نماز چھوڑنے کے نقصانات
تحریر: محمد ارشد کمال(پی ڈی ایف لنک)

نماز چھوڑنے کے نقصانات

دین اسلام میں نماز کو جو اہمیت حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ یہ دین کی بنیاد اور اساس ہے۔ اس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے۔ اس کی ادائیگی پر بے شمار دینوی اور اخروی انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے اور اس سے غفلت برتنے پر سزا بھی بہت ہے۔ افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت نماز چھوڑے بیٹھی ہے اور غافل ہو چکی ہے۔ آنے والی سطور میں نماز چھوڑنے کے چند نقصانات بیان کیے جارہے ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نماز چھوڑنے والا اور اس سے غفلت دستی برتنے والا اپنا کتنا بڑا نقصان کر رہا ہے۔

➊ایمان کا ضیاع

نماز ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
﴿البقرة :١٤٣﴾‏
’’اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ تمھارا ایمان ضائع کردے بے شک اللہ تو لوگوں پر بے حد شفقت کرنے والا، بڑا رحم والا ہے۔“

یہاں بلریب نماز کو ایمان کہا گیا ہے، ایمان سے مراد نماز ہے۔
چنانچہ امام بخاریؒ نے باب باندھا ہے:
”باب الصلاة من الایمان“ ”باب ہے کہ نماز ایمان کا حصہ ہے‘‘۔
اور اس کے بعد امام موصوف فرماتے ہیں :
وقول الله تعالى: (وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيْمَانَكُمْ) يعني (صلاتكم عند البيت).
’’یعنی تمھاری وہ نمازیں جو تم نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی ہیں اللہ انھیں ضائع نہیں کرے گا۔“

اللہ تعالیٰ نے نماز کو ایمان کہا ہے، لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو بندہ نماز نہیں پڑھتا اس کے ایمان میں نقص اور کمزوری ہے یا پھر وہ ایمان سے بالکل ہی خالی ہے اور کفر وشرک کا مرتکب ہو رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ
(الروم : 31)
’’(دین پر قائم رہو) اس (اللہ) کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور نماز قائم رکھو اور مشرکوں میں سے مت بنو۔“

یعنی اللہ تعالیٰ سے بے خوف ہوکر اور نماز چھوڑ کر مشرک مت بنو۔ گویا نماز چھوڑنا بھی ایک طرح کا شرک ہے۔

سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا:
إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ
”بے شک (مومن) بندے اور کفر وشرک کے درمیان فرق نماز کا ترک کرنا ہے۔“
(صحیح مسلم: (۸۲)

سیدنا بریدہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وبينهم الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ
”ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے جس نے اسے ترک کیا اس نے کفر کیا۔
(ابن ماجه:۱۰۷۹ ،صحیح)

بے نماز کے متعلق خلیفہ ثانی سیدنا عمر بن خطابؓ کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمالیں،
سیدنا مسور بن مخرمہؓ کا بیان ہے کہ وہ سیدنا عمرؓ کے پاس گئے جس رات آپ زخمی ہوئے تھے، آپ کو نماز فجر کے لیے جگایا گیا تو آپ نے فرمایا:
وَلَاحَظَّ فِي الْإِسْلَامِ لِمَنْ تَرَكَ الصَّلاةَ
’’اس شخص کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں جس نے نماز کو چھوڑ دیا، پھر سیدنا عمرؓ نے اس حال میں نماز ادا کی کہ ان کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔
(المؤطا للامام مالك: ٨٤، صحیح)

ثقہ تابعی عبدالله بن شقیق کہتے ہیں:
’’كَانَ اَصْحَابُ مُحَمَّدٍ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الْأَعْمَالِ تَرْكُهُ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلَاةِ ‘‘
محمد ﷺ کے صحابہ اعمال میں سے نماز چھوڑنے کو کفر سمجھا کرتے تھے۔
(سنن الترمذي ، : ٢٦٢٢ صحيح)
معلوم ہوا کہ نماز چھوڑ نا ایمان کا ضیاع اور بربادی ہے۔

➋ذمہ داری کا خاتمہ:

جو شخص نماز پڑھتا ہے اسلام اسے جان و مال کا تحفظ دیتا ہے، اسلامی اسٹیٹ میں اس کا مال و جان سب کچھ محفوظ و مامون رہے گا۔ لیکن جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی تو گویا اس نے اسلام کے ایک بڑے اور بنیادی قانون وحکم سے بغاوت کردی جس کی وجہ سے اسلام کا عہد اس سے ختم ہو گیا۔ اسلام نے اس کے جان و مال کی حفاظت کی جو ذمہ داری لی تھی اور اسلامی اسٹیٹ میں جو اس کو امان حاصل تھا۔ اب نماز چھوڑنے کی وجہ سے وہ اس سے نکل گیا، اب وہ اسلام کی تلوار سے مامون نہیں۔

سیدنا ابودرداءؓؓ کہتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے یہ وصیت فرمائی:
لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا، وَإِنْ قُطِعْتَ وَحُرِّقْتَ، وَلَا تَتْرُكْ صَلَاةً مَكْتُوبَةٌ مُتَعَمِّدًا ، فَمَنْ تَرَكَهَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الدِّمَّةُ، وَلَا تَشْرَبِ الْخَمْرَ فَإِنَّهَا مِفْتَاحُ كُلّ شَرٍ
’’اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا اگرچہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں اور تجھے آگ میں جلا دیا جائے اور جان بوجھ کر فرض نماز مت چھوڑنا کیونکہ جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی اس سے ذمہ اٹھ گیا اور شراب نہ پینا کیونکہ یہ ہر برائی کی چابی ہے۔‘‘
(سنن ابن ماجه: ٤٠٣٤ حسن)

غور کیجیے! نماز چھوڑنا کتنا بڑا گناہ ہے۔ نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کے مطابق بے نماز سے اسلام بری الذمہ ہو جاتا ہے اور اس سے اپنا تعلق واسطہ اور ذمہ داری ختم کر دیتا ہے۔ بے نماز سے اسلام کی، اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری کس طرح ختم ہوتی ہے؟ ذرا اس حدیث پر غور کر لیں! سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِی نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْطَبَ ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَيُؤَذَنَ لَهَا ، ثُمَّ أَمُرَ رَجُلا فَيَوْمَ النَّاسَ ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ
’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے ارادہ کیا کہ میں ایندھن اکٹھا کرنے کا حکم دوں پھر اذان کہنے کا حکم دوں پھر ایک شخص کو کہوں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور خود ایسے لوگوں کے گھروں میں جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوئے اور ان پر ان کے گھروں کو آگ لگا کر جلا دوں۔“
(صحيح البخاري : ٦٤٤)

➌اہل وعیال ، عمل اور مال کی بربادی

نبی کریم ﷺ نے نماز چھوڑنے کو اہل وعیال اور عمل و مال کی بربادی کہا ہے۔ سیدنا ابن عمرؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
الَّذِی تَفُوتُهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَكَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلُهُ وَمَالُهُ
’’جس شخص کی نماز عصر فوت ہو گئی گویا اس کے اہل وعیال اور مال لٹ گیا۔‘‘
(صحيح البخاري : ٥٥٢)

نماز ضائع کرنا اکثر دو چیزوں کی وجہ سے ہوتا ہے:
➊اہل وعیال کی خیر وخبر میں مشغول رہنے سے۔
➋اور مال و دولت کمانے کے لالچ سے۔

نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ نماز عصر کا چھوڑنا انجام کے اعتبار سے ایسا ہی ہے جیسے اہل و عیال اور مال و دولت سب کچھ لٹ جائے ، چھین لیا جائے۔ ظاہر ہے کہ جس کے اہل وعیال اور مال و دولت چھین لی گئی اس کے پاس باقی کیا رہ گیا؟ جتنا خسارہ اور نقصان اس حالت میں ہے اتنا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ نماز عصر کے چھوڑنے میں ہے یا جتنا رنج و صدمہ اس حالت میں ہوتا ہے ایسا ہی نماز عصر کے چھوٹنے میں ہونا چاہیے۔

ہم لوگ اپنی حالت پر غور کریں کہ اگر ہمیں کوئی معتبر شخص یہ کہہ دے کہ فلاں موڑ پر ڈاکو کھڑے ہیں اور جو بھی وہاں سے گزرتا ہے وہ اسے قتل کر دیتے ہیں اور اس کا مال چھین لیتے ہیں تو ہم کبھی بھی اس رستے پر نہیں جاتے ، رات کو جانا تو درکنار دن کو بھی مشکل ہی سے اس راستے سے گزریں گے ، لیکن افسوس کہ صادق المصدوق ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا ہم پر کوئی اثر نہیں۔

نماز عصر ہی کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ایک اور حدیث ملاحظہ کیجیے، ابو ملیح بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدنا بریدہؓ کے ساتھ سفر جنگ میں تھے وہ ابر و بارش کا دن تھا، انھوں نے کہا: نماز عصر جلدی پڑھ لو کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
مَنْ تَرَكَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عمله
’’جس نے نماز عصر چھوڑ دی اس کا عمل برباد ہو گیا۔“
(صحيح البخاري : ٥٥٣)

اندازہ کریں ! صرف نماز عصر چھوڑنے کا اتنا نقصان ہے کہ گویا اہل وعیال اور مال و دولت سب کچھ لٹ گیا اور عمل برباد ہو گیا۔ جب ایک نماز چھوڑنے کا اتنا نقصان ہے تو جو لوگ پانچ میں سے کوئی نماز بھی نہیں پڑھتے ان کا کتنا نقصان ہوتا ہوگا۔ ایک دن میں وہ اپنا کتنا نقصان کرتے ہیں؟ ہفتہ میں کتنا کرتے ہیں؟ اور مہینہ میں کتنا کرتے ہیں؟ ایک نماز کو چھوڑنے کی یہ سزا ہے تو جو پانچوں ہی نہ پڑھے اس کی سزا کتنی ہوگی؟

➍ہلاکت و بر بادی:

جو شخص نماز نہیں پڑھتا ہلاکت و بربادی اس کا مقدر ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ‎﴿٤﴾‏ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ‎﴿٥﴾‏ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ‎﴿٦﴾‏ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ ‎﴿٧﴾
(الماعون : ٤ تا ۸)
’’پس ان نمازیوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں جو ریا کاری کرتے ہیں اور عام برتنے کی چیزیں روکتے ہیں۔“

اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ان نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔ کیسے غافل ہیں؟
مصعب بن سعدؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سعد بن ابی وقاصؓ سے ‎﴿الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ﴾’’وہ جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔“ کے متعلق پوچھا کہ آیا یہ وہی چیز (وسوسہ وغیرہ) ہے جو نماز میں ہم میں سے ہر کسی کو اس کے دل میں پیش آتی ہے (یا اس سے کوئی اور چیز مراد ہے ؟) انھوں نے فرمایا: نہیں، بلکہ اس غفلت سے مراد نماز کو اس کے وقت سے لیٹ کرنا ہے۔
(جامع البیان للطبری ۷۲۱/۱۱، وسنده صحيح)

یہ ہے غفلت کہ نماز پڑھتے تو ہیں لیکن تاخیر سے پڑھتے ہیں، بلاوجہ اپنی نمازوں کو لیٹ کرتے ہیں اور اسی کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں۔ ایسے نمازیوں کے لیے ہلاکت و بربادی ہے۔ غور کریں! اللہ تعالیٰ ایسے نمازیوں کے لیے ہلاکت و بر بادی کا اعلان فرما رہا ہے جو نماز کی ادائیگی میں بلا وجہ تاخیر کرتے ہیں یعنی پڑھتے تو ہیں لیکن وقت ضائع کر کے پڑھتے ہیں۔ اب وہ لوگ جو نماز پڑھتے ہی نہیں، ان کا کیا بنے گا؟ یہ تو ان کی سزا ہے جو بلا وجہ نماز کو مؤخر کرتے ہیں۔ لیکن جو ہیں ہی بے نماز، جنھیں اپنی نمازوں کی فکر ہی نہیں، دل کیا پڑھ لی ، نہ کیا نہ پڑھی؟ ایک پڑھ لی چار چھوڑ دیں، یا چار پڑھ لیں ایک چھوڑ دی، کچھ پڑھ لیں کچھ نہ پڑھیں ، یا کسی دن پڑھ لی کسی دن نہ پڑھی، ایسے لوگوں کا کیا بنے گا؟

سیدنا سمرہ بن جندبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز کے بعد صحابہ سے دریافت فرمایا کرتے کہ اگر کسی نے آج کوئی خواب دیکھا ہے تو بیان کرے اگر کوئی شخص بیان کرتا تو آپ اس کی تعبیر فرمادیتے۔ ایک روز فجر کی نماز کے بعد آپ نے فرمایا کہ آج میں نے خواب دیکھا ہے۔ صحابہ نے سننے کا اشتیاق ظاہر کیا تو آپ نے فرمایا: رات میرے پاس دو آنے والے (فرشتے) آئے انھوں نے مجھے اٹھایا اور کہا: چلیے ، میں ان کے ساتھ روانہ ہوا یہاں تک کہ ہمارا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جو لیٹا ہوا تھا اور ایک دوسرا شخص کھڑے ہو کر اس کے سر پر پتھر مار رہا تھا پھر لگنے سے اس کا سر پھٹ جاتا اور پتھر لڑھک کر دور جا گرتا، مارنے والا پتھر لینے جاتا تو اس کے واپس آنے تک اس کا سر بالکل ٹھیک ہو جاتا۔ آپ ﷺنے فرمایا: میں نے کہا: سبحان اللہ، یہ کون ہے؟ ان دو فرشتوں نے کہا: آگے چلیے۔
یہ خواب ذرا لمبا ہے ہم اختصار کر رہے ہیں، مختلف قسم کے کئی مناظر دکھانے کے بعد وہ فرشتے بتانے لگے :
’’أَمَّا الَّذِي يُتْلَغُ رَأْسُهُ بِالْحَجَرِ فَإِنَّهُ يَأْخُذُ الْقُرْآنَ فَيَرْفِضُهُ وَيَنَامُ عَنِ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ ‘‘
’’پہلا شخص جس کو آپ نے دیکھا کہ اس کا سر پتھر سے پھوڑا جارہا تھا یہ وہ شخص ہے جو قرآن یاد کرتا تھا پھر اسے چھوڑ دیتا تھا اور فرض نماز پڑھے بغیر سوجاتا تھا۔“
(صحیح البخاري : ١١٤٣، ٧٠٤٧)

➎میدان حشر میں رسوائی:

جو شخص نماز نہیں پڑھتا حشر میں اس کے ساتھ بہت برا سلوک ہوگا۔ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا۔ جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ تو حکم ہوگا کہ آؤ سب اللہ کے حضور سجدو کرو۔ قرآن مجید میں اس منظر کا یوں نقشہ کھینچا گیا ہے:
يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ ‎﴿٤٢﴾‏خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ ‎﴿٤٣﴾
(القلم : ٤٢،٤٣)
’’جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور وہ سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو وہ (سجدہ کرنے کی) طاقت نہیں رکھیں گے ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی ذلت انھیں گھیرے ہوئے ہوگی حالانکہ بلاشبہ انھیں سجدہ کے لیے اس وقت بھی بلایا جاتا تھا جبکہ وہ صحیح سالم تھے ۔“

سب لوگ سجدے میں چلے جائیں گے دو طرح کے لوگوں کو سجدے کی توفیق نہیں ملے گی:

➊ایک تو وہ جو دنیا میں سجدہ نہیں کرتے تھے جیسا کہ اللہ فرما رہا ہے:
وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ۔
’’حالانکہ بلاشبہ (دنیا میں) انھیں سجدہ کے لیے بلایا جاتا تھا جبکہ وہ صحیح سالم تھے ۔‘‘
لیکن وہ سجدہ کے لیے نہیں آتے تھے۔ یہاں سجدہ سے مراد فرضی نماز ہے۔

امام سعید بن جبیرؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى الصَّلَاةِ فَلَا يُجِيبُونَهَا مِنْ غَيْرِ عُدْرٍ
’’وہ نماز کی طرف بلائے جاتے تھے لیکن بغیر کسی عذر کے اسے ادا نہیں کرتے تھے ۔“
(الـعـلـل ومــعــرفـة الـرجــال لاحمد بن حنبل : ٣٧٥٣ و سندہ صحیح)

اور فرماتے ہیں کہ نماز باجماعت ادا نہیں کرتے تھے۔ (ایضاً) تو جو شخص دنیا میں نماز نہیں پڑھتا اسے روز قیامت سجدہ کرنے کی توفیق نہیں ملے گی۔

➋دوسرے وہ لوگ مراد ہیں جو دنیا میں سجدہ تو کرتے تھے لیکن دکھلاوے اور شہرت کے لیے سجدہ کیا کرتے تھے ۔ سیدنا ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ فَيَبْقَى كُلُّ مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَسُمْعَةً فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ فَيَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا
ہمارا رب اپنی پنڈلی کھولے گا تو ہر مومن مرد اور مومن عورت اس کو سجدہ کریں گے اور وہ شخص باقی رہ جائے گا جو دنیا میں دکھانے اور سنانے کے لیے سجدہ کرتا تھا وہ سجدہ کرنے لگے گا تو اس کی پیٹھ ایک طبق ہو جائے گی (یعنی دوہری نہیں ہو سکے گی )
(صحيح البخاري : ٤٩١٩)

قیامت کے دن بے نماز کے لیے ذلت ہی ذلت اور رسوائی ہی رسوائی ہے۔ اس سے بڑی رسوائی کیا ہو سکتی ہے کہ بھرے مجمع میں کوشش کے باوجود بھی وہ سجدہ نہیں کر سکے گا۔ ایک اور حدیث ملاحظہ کیجیے ، سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک دن نماز کا ذکر کیا تو فرمایا :
مَنْ حَافَظَ عَلَيْهَا كَانَتْ لَهُ نُورًا ، وَبُرْهَانًا ، وَنَجَاةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، وَمَنْ لَمْ يُحَافِظٌ عَلَيْهَا لَمْ يَكُنْ لَهُ نُورٌ، وَلَا بُرْهَانُ ، وَلَا نَجَاةٌ، وَكَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ قَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانِ وَأَبِي بنِ خَلْفِ
’’جس نے نماز کی حفاظت کی تو قیامت کے دن یہ نماز اس کے لیے نور، دلیل اور نجات کا باعث ہوگی اور جس نے اس کی حفاظت نہ کی اس کے لیے قیامت کے دن کوئی چیز دلیل نور اور نجات کا باعث نہیں ہوگی اور وہ شخص قیامت کے دن قارون ، فرعون اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔‘‘
(مسند احمد : ٢/ ١٦٩ وسنده حسن)

علامہ ابن القیم الجوزیہؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: نماز چھوڑنے والے کا خاص طور پر ان چار آدمیوں کے ساتھ جہنم میں جانے کا سبب یہ ہے کہ یہ چاروں کفر کے سردار ہیں۔

اور فرماتے ہیں: یہاں ایک عظیم نقطہ بھی ہے کہ نماز چھوڑنے والا مال، ملک، ریاست یا تجارت کی وجہ سے نماز چھوڑتا ہے تو جو کوئی مال کی وجہ سے نماز چھوڑے گا وہ قارون کے ساتھ ہوگا اور جو کوئی ملک یا بادشاہت کی خاطر نماز چھوڑے گا وہ فرعون کے ساتھ ہوگا اور جو شخص حکومتی ذمہ داریوں کے سبب نماز ترک کرے گا وہ ہامان کے ساتھ ہوگا اور جو کوئی تجارتی عذر بہانے کر کے نماز چھوڑے گا وہ ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا ۔
(کتاب الــصــلاة وحكم تاركها، ص : ٤٣)

➏جہنم میں داخلہ:

جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ اخروی کامیابی سے محروم ہے، اگر اس نے توبہ نہ کی ، اپنی اصلاح نہ کی اور نماز کا پابند نہ بنا تو اسے دوزخ میں جانا پڑے گا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ‎﴿٥٩﴾‏ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا ‎﴿٦٠﴾
﴿مريم : ٥٩ ، ٦٠﴾‏
”پھر ان کے بعد ایسے نالائق جانشین ان کی جگہ آئے جنھوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے تو عنقریب وہ غی میں ملیں گے سوائے ان کے جو توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں ایسے لوگ جنت میں جائیں گے ان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔“

بتایا جا رہا ہے کہ انبیاء کرامؑ اور صلحاء عظام کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ایسے نالائق لوگ ان کے جانشین بنے جنھوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات کے پیچھے پڑ گئے، ایسے بد بخت لوگ غی میں ڈالے جائیں۔
امام اہل سنہ امام محمد بن جریر طبری فرماتے ہیں کہ غی جہنم کی وادیوں میں سے ایک وادی یا کنوؤں میں سے ایک کنواں ہے۔
(جامع البیان: ۷۷۳/۷ )

نبی کریمﷺ نے اپنی امت کے بارے میں بھی ایسے لوگوں کی پیشین گوئی فرمائی ہے،
چنانچہ سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا:
يَكُونُ خَلْفٌ مِنْ بَعْدِ سِيِّينَ سَنَةٌ ، أَضَاعُوْا الصَّلَاةَ، وَاتَّبَعُوْا الشَّهَوَاتِ ، فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيَّا ، ثُمَّ يَكُونُ خَلْفٌ، يَقْرَوُوْنَ الْقُرْآنَ، لَا يَعْدُوْ تَرَاقِيهِمُ ، وَيَقْرَأَ الْقُرْآنَ ثَلَاثَةٌ مُؤْمِنٌ، وَمُنَافِقٌ، وَفَاجِرٌ
”ساٹھ سال کے بعد ایسے نالائق لوگ ہوں گے جو نماز کو ضائع کریں گے اور خواہشات کے پیچھے لگیں گے عنقریب وہ غی میں ڈالے جائیں گے پھر ان کے بعد ایسے نالائق لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا اور قرآن تین قسم کے لوگ پڑھتے ہیں: مومن منافق اور فاجر ۔“

راوی حدیث ولید سے جب ان کے شاگرد بشیر نے ان تینوں کی تفصیل پوچھی تو انھوں نے کہا: منافق اس (قرآن) کے ساتھ کفر کرتا ہے، فاجر اس کے ساتھ اپنی شکم پری کرتا ہے اور مومن اس کی تصدیق کرتا ہے۔
(مسند احمد : ۳/ ۳۹ وسنده حسن)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے