑھاؤں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃ پڑھی تو صرف ایک مرتبہ ہاتھ اٹھایا۔
(دیکھئے علامہ زیلعی کی کتاب نصب الراسيه ج : 1 ص : 407/393)
لیکن حدیث کے اماموں اور حافظین نے ان احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ براء ابن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام سفیان بن عیینہ، امام شافعی، امام بخاری کے استاد امام حمیدی، امام احمد بن حنبل، امام یحیی بن معین، امام دارمی، امام بخاری وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت کو امام عبد اللہ بن مبارک ، امام احمد بن حنبل ، امام بخاری ، امام بیہقی اور امام دار تقسیم وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس طرح وہ آثار جو رفع الیدین نہ کرنے کے بارے میں انہوں نے (احناف نے ) بعض صحابہ سے نقل کی ہیں وہ بھی سب ضعیف ہیں، اور امام بخاری کا قول پہلے گزر گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔
(دیکھئے حافظ ابن حجر کی کتاب الخیص المير ، ج:1 ص: 221-223)
پس جب رفع الیدین نہ کرنے کے بارے میں نقل کی گئی احادیث و آثار کا ضعیف ہونا ثابت ہو گیا تو رفع الیدین کرنے والی احادیث رہ گئیں جن سے ٹکرا نے والی کوئی حدیث نہیں ہے۔ اس لیے مومن کو چاہیے کہ احادیث میں جن مقامات پر رفع الیدین کرنے کا ثبوت آیا ہے ان مقامات میں رفع الیدین کرنا نہ چھوڑیں اور پوری کوشش کریں کہ اس کی صلاۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ کی طرح ہو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلوا كما رأيتموني أصلي.
(بخارى: 431)
صلاۃ اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
اسی وجہ سے امام بخاری کے استاد امام علی بن المدینی نے فرمایا:
مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ صلاۃ میں رکوع جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کریں۔ سنت کے واضح ہو جانے کے بعد کسی کے لیے جائز نہیں کہ کسی عالم کی تقلید کی وجہ سے سنت پر عمل کرنا چھوڑ دے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس کے سامنے نبی کریم ﷺ کی سنت واضح ہو جائے تو اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی کے قول کی وجہ سے سنت چھوڑ دے ۔
( مدارج السالکین ، ج : 2 ص : 332)
جب ایک شخص امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کی پیروی کرنے والا ہو اور بعض مسائل میں اسے کسی دوسرے امام کا قول زیادہ مضبوط معلوم ہو جائے اور وہ اپنے امام کی بات چھوڑ کر اس صحیح اور راجح قول کی پیروی کرے تو اس کا یہ کام بہت اچھا ہے۔ اس سے اس کی دینداری اور دیانتداری میں کوئی خلل نہیں پڑتا، اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ یہ حق کے زیادہ قریب اور اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ پسند ہے، جیسا که شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی فتاوی، ج: 22 ص: 247 میں فرمایا ہے۔ صلاۃ میں ان تین مقامات ( صلاة شروع کرتے وقت، رکوع کے لئے جھکتے اور رکوع سے اٹھتے وقت) کے علاوہ ایک چوتھے مقام پر بھی رفع الیدین کرنا سنت ہے اور وہ ہے درمیانی تشہد سے تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق جانے اور حق کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ واللہ اعلم، فضلی اللہ علی نبینا محمد۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو صلاۃ میں رکوع اور سجدہ پورا نہ کرے وہ صلاۃ میں چوری کرتا ہے۔
(موطا امام مالک: 167/1)
بھاگ کر اکثر لوگ رکوع میں شامل ہو جاتے ہیں اور اس کو پوری رکعت سمجھتے ہیں حالانکہ ان سے سورۃ الفاتحہ اور قیام چھوٹ جاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورہ فاتحہ کے بغیرہ صلاۃ نہیں ہوتی ، لہذا اطمینان کے ساتھ رکوع کریں اور سیدھے کھڑے ہوں پھر اطمینان سے سجدہ کریں اور سیدھے بیٹھ جائیں اور پھر دوسرا سجدہ ۔ جلدی جلدی سجدے کرنا قطعا منع ہے۔
✿ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے رکھے۔
(صحیح ابوداؤد)
✿ سجدہ میں ناک اور پیشانی زمین پر لگائیں ۔
( بخاری:82 )
✿ سجدے میں سینہ، پیٹ اور رانیں زمین سے اونچی رکھیں، پیٹ کو رانوں سے اور رانوں کو پنڈلیوں سے الگ رکھیں ۔
(ابوداؤر : 73)
✿ سجدے کی حالت میں کلائیوں کو زمین کے ساتھ مت لگا ئیں ۔
( بخاری:822 )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مجھے ساتھ ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پیشانی، دونوں ہاتھ ، دونوں گھٹنے اور دونوں قدموں کے پنجوں پر۔
(بخاری:812)
✿ عورتیں اپنے بازؤں کو زمین پر بچھالیتی ہیں اور زمین کے ساتھ چپک جاتی ہیں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور یہ غلط ہے عورت کی صلاۃ مرد کی صلاۃ کی طرح ہے۔
✿ عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ( تشہد ) میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور اپنی راہنی انگلی (شہادت کی انگلی اٹھا لیتے ، اس کے ساتھ دعا مانگتے اور انگلی کو حرکت دیتے۔ یعنی التحیات دعائے ابرا ہیمی اور دعا پڑھتے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلاة میں ادھر ادھر دیکھنا ، بندے کی صلاۃ میں شیطان کا حصہ ہے۔
(بخاری: 751)
اگر کوئی شخص سلام کرے تو آپ دوران صلاۃ دائیں ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دیں۔ مگر زبان سے کچھ مت کہیں۔
(ابوداؤد، باب رد السلام فی الصلاۃ:925)
✿ سجدہ سہو سلام پھیرنے سے قبل بھی کر سکتے ہیں ۔
( بخاری: 929)
صف بندی:
✿ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اپنی صفوں کو برابر کرو۔ بلاشبہ صفوں کی درستگی صلاۃ کے قائم کرنے میں سے ہے۔ (بخاری)
✿ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو برابر کرتے گویا ان کے ساتھ پیروں کو برابر کرتے ہوں۔ یہاں تک کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صفوں کا سیدھا کرنا سمجھ لیا۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور تکبیر کہنے والے تھے کہ ایک شخص کو دیکھا جس کا سینہ باہر نکلا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا:
اپنی صفوں کو سیدھا اور برابر کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تم میں اختلاف ڈال دیں گے۔ (مسلم)
✿ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صفوں کو سیدھا کرو، کیونکہ میں تمہیں پیٹھ کے پیچھے بھی دیکھتا ہوں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ) انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص اپنا کندھا دوسرے کندھے سے اور اپنا قدم ہر دوسرے کے قدم سے ملا دیتا تھا۔ (بخاری)
جوتے پہن کر صلاة:
✿ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ننگے پاؤں ہوتے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتا پہن رکھا ہوتا۔
(ابوداؤد، کتاب الصلاة)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کہ جب کوئی صلاۃ ادا کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنا جوتا پہن لے یا اتار کر پاؤں کے درمیان رکھ لے۔ کسی کو اس سے ایذا نہ پہنچے۔ ایک روایت میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوتوں کے ساتھ صلاۃ کی ادائیگی کی تاکید کی اور فرمایا یہودیوں کی مخالفت کرو وہ جوتے اور موزے پہن کر صلاۃ نہیں ادا کرتے۔
(ابوداؤد، کتاب الصلاة)
صلاۃ میں سترہ کا واجب ہونا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص صلاۃ ادا کرنے لگے تو وہ سترہ کے قریب ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان اس کے آگے سے گزر کر اس کی صلاۃ فاسد کرے۔
(ابوداؤد، کتاب الصلاة)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نیزہ یا اونٹ کے پالان کو سترہ بنا لیا کرتے تھے۔
(صحیح بخاری)
سترہ کی حد کے بارے میں کوئی حدیث نہیں۔ علماء کرام کی آراء ہے کہ سترہ کی حد سجدہ کی حد تک ہے۔ اس کے آگے سے گزرا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)
ننگے سر صلوٰۃ پڑھنا:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات ننگے سر صلوٰۃ پڑھا کرتے تھے۔ (ابن عساکر)
ترجمه صلاة
تکبیر تحریمہ:
✿ الله اکبر۔ اللہ سب سے بڑے ہیں۔
دعاء استفتاح (صلاۃ کے شروع کی دعا)
✿ اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم نقني من خطاياي كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس. اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثلج والبرد.
(بخاری ومسلم)
اے اللہ! دوری کر دے میرے درمیان اور میرے گناہوں کے درمیان جیسا کہ تو نے دوری کی ہے مشرق اور مغرب کے درمیان، اے اللہ ! مجھے پاک صاف کر دے گنا ہوں سے جیسا کہ صاف کیا جاتا ہے سفید کپڑا میل کچیل سے۔ اے اللہ ! دھودے میرے گناہوں کو پانی اور برف اور اولوں سے ۔
✿ سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك وتعالى جدك، ولا إله غيرك.
(ابوداؤد، ابن ماجه تر مذی)
پاک ہے تو اے اللہ! اور سب تیری ہی تعریف ہے اور بہت برکت والا تیرا نام اور بہت بلند ہے تیری شان اور نہیں کوئی معبود تیرے سوا۔
✿ أَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّجِيمِ.
پناہ مانگتا ہوں اللہ کی شیطان مردود سے۔
✿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.
اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے۔
تعوذ و تسميه مع سورة الفاتحة:
أَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّجِيمِ.
✿ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
پناہ مانگتا ہوں اللہ کی شیطان مردود (کے شر) سے اللہ کے نام سے (شروع کرتا ہوں) (جو) بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، (جو) تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ (جو) بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ بدلے کے دن (یعنی قیامت) کا مالک ہے۔ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھی راہ دکھا ۔ ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
✿ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ﴿١﴾ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿٢﴾ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿٣﴾ ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿٤﴾ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ ﴿٥﴾ لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ﴿٦﴾ ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ ﴿٧﴾ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ﴿٨﴾
مشغول ہو تم کثرت (مال و اولاد) کی چاہت میں (اللہ کی یاد سے) یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔ ہر گز نہیں تم عنقریب معلوم کر لو گے ہر گز نہیں پھر تمہیں جلد علم ہو جائے گا۔ ہرگز نہیں پھر تم یقینی طور پر جان لو ( تو کبھی غفلت نہ کرتے ) تو بے شک جہنم دیکھ لوگے۔ اسے یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے۔ پھر اس دن ضرور بالضرور تم سے نعمتوں کا سوال ہوگا۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ .
✿ وَالْعَصْرِ ﴿١﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴿٣﴾
زمانے کی قسم۔ بے شک انسان یقیناً خسارے میں ہے۔سوائے ان لوگوں کے جوایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے اور ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہے حق پر چلنے کی اور ایک دوسرے کو تلقین کرتے رہے صبر کرنے کی۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
✿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ(1)اَللّٰهُ الصَّمَدُ(2)لَمْ یَلِدْ ﳔ وَ لَمْ یُوْلَدْ(3)وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ(4)
آپ کہہ دیں کہ وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے ( کسی کا محتاج نہیں ) نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ اور نہیں ہے اس کا کوئی ہمسر ۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
✿ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ(1)مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ(2)وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ(3)وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ(4)وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ(5)
آپ کہہ دیں کہ میں پناہ میں آتا ہوں صبح کے رب کی۔ (ہر اس چیز کی) برائی سے جو اس نے پیدا کی۔ اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے۔ اور گرہوں میں پھونکیں مارنے والی عورتوں کے شر سے اور حسد کرنے والے کے شرسے جب وہ حسد کرے۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ .
✿ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ(1)مَلِكِ النَّاسِ(2)اِلٰهِ النَّاسِ(3)مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ﳔ الْخَنَّاسِ(4)الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ(5)مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ(6)
آپ کہہ دیں میں پناہ میں آتا ہوں لوگوں کے رب کی ۔ لوگوں کے بادشاہ ( کی ) لوگوں کے معبود ( کی) وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے کے شر سے۔ جو وسوسہ ڈالتا ہے لوگوں کے سینوں میں (خواہ وہ ) جنات میں سے ہو (یا) انسانوں میں سے۔
رکوع کی دعائیں:
✿ سُبْحانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ
(ترمذی)
پاک میراعظمت والا رب ۔ ( زیادہ سے زیادہ اور طاق پڑھیں)۔
✿ سبحانك اللهم ربنا وبحمدك. اللهم اغفر لي.
(بخاری و مسلم)
تو پاک اے اللہ! اے ہمارے رب اور سب تعریف تیری ہے۔ اے اللہ مجھے بخش دے۔
✿ سبوح قدوس رب الملائكة والروح . (مسلم)
بہت پاکیزگی والا ، بہت مقدس ہے۔ فرشتوں اور روح الامین (جبرائیل) کارب۔
✿ سبحان ذي الجبروت، والملكوت، والكبرياء والعظمة. (ابوداؤد)
پا کی ہے غلبے والے بادشاہی والے اور بڑائی والے اور عظمت والے (رب) کی۔
رکوع سے اٹھنے کی دعا:
✿ سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ . (بخاری ومسلم)
اللہ نے سن لیا اسے جس نے تعریف کی اس کی۔
قومے (رکوع کے بعد) کی دعائیں:
✿ اللهم ربنا ولك الحمد . (بخاری)
اے اللہ ! اے ہمارے رب تیری ہی تعریف ہے۔
✿ربنا ولك الحمد ، حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه. ( بخاری، ابوداؤد)
اے ہمارے رب! اور تیری ہی تعریف ہے۔ بہت زیادہ تعریف پاکیزہ (کہ) برکت کی گئی ہو اس میں ۔
سجدے کی دعائیں:
✿ سبحان ربي الأعلى. (ترمذى)
پاک ہے میرا بلندرب، ( زیادہ سے زیادہ اور طاق پڑھیں۔)
✿ سبحانك اللهم ربنا وبحمدك، اللهم اغفر لي.( بخاری و مسلم)
اے اللہ ! تو پاک ہے۔ اے ہمارے رب! اور سب تعریف تیری ہے، اے اللہ مجھے بخش دے۔
✿ سبوح قدوس رب الملائكة والروح. (مسلم)
بہت پاکیزگی والا، بہت مقدس ہے۔ فرشتوں اور روح الامین ( جبرائیل ) کا رب ہے۔
دو سجدوں کے درمیان کی دعائیں :
رب اغفر لي، رب اغفر لي. (ابوداؤد)
اے میرے! مجھے بخش دے۔ (دو مرتبہ )
اللهم اغفر لي، وارحمني. واھد نی، واجبرني، وعافني. وَارْزُقْنِي (ابوداؤد)
اے اللہ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما، اور مجھے ہدایت اور مجھے عافیت اور مجھے رزق عطا فرما۔
تشہد کی دعا:
التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبى ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله . (بخاری ومسلم)
اللہ تعالی ہی کے لیے ہے تعظیمات صلاۃ ( سجدہ) اور پاک اعمال ۔ سلامتی ہو آپ پر اے نبی ﷺ اور اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ( نازل ) ہوں ۔ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
سوال: تشہد میں التحیات اللہ والصلوات کا کیا معنی ہے؟
جواب: التحیات کا مطلب تمام تعظیمی کلمات یعنی ( قولی عبادتوں ) کا حقدار صرف اللہ تعالٰی ہے اور خالص اس کے لیے ہیں۔
کیونکہ تحیہ کا لفظ تعظیم اور اکرام کے معنی میں ہے تو تعظیم و احترام کی تمام قسموں کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کے لیے خاص ہیں۔
اور صلوات یعنی بدنی عبادتیں صلاۃ اللہ کے لیے ہیں اللہ کے علاوہ کسی کے لیے صلاة نہیں پڑھی جائے گی۔ طیبات کا مطلب اولاد آدم کے پاکیزہ اعمال اللہ کے لیے ہیں پس اللہ پاک ہے اور پاک چیز ہی کو قبول کرتا ہے۔ اسی طرح تمام پاکیزہ اقوال افعال اور اوصاف اللہ کے لیے ہیں اللہ کی تمام باتیں پاک اور کام پاک اور تمام اوصاف بھی پاک ہیں۔ تو ہر چیز میں سے پاک اشیاء صرف اللہ تعالی کے لیے ہیں اور وہ خود جل شانہ پاک ہے اور پاک چیز کو ہی قبول کرتا ہے۔ (شیخ العثیمین)
دعائے ابراہیمی:
اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيد. اللهم بارك على محمد وعلى ال محمد كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيد . (بخارى)
اللہ رحمتیں نازل فرما محمد ﷺ اور محمد ﷺ کی آل پر جیسا کہ تو نے رحمت نازل کی ابراہیم علیہ السلام پر اور ابراہیم علیہ السلام کی آل پر، بے شک تو تعریف والا ، بزرگی والا ہے۔ اے اللہ برکتیں نازل فرمامحمد ﷺ اور محمد ﷺ کی آل پر جیسا کہ تو نے برکت نازل کی ابراہیم علیہ السلام پر اور ابراہیم علیہ السلام کی آل پر، بے شک تو تعریف والا ، بزرگی والا ہے۔
دعائے ابراہیمی کے بعد کی دعا ئیں:
اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت، فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني، إنك أنت الغفور الرحيم . (بخاری ومسلم)
اے اللہ ! بے شک میں نے ظلم کیا ہے اپنی جان پر بہت ظلم اور کوئی نہیں معاف کر سکتا گناہوں کو تیرے سوا پس بخش دے مجھے بخشا اپنی طرف سے اور مجھ پر رحم فرما۔ بے شک آپ ہی بخشنے والے بڑے مہربان ہیں۔
سلام:
السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ . (دونوں طرف) سلامتی ہو آپ پر اور اللہ کی رحمتیں ( نازل ) ہوں۔
سجدہ سہو :
صلاۃ میں کمی یا زیادتی کی صورت میں سجدہ سہو کرنا ضروری ہے۔ سجدہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے بھی کر سکتے ہیں ہیں اور دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد بھی۔ (مسلم) ایک طرف سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کرنا ثابت نہیں۔
نوٹ: اگر آپ کو شک ہو کہ آپ نے صلوۃ کی رکعتوں میں کمی یا زیادتی کر دی ہے سجدہ سہو لازم ہے، التحیات، دعائے ابراہیمی اور دوسری دعاؤں کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدہ کر لیں اور اگر سلام پھیرنے کے بعد غلطی کا علم ہو تو اضافی دو سجدے کریں اور سلام پھیر لیں۔
سلام کے بعد کے وظائف:
الله اكبر . (ایک مرتبہ بلند آواز سے ) ۔ (بخاری)
اللہ سب سے بڑا ہے۔
أستغفر الله أستغفر الله، أستغفر الله. تین مرتبہ بلند آواز سے۔ (مسلم)
میں اللہ سے بخشش مانگتا ہوں۔
اللهم أنت السلام، ومنك السلام، تباركت يا ذا الجلال والإكرام . (مسلم)
اے اللہ! تو ( ہر عیب سے ) سلامت ہے اور تجھ سے ہی سلامتی ہے، تو بہت برکت والا ہے ۔ اے بزرگی اور عزت والے۔
اللهُمَّ أَعِنِّى عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ . (ابوداود)
اے میرے رب ! میری مدد فرما، اپنے ذکر کرنے اور اپنے شکر ادا کرنے پر اور اپنی اچھی عبادت پر۔
لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد. وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ، ولا ينفع ذا الجد منك الجد.( بخاری و مسلم)
کوئی معبود نہیں اللہ کے علاوہ ، وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کی بادشاہی ہے اور اس کی سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ ! کوئی روکنے والا نہیں (اس چیز ) کو جو تو عطا کرے۔ اور کوئی دینے والا نہیں ( اس چیز ) کو جو تو روک لے۔ اور نہیں نفع دے گی شان والے کو تیرے (عذاب) سے (اس کی) شان ( مال و جاہ ) ۔
آیتہ الکرسی :
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (البقرة :۲۵۵)
اللہ (وہ ہے کہ ) کوئی معبود نہیں مگر وہی زندہ ہے (سب کا ) تھامنے والا ہے۔ نہیں آتی اسے اونگھ اور نہ ہی نیند، اس کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے کون ہے جو سفارش کر سکے اس کے پاس۔ مگر اس کی اجازت سے، وہ جانتا ہے جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ نہیں احاطہ کر سکتے کسی چیز کا اس کے علم میں سے مگر جو کچھ وہ چاہے سما لیا ہے اس کی کرسی نے آسمانوں اور زمین کو اور اسے نہیں تھکاتی ان دونوں کی نگہبانی اور وہی بلند مرتبے والا ، بڑی عظمت والا ہے۔
سُبْحَانَ الله. (33 بار) اللہ پاک ہے ( ہر قسم کے عیب سے)
الحَمْدُ لِلهِ. (33 بار) تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔
الله اكبر. (34 بار) اللہ سب سے بڑا ہے۔
ہر صلاۃ کے بعد سورۃ الاخلاص ، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کو پڑھنا بھی مسنون ہے۔ (ابوداؤد)
فجر کے بعد اذکار :
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جواللہ تعالی سے تین بار جنت مانگتا ہے تو جنت کہتی ہے: اے اللہ اسے جنت میں داخل کردے، اور جو تین مرتبہ جہنم سے پناہ مانگتا ہے تو جہنم کہتی ہے: اے اللہ اس کو جہنم سے نجات دے۔
(صحیح الترمذی)
کریب رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ پڑھنے کے بعد صبح سویرے ان کے یہاں تشریف لے گئے ، اس وقت وہ اپنی صلوۃ پڑھنے والی جگہ میں تھیں پھر دن چڑھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس واپس تشریف لائے تو وہ (اسی طرح) بیٹھی ہوئی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم اب تک اسی حالت میں بیٹھی ہوئی ہو جس پر میں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا؟ انہوں نے عرض کی: جی ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تمہارے یہاں جانے کے بعد میں نے چار کلمے تین بار کہے، اگر ان کو ان کے ساتھ تولا جائے جو تم نے آج کے دن اب تک کہا ہے تو یہ ان سے وزن میں بڑھ جائیں گے:
✿ سبحان الله وبحمده عدد خلقه ورضا نفسه وزنة عرشه ومداد كلماته .
پاکیزگی ہے اللہ کی اور اس کی تعریف کے ساتھ ، جتنی اس کی مخلوق کی گنتی ہے اور جتنی اس کو پسند ہے اور جتنا اس کے عرش کا وزن اور جتنی اس کے کلمات کی سیاہی ہے۔
✿ مغرب کے بعد سات مرتبه: اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنَ النَّارِ
اے اللہ ! مجھے آگ سے نجات دے۔
✿ مغرب کے بعد 10 مرتبه: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحيي ويميت، وهو على كل شيء قدير .
✿ فجر کے بعد 10 مرتبه: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحيي ويميت ، وهو على كل شيء قدير –
صلاۃ میں رکعتوں کی تعداد :
✿ فجر : دوسنت، دو فرض
✿ ظہر دو یا چار سنت، چار فرض، دوسنت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے دورکعت مروی ہیں ظہر سے پہلے۔
✿ عصر: چار فرض
✿ مغرب : تین فرض، دوسنت
✿ عشاء چار فرض، دوسنت، ایک وتر یا تین یا پانچ وتر یا سات وتر یا نو وتر ( لیکن وتر عشاء کی صلوٰۃ کا حصہ نہیں ہیں )
وتر پڑھنے کا طریقہ:
دووتر کے بعد سلام پھیرنے کے بعد ایک اکیلا پڑھ لیں یا ایک ساتھ تین پڑھ لیں دو کے بعد تشہد میں بیٹھے بغیر ۔
پانچ وتر کے لیے صرف آخری رکعت میں التحیات اور دعا پڑھ کر سلام پھیر ہیں۔ سات رکعت کے لیے بھی آخر رکعت میں تشہد میں اور دعا کے بعد سلام پھر لیں۔ نو رکعت وتر کے لیے آٹھویں رکعت میں تشہد پڑھ کر کھڑے ہو جا ئیں بغیر سلام پھیرے اور نویں رکعت میں التحیات اور دعا کے بعد سلام پھیر لیں۔
نوٹ: قنوت آخری رکعت میں رکوع سے پہلے بھی ہے اور رکوع کے بعد بھی پڑھ سکتے ہیں۔ ہاتھ اٹھا کر بھی اور بغیر ہاتھ اٹھائے بھی اور ہر روز قنوت پڑھنا ضروری نہیں ہے، بھی پڑھ لیں کبھی مت پڑھیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی دعا میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے سوائے صلاة استقاء کے (بارش کے لیے پڑھی جانے والی صلاۃ جس میں آپ اتنے ہاتھ اٹھاتے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آتی۔ (بخاری)
فرض صلاۃ کے بعد امام کا اجتماعی دعا کر انا بدعت ہے اور یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد بھی اجتماعی دعا نہیں کروائی۔ انفرادی دعا کی جاسکتی ہے۔ فرض صلاۃ سے پہلے یا کسی بھی وقت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے الفاظ میں اللہ تعالی سے ہتھیلیوں کے رخ مانگو الٹے ہاتھوں نہ مانگو۔
(ابوداؤد صحیح الجامع)
صلاۃ کی سنتوں کی تعداد:
عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کا حال پوچھا تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے اور فرض صلاة پڑھنے کے بعد گھر میں واپس آکر دو رکعت پڑھتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی صلاۃ پڑھتے اور واپس گھر میں داخل ہو کر دورکعت پڑھتے ۔ پھر آپ لوگوں کے ساتھ عشاء کی صلاۃ پڑھتے تو گھر میں داخل ہو کر دورکعتیں پڑھتے اور رات کو 9 رکعت تہجد کی صلاۃ پڑھتے ۔ ان میں وتر بھی ہوتا تھا اور فجر کی دورکعت پڑھتے تھے۔ (فرض صلاۃ سے پہلے)۔
(مسلم، صلاة المسافرین: 730)
قیام اللیل، تہجد :
✿ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وتر پڑھنے کا طریقہ عائشہ رضی اللہ عنہا یوں فرماتی ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلاة عشاء سے فجر تک 11 رکعتیں پڑھتے ، ہر دور کعتوں پر سلام پھیرتے اور ایک وتر پڑھتے ۔
(ابو داؤد، ابواب قیام الیل : 339)
✿ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک ہی وتر پڑھتے تھے۔ (یعنی ایک رکعت ) ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا وہ ( معاویہ رضی اللہ عنہ ) فقیہ اور صحابی ہیں۔
( بخاری فضائل اصحاب :3764)
✿ ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وتر ہر مسلمان کا حق ہے۔ پس جو شخص پانچ پڑھنا چا ہے، پانچ پڑھے، جو تین رکعت پڑھنا چاہے تین پڑھے اور جو کوئی ایک رکعت پڑھنا چاہے ایک پڑھے۔
(ابوداؤد، باب الوتر :1422)
✿ برصغیر میں تین وتر ایک ساتھ پڑھتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔ دو کے بعد سلام پھیر لیں پھر ایک پڑھ لیں۔
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کہ وتر کو مغرب کی مشابہت سے نہ پڑھو۔ یا تین ایک ساتھ پڑھ لیں یعنی دو کے بعد تشہد میں نہ بیٹھیں بلکہ تیسری رکعت میں بیٹھیں ۔ متواتر قنوت پڑھنا ضروری نہیں اور ہاتھ اٹھانا بھی۔ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں۔
✿ قیام رمضان صلاة تراویح بھی گیارہ رکعت ہے وتروں کے ساتھ اور تہجد اور تراویح الگ چیز نہیں بلکہ ایک ہی صلاۃ ہے لہذا آپ الگ الگ تہجد اور تراویح نہیں پڑھ سکتے۔
✿ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر پڑھتے اور دعا قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے۔
( نسائی وابن ماجہ )
نوٹ: تراویح کا لفظ بعد کی اختراع ہے کسی حدیث میں نہیں یہ تہجد کی صلوٰۃ ہے جو گیارہ رکعت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے۔
قنوت نازلہ :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر بددعا یا کسی کے لیے نیک دعا کا ارادہ فرماتے تو آخری رکعت کے رکوع کے بعد اونچی آواز سے دعا کر دیتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آمین کہتے ۔
( بخاری، ابوداؤد )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچوں صلاۃ میں قنوت نازلہ پڑھنہ ثابت ہے۔
(ابوداؤد)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا ولید بن ولید ، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات عطا فرما۔ اے اللہ مضر قبیلہ پر اپنی گرفت مضبوط فرما اور ان پر قحط سالی مسلط کر جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے دور میں قحط سالی مسلط کی تھی ۔ اے اللہ! الحیان ، رعل ، ذکوان اور خصیہ جو اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان ہے، لعنت فرما۔
(مسند احمد و بخاری)
اور جب آپ قنوت سے فارغ ہوتے تو اللہ اکبر کہہ کر سجدے میں چلے جاتے۔
(سنن النسائی)
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ عشاء کے بعد تہجد پڑھ لیتے اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آخر رات میں پڑھتے ( یعنی آپ تہجد عشاء کے بعد سے لے کر صبح تک پڑھ سکتے ہیں ) ۔
(موطا امام مالک باب الوتر)
دعاء قنوت:
اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت. وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما أعطيت، وقني شر ما قضيت، فإنك تقضي ولا يقضى عليك، إنه لا يذل من واليت تباركت ربنا وتعاليت.
(مسند احمد، ترمذی)
اے اللہ ! مجھے ہدایت دے ان میں جن کو تو نے ہدایت دی اور مجھے عافیت دے ان میں جن کو تو نے عافیت دی اور میری سر پرستی فرما ان میں جن کی تو نے سر پرستی فرمائی اور مجھے برکت عطا فرما اس میں جو تو نے عطا فرمایا اور مجھے بچا اس نقصان سے جس کا تو نے فیصلہ کیا ہے پس بے شک تو فیصلے کرتا ہے اور نہیں کوئی فیصلہ کیا جا سکتا تیرے خلاف ۔ بے شک وہ نہیں ذلیل ہو سکتا جسے تو دوست بنالے اور نہیں وہ عزت پا سکتا جس سے تو دشمنی کرے تو بہت برکت والا ہے اے ہمارے رب اور بلند و برتر۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب دعاؤں سے زیادہ یہ جامع دعا مانگا کرتے تھے:
✿ ربنا آتنا فى الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار.
(البقره: 201، بخاری)
صلاۃ کا جمع کرنا:
✿ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی صلوة (تہجد) اگر کسی درد وغیرہ کی وجہ سے فوت ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن میں بارہ رکعت پڑھتے ۔
(مسلم، صلاة المسافرین)
✿ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر اور عصر کو جمع کیا حالانکہ وہاں خوف نہ تھا اور نہ سفر کی حالت میں ۔
(مسلم، صلاة المسافرین: 694)
✿ عبد اللہ بن شفیق رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بصرہ میں عصر کے بعد ہمیں خطبہ دینا شروع کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا اور ستارے چمکنے لگے ۔ کسی نے کہا کہ صلاۃ کا وقت ہو چکا ہے۔ آپ نے فرمایا:
کہ مجھے سنت نہ سکھاؤ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر و عصر اور مغرب عشاء ملا کر پڑھتے دیکھا ہے۔ عبداللہ بن شفیق نے کہا کہ مجھے شدید شبہ پیدا ہوا تو میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے ان کی تصدیق کی۔
(مسلم : 706)
✿ اوپر والی دونوں احادیث صحیح مسلم کی ہیں اور صحیح سند کے ساتھ یعنی کسی نے ان کو ضعیف نہیں کہا۔ لیکن میں نے آج تک کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ اس سنت پر عمل کرتا ہو۔ لہذا کبھی کبھار ایسا کرنا چاہیے تا کہ سنت رسول ﷺ پر عمل ہو سکے، نہ کہ اماموں اور مولویوں کی تقلید ہی کو سنت و فرض قرار دیا جائے۔
قصر صلاة:
✿ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور ذی الحلیفہ میں عصر کی دورکعتیں۔
(بخاری تقصیر الصلاة : 1089)
✿ یعنی تقریبا نومیل کے بعد صلاۃ کو قصر کیا جاسکتا ہے۔
✿ اگر تین دن تک ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو صلاة قصر کریں اور اگر تین دن سے زائد قیام ہو تو پھر شروع دن سے ہی پوری صلاۃ پڑھیں۔
( بخاری،تقصیر صلاة)
✿ ابن عباس رضی اللہ کی روایت کا خلاصہ: اور ایک دوسری حدیث میں 19 دن قصر کرنا بھی ثابت ہے۔
✿ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوران سفر ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کو جمع کرتے تھے۔ ( بخاری تقصیر صلاة : 1167)
✿ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ ﷺ اگر سورج ڈھلنے کے بعد سفر شروع کرتے تو ظہر اور عصر کو اس وقت تک جمع فرمالیتے اور اگر سورج ڈھلنے سے پہلے شروع کرتے تو ظہر کو مؤخر کر کے عصر کے ساتھ ادا فرمالیتے۔ اسی طرح اگر سورج غروب ہونے کے بعد سفر شروع کرتے تو مغرب و عشاء اسی وقت پڑھ لیتے اور اگر سفر سورج غروب ہونے سے پہلے شروع کرتے تو مغرب کو تاخیر کے ساتھ عشاء کے ساتھ ملا لیتے ۔
( ابوداؤد، ابواب الصلاة : 1220)
✿ سفر میں سنتیں معاف ہیں۔
( بخاری تقصیر الصلاة: 1102،1101)
✿ صلاۃ کے بعد تسبیح آپ ﷺ سے داہنے ہاتھ پہ ثابت ہے۔
(ابوداؤد)
✿ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جوتا پہننے میں، کنگھی کرنے میں، وضو کرنے میں اور اپنے ہر معاملے میں دائیں طرف سے ابتداء کرتے تھے۔ لیکن آج کل جو رانج تسبیح ہے اس کا استعمال بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
✿ مشرک اور بدعتی امام کے پیچھے صلاۃ پڑھنا کسی طرح جائز نہیں۔ جو غیر اللہ سے مدد مانگتا ہو یا بدعات میں واضح طور پر شریک ہو ایسے امام کے ساتھ صلاۃ سے اکیلے یا گھر میں پڑھنا بہتر ہے۔
صلاۃ میں خشوع کے منافی امور :
✿ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اس کی صلاۃ نہیں کہ جس کے سامنے کھانا تیار پڑا ہو (یا) جس کے پیٹ میں ہوا ہو یا پاخانہ کا زور۔
(مسلم : 1246)
جابر بن سمرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو لوگ صلاة پڑھتے ہوئے آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے ہیں، انہیں رک جانا چاہیے کہیں ان کی نظریں واپس ہی نہ لوٹیں ۔
( مسلم : 966)
✿ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلاۃ میں ادھر ادھر دیکھنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ توجہ کو ہٹاتا ہے یعنی اس سے خشوع و خضوع میں خلل پڑتا ہے۔
( بخاری : 751)
✿ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃ میں پہلو پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا۔
(مسلم: 1218)
✿ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃ میں کپڑا زمین تک لٹکانے اور منہ ڈھانپنے سے منع فرمایا۔
(ابوداؤد: 643)
✿ عبد الرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا صلاۃ میں کوے کی طرح ٹھونگیں مارنے سے (یعنی جلدی جلدی سجدے کرنے سے ) درندوں کی طرح بیٹھنے سے ( یعنی اپنے دونوں بازو کہنیوں کو زمین کے ساتھ بچھا کر سجدہ کرنا ) اور مسجد میں ایک خاص جگہ مخصوص کر لینا جس طرح اونٹ اپنی خاص جگہ پر ہی بیٹھتا ہے۔
(ابن ماجہ: 1429)
✿ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انگلیوں میں انگلیاں ڈالنا صلاۃ کے دوران ان لوگوں کی صلاۃ ہے جن سے اللہ تعالٰی ناراض ہوتے ہیں ۔
(ابوداؤد : 993)
✿ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
رات کا کھانا جب لگا دیا جائے اور جماعت کھڑی ہو جائے تو پہلے کھانا کھا لو پھر صلاۃ ادا کرو۔
( بخاری: 673)
✿ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے جب تک وہ رکوع میں نہ جائے تم بھی رکوع میں نہ جاؤ اور جب تک وہ نہ اٹھے تم بھی نہ اٹھو۔
( بخاری: 1236)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک زیبائش (یعنی نقش و نگار ) والی چادر کو اپنے سامنے سے ہٹانے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ اس کی تصویریں میری صلاۃ میں خلل اور خرابی کا باعث بنتی ہیں ۔
( بخاری )
✿ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
جب صلاۃ کے لیے آؤ تو اطمینان کے ساتھ آؤ۔ ( یعنی بھاگ کر جلدی جلدی جماعت میں شامل نہ ہوں )
( مسلم:1362)
✿ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب کسی کو جمائی آئے تو وہ اس کو روکنے کی کوشش کرے اور ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ نہ کرے ایسا کرنا شیطانی حرکت ہے۔ جس سے شیطان ہنستا ہے۔
(بخاری ومسلم : 7418)
✿ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا۔ (البتہ قرآنی دعا محض دعا کی نیت سے پڑھی جاسکتی ہے )۔
(مسلم : 1076)
✿ معیقب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو اپنے سجدہ کی جگہ کو صلاۃ کے دوران ) صاف کرنا چاہیے، کنکر وغیرہ ہٹانا چاہے تو ایک دفعہ کرلے، بار بار نہ کرے۔
(بخاری: 1207)
✿ ارشاد باری تعالی ہے:
اور ان صلاۃ پڑھنے والوں کے لیے افسوس (اور ویل نامی جہنم ) جو اپنی صلاۃ سے غافل ہیں ۔
(الماعون :5-4)
حافظ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
1۔ اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جو صلاۃ کو اول وقت پر پڑھنے کی بجائے تاخیر سے پڑھتے ہیں۔
2۔ یا وہ لوگ ہیں جو ارکان صلاۃ کو سنت طریقہ کے مطابق ادا نہیں کرتے ۔
3۔ یا وہ لوگ ہیں جو صلاۃ میں خشوع و خضوع اختیار نہیں کرتے اور صلاۃ بغیر غور وفکر اور معانی پر غور کیے بغیر صلاة پڑھتے ہیں اور جس شخص میں یہ تینوں خرابیاں پائی جاتی ہیں وہ اوپر والی آیت میں جو وعید ہے اس کا مستحق ہے اور پورے کا پورا منافق ہے۔
(تفسیر ابن کثیر :544/4)
صلاۃ میں خشوع کا طریقہ :
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’فلاح پاگئے وہ ایمان والے جو اپنی صلاۃ میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔“
انسان صلاۃ میں جو پڑھ رہا ہے اس پر پوری توجہ اور دھیان رکھے۔ صلاۃ کے دوران پڑھی جانے والی قرآنی آیات کا ترجمہ سیکھے تا کہ اس کو معلوم ہو کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔
صلاۃ کے دوران جتنی دعائیں یاد ہیں ان کا ترجمہ اور زیادہ سے زیادہ دعا ئیں سیکھے۔ شیطانی وسوسوں اور دنیا بھر کی الجھنوں سے بے نیاز ہو کر صلاۃ پڑھے۔
صلاة پرسکون ہو کر پڑھے اور جلدی جلدی نہ پڑھے، اپنے ادا کئے ہوئے ایک ایک لفظ پر غور کرے۔
صلاۃ میں موت کو یاد کرے اور یہ سمجھے کہ شاید یہ اس کی آخری صلاۃ ہو۔
اگر صلاۃ میں وسوسہ آئے تو اعوذ باللہ پڑھ لیں۔
( صحیح مسلم :2203)
سادہ چٹائی پر صلاۃ ادا کرے نقش ونگار والی نہ ہو۔ (متفق علیہ)
نیند میں صلاۃ نہ پڑھے۔
(بخاری: 209)
دوران صلاۃ نظر کو ادھر ادھر نہ گھمائے۔
(ابوداؤد: 909)
صلاۃ میں قمیص یا شرٹ کی کفیں چڑھا کر صلاۃ پڑھنا منع ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مجھے سات اعطاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا اور یہ بھی کہ نہ صلاۃ میں بالوں کا جوڑا بناؤں اور نہ ہی قمیص کا بازو او پر چڑھاؤں۔ ( صحیح بخاری ) لہذا کپڑوں کو بار بار سمیٹنا اور ہاتھ کی انگلیوں سے کھیلنا بھی خشوع میں نقص پیدا کرتا ہے۔