نماز پڑھنے کا مسنون طریقہ صحیح احادیث کی روشنی میں

یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب نماز مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

نبی کریم علیہ السلام کا طریقہ نماز

فریاد اے خدایا شیطان سے بچانا
رحمان نام تیرا تو ہی میرا سہارا

⋆ قیام :

جسم اور جگہ کی طہارت حاصل کرنے کے بعد بندہ نماز کا وقت ہو جانے کا اطمینان کرلے اور قبلہ رخ کھڑا ہو جائے۔
صحیح بخاری، کتاب تقصير الصلاة، باب ينزل للمكتوبة، رقم: ۹۹.

⋆ نماز کی نیت :

جس نماز کی ادائیگی کا ارادہ ہو، فرض ہو یا نفل دل میں اس کی نیت کرے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
إنما الأعمال بالنيات
’’اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔“
صحیح بخارى، كتاب الإيمان والنذور، رقم : ٦٦٨٩

نیت کا محل دل ہے، اور زبان سے نیت کرنا رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرامؓ سے قطعی ثابت نہیں ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں : ”الفاظ سے نیت کرنا علماء مسلمین میں سے کسی کے نزدیک بھی مشروع نہیں۔“
صحیح مسلم، رقم: ۱۹۰۷ . الفتاوى الكبرى.

مزید فرماتے ہیں : ’’اگر کوئی انسان سیدنا نوحؑ کی عمر کے برابر تلاش کرتا رہے کہ رسول اللہ ﷺ ور آپ کے صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے زبان سے نیت کی ہو تو ہرگز کامیاب نہیں ہوگا، سوائے چٹا جھوٹ بولنے کے۔ اگر اس میں خیر و بھلائی ہوتی تو صحابہ کرامؓ سب سے پہلے ایسا کرتے اور ہمیں بتا کر جاتے۔‘‘
إغاثة اللفهان : ٦٠٨/١.

مزید فرماتے ہیں : نیت دل کے ارادے اور قصد کو کہتے ہیں۔ قصد وارادہ کا مقام دل ہے، زبان نہیں ہے۔
الفتاوى الكبرى : ١/١.

امام ابن قیم الجوزیہؒ زبان سے نیت کو بدعت گردانتے ہیں۔
زاد المعاد: ۱/ ۲۰۱

علامہ نوویؒ فرماتے ہیں : نیت صرف دل کے ارادے کو کہتے ہیں۔
شرح المهذب : ٣٥٢/١.

مزید فرماتے ہیں: زبان سے نیت کرنا نہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے نہ کسی صحابی سے نہ تابعی سے اور نہ ہی ائمہ اربعہ (ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد) سے۔
حواله ايضًا.

ملا علی قاری حنفیؒ فرماتے ہیں : الفاظ کے ساتھ نیت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بدعت ہے۔
مرقاة شرح مشكوة : ٤١/١ .

شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی اپنے مکتوب (دفتر اول، حصہ سوم، مکتوب نمبر ۱۸۶) میں لکھتے ہیں : ’’زبان سے نیت کرنا رسول اللہ ﷺ سے بروایت صحیح اور نہ بروایت ضعیف ثابت ہے۔ اور صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ زبان سے نیت نہیں کرتے تھے، بلکہ جب اقامت کہتے تو صرف اللہ اکبر کہتے تھے، پس زبان سے نیت بدعت ہے۔“

ابن عابدین حنفی کہتے ہیں : زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔
ردّ المختار: ۲۷۹/۱.

ابن ہمام حنفی کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ میں سے کسی ایک سے بھی زبان کے ساتھ نیت کرنا منقول نہیں۔
فتح القدير : ٢٣٢/١ .

علامہ انور شاہ کاشمیری دیوبندی فرماتے ہیں : نیت صرف دل کا معاملہ ہے۔
فيض القدير : ۰۸/۱

⋆ تکبیر تحریمہ :

سجدہ کی جگہ پر نظر رکھ کر ”الله اكبر“ کے الفاظ سے تکبیر تحریمہ کہے۔
سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلوات والسنة فيها، رقم : ۸۰۳ – البحر الزخاز : ١٦٨/٢

⋆ رفع الیدین:

تکبیر کہتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر یا کانوں کی لو تک اٹھائے۔
صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب رفع اليدين في التكبيرة الأولى مع الإفتتاح سواء، رقم: ٧٣٥- صحيح مسلم، کتاب الصلاة، رقم: ۳۹۰، ۳۹۱.

⋆ رفع الیدین کے اہم مسائل :

رفع الیدین کے وقت انگلیاں نارمل حالت میں کھلی ہوں، یعنی ان کے درمیان فاصلہ نہ تو زیادہ ہو اور نہ ہی وہ ملی ہوئی ہوں۔
سنن ترمذی ، ابواب الصلاة، باب ما جاء في نشر الأصابع عند التكبير ، رقم : ٢٤٠ ـ سنن ابوداؤد، رقم : ٧٥٣- مستدرك حاكم : ٢٣٤/١

رفع الیدین کے وقت ہاتھوں سے کانوں کو چھونا رسول اکرم ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔

کچھ لوگ رفع الیدین کی مقدار میں مرد و عورت کا فرق کرتے ہیں کہ مرد حضرات کانوں تک ہاتھ اُٹھائیں گے اور خواتین کندھوں تک۔ یہ بات قطعی درست نہیں ہے، چنانچہ علامہ شوکانیؒ فرماتے ہیں :
لم يرد ما يدل على الفرق بين الرجل والمرأة فى مقدار الرفع
’’مرد اور عورت کے درمیان ہاتھ اُٹھانے کی مقدار کے فرق پر دلالت کرنے والی کوئی حدیث موجود نہیں۔‘‘
نيل الأوطار : ٢١٤/٢ ، بعد حديث رقم : ٦٧١

⋆ سینے پر ہاتھ باندھنا :

پھر دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھ لے۔ چنانچہ سیدنا وائل بن حجرؓ فرماتے ہیں :
صليت مع رسول الله ووضع يده اليمنى على اليسرى على صدره.
”میں نے رسول کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، تو آپ نے اپنے ہاتھ، دایاں ہاتھ، بائیں ہاتھ پر رکھ کر، سینے پر باندھے۔“
صحیح ابن خزیمه، رقم : ٤٧٩

سیدنا ھلبؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے دیکھا۔
مسند أحمد : ٢٢٦/٥

↰ فائدہ :

حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں، ابن سید الناس نے شرح الترمذی میں اور علامہ نیموی حنفی نے آثار السنن (۶۷/۱) میں اس کی حدیث کی سند کو حسن کہا ہے۔

مزید برآں علامہ محدث مبارکپوریؒ نے تحفۃ الاحوذی میں لکھا ہے :
رواة هذا الحديث كلهم ثقات وإسناده متصل.
’’اس حدیث کے سب راوی ثقہ ہیں، اور اس کی سند متصل ہے۔‘‘

سیدنا وائل بن حجرؓ فرماتے ہیں :
أنه رأى النبى صلى الله عليه وسلم وضع يمينه على شماله ثم وضعهما على صدره.
”انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر انہیں سینے پر باندھا۔“
السنن الكبرى للبيهقي ، كتاب الحيض ، باب وضع اليدين على الصدر : ٣٠/٢، رقم: ٢٣٣٦ – طبقات المحدثين بأصبهان ، لأبي الشيخ : ٤٣٢

طاؤسؒ فرماتے ہیں :
كان النبى لا يضع يده اليمنى على يده اليسرى ثم يشد بينهما على صدره وهو فى الصلاة.
”نبی اکرم ﷺ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر انہیں سینے پر باندھا کرتے تھے۔“
سنن ابوداؤد، کتاب الصلاة، رقم : ٧٥٩

سیّدنا سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں :
كان الناس يؤمرون ان يضع الرجل يده اليمنى على ذراعه اليسرى فى الصلاة.
’’لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ذراع پر رکھیں۔“
صحیح بخاری، کتاب الاذان، رقم : ٧٤٠.

↰ نوٹ

(۱) ’’ذراع‘‘ کہنی کے سرے سے درمیانی انگلی کے سرے تک کے حصہ کو کہتے ہیں۔ (القاموس الوحيد : ٥٦٨)

(۲) صحیح بخاری کی اس حدیث پر عمل کیا جائے تو ہاتھ سینے پر ہی باندھے جاسکتے ہیں، اگر ناف کے نیچے لے جانے کی کوشش بھی کی جائے تو وہ کوشش ناکام ہی ٹھہرے گی۔ الحمد لله!

سیدنا وائل بن حجرؓ سے مروی ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھا، یوں کہ وہ پہنچے اور کلائی پر بھی آگیا۔
سنن ابوداؤد، کتاب الصلاة، رقم: ۷۲۷

⋆ زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت کی تحقیق :

زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت انتہائی ضعیف ہے۔ اسے امام بیہقی اور ابن حجر نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اور امام نوویؒ نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ :
متفق على ضعفه
’’اس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے۔“

علمائے احناف میں سے علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفیؒ نے حاشیه هدایه (۱۰۲/۱) میں اور شیخ ابن الحمامؒ نے فتح القدير شرح الهداية (۲۰۱/۱) میں اس سے اتفاق کیا ہے۔ علامہ ابن نجیم حفى بحر الرائق شرح کنز الدقائق میں فرماتے ہیں : نماز میں ہاتھ باندھنے کی جگہ متعین کرنے والی کوئی بھی حدیث صحیح ثابت نہیں، سوائے ابن خزیمہ کی روایت کے۔
یہی بات علامہ ابن الحاج نے ”شرح منية المصلی“ میں بیان فرمائی ہے۔(بحواله فتح الغفور)

علاوہ ازیں فقہ حنفی کی ایک اور معتبر کتاب ’’شرح وقایہ“ میں بھی صفحہ ۹۳ پر مذکور ہے کہ ’’تحت السرة‘‘ ہاتھ باندھنا کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ بس حضرت علیؓ کا قول ہے جب کہ وہ بھی ضعیف ہے۔

⋆ عورتوں اور مردوں کی نماز میں فرق :

یاد رہے کہ عورتوں اور مردوں کی نماز میں کوئی فرق نہیں۔ تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام کہنے تک مردوں اور عورتوں کی نماز کی ہیئت اور شکل ایک ہی ہے۔ یعنی سب کا قیام، رکوع، سجده، جلسه استراحت، قعدہ اور ہر ہر مقام پر پڑھنے کی دعائیں ایک جیسی ہیں۔ رسول الله ﷺ کی ایک عمومی حدیث ہے :
صلوا كما رأيتموني أصلى
نماز اسی طرح پڑھو جیسا کہ تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو“
صحیح بخاری، كتاب الأذان، رقم: ۲۳۱.

اس حکم میں مرد و زن سب برابر ہیں۔ لہذا اپنی طرف سے یہ حکم لگانا کہ عورتیں رفع الیدین کرتے ہوئے کندھوں تک ہاتھ اٹھائیں اور مرد کانوں تک، عورتیں سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد زیر ناف اور عورتیں سجدہ کرتے ہوئے زمین پر کوئی اور ہیئت اختیار کریں اور مرد کچھ اور دین میں احداث اور بدعت ایجاد کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالی شان ہے :
من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد.
”جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نیا کام ایجاد کیا جو اس میں پہلے موجود نہیں تھا تو وہ مردود ہے۔“
صحیح بخاری، کتاب العلم، رقم : ٢٦٩٧ .

↰ فائدہ

البتہ وہ فروق جو شریعت اسلامیہ نے بیان کیے ہیں، وہ تسلیم کرنا ایک مسلمان کی شان ہے اور وہ یہ ہیں :

❀ مرد ننگے سر نماز پڑھ سکتا ہے، جبکہ عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
لا يقبل الله صلاة حائض إلا بخمار.
’’اللہ تعالیٰ کسی بالغ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا۔“
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، رقم : ٦٤١ – سنن ترمذی، رقم: ۳۷۷ ۔ سنن ابن ماجه، رقم : ٦٥٥

❀ غور فرمائیں کہ دوران حج مرد حضرات ننگے سر نمازیں پڑھتے ہیں، جب کہ عورتیں اوڑھنیاں لے کر۔

❀ ننگے سر نماز پڑھنے کے متعلق بریلوی مکتب فکر کے بانی احمد رضا خان لکھتے ہیں :
’’اگر با نیت عاجزی ننگے سر پڑھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔“
أحكام شريعت : ٥٤/١ .

❀ نماز با جماعت میں مرد حضرات کی صفیں آگے ہوں گی اور خواتین کی پیچھے۔
صحیح مسلم، کتاب الفتن، رقم : ٢٩٤٢ .

❀ مرد اکیلا صف کے پیچھے کھڑا نماز نہیں پڑھے گا، جبکہ عورت اکیلی ہو تو اس کی تنہا صف ہو جاتی ہے۔
صحیح بخارى، كتاب الأذان، باب المرأة وحدها تكون صفا، رقم: ۷۲۷۔ صحیح مسلمرقم : ٦٥٨ .

⋆ استفتاح کی دعائیں :

تکبیر تحریمہ کے بعد قرآت شروع کرنے سے پہلے دعائے استفتاح پڑھنا مسنون ہے، جو یہ ہے :
سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك.
” اے اللہ ! تو پاک ہے، تیری ہی تعریف ہے، تیرا نام بابرکت ہے، تیری شان سب سے اونچی ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔“
سنن ترمذی ابواب الصلوة، رقم : ٢٤٣ – سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، رقم : ٧٧٥-٧٧٦- سنن ابن ماجه، كتاب اقامة الصلاة، رقم : ٨٠٦- مستدرك حاكم : ٢٣٥/١

اگر چاہے تو اس کے علاوہ یہ دعا پڑھے :
اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب. اللهم نقنى من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس، اللهم اغسل خطاياي بالماء والثلج والبرد
”اے اللہ ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان ایسی دوری کر دے جیسی مشرق و مغرب کے درمیان تو نے دوری کی ہے۔ اے اللہ ! مجھے خطاؤں سے اس طرح صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ ! مجھے میری خطاؤں سے پانی اور برف اور اولے سے دھو دے۔“
صحیح بخارى، كتاب الأذان، باب ما يقول بعد التكبير ، رقم : ٧٤٤۔ صحیح مسلم، کتاب المساجد ، باب ما يقال بين تكبيرة الإحرام والقرأة، رقم : ٥٩٨ .

رسول الله ﷺ کی اقتداء میں ایک شخص نے کہا :
الله أكبر كبيرا، والحمد لله كثيرا، وسبحان الله بكرة وأصيلا.
”اللہ سب سے بڑا ہے، بہت بڑا اور تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں، بہت زیادہ۔ وہ(شراکت اور ہر عیب) سے پاک ہے۔ اور صبح و شام ہم اس کی پاکی بیان کرتے ہیں۔“

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”کہ اس شخص کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب ما يقال بين تكبيرة الاحرام والقراءة، رقم : ٦٠١.

⋆ تعوذ :

پھر کوئی ایک تعوذ پڑھیں :
اعوذ بالله من الشيطن الرجيم.
’’میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود کے شر سے۔“
صحیح ابن خزیمه، رقم : ٦٧۴

أعوذ بالله من الشيطن الرجيم من همزه ونفخه ونفثه.
’’میں اللہ تعالی کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود کے شر سے، اس کے خطرے سے، اس کی پھونکوں سے اور اس کے وسوسے سے۔“
سنن ابو داؤد ، کتاب الصلواة ، رقم : ٧٧٥

⋆ نماز اور سورۃ فاتحہ :

پھر سورہ فاتحہ پڑھیں :
بسمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ‎﴿١﴾‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‎﴿٢﴾‏ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ‎﴿٣﴾‏ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ‎﴿٤﴾‏ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ‎﴿٥﴾‏ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ‎﴿٦﴾‏ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ‎﴿٧﴾‏
’’اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔ جو نہایت مہربان بے حد رحم کرنے والا ہے۔ جو مالک ہے روزِ جزا کا۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔ ہم کو سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔ نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا، اور نہ ان لوگوں کا جو گمراہ ہو گئے۔‘‘

↰ فائدہ

سورۃ فاتحہ کے ساتھ بسمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ضرور پڑھیں، یہ جہراً پڑھنا بھی ثابت ہے اور سرا بھی۔
صحیح مسلم، كتاب الصلاة، رقم: ۳۹۹ – سنن نسائی، کتاب الافتتاح، رقم : ٩٠٦ – صحح ابن خزیمه: ١/ ٢٤٩، ٢٥١، رقم: ٤٩٥، ٤٩٩.

سیدنا عبد الرحمن بن ابزکیؓ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی، تو انہوں نے بسمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ جہرا پڑھی۔
مصنف ابن شيبة، رقم : ٧٨٥٧ – شرح معانی الآثار للطحاوي : ١٣٧/١.

⋆ آمین کہنے کا مسئلہ :

سورۂ فاتحہ کے ختم ہونے کے بعد آمین کہے۔ اور جب امام جہری نماز کی امامت کر رہا ہو، وہ بآواز بلند آمین کہے اور اسی طرح مقتدی بھی۔ سیدنا وائل بن حجرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا رسول اللہ ﷺ نے پڑھا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم وَلا الضَّالّينَ پھر آپ نے بلند آواز سے آمین کہی۔
سنن ترمذی ابواب الصلاة، رقم : ٢٤٨ – سنن ابن ماجه رقم: ٨٥٥۔ سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، رقم: ۹۳۲

سیدنا وائل بن حجرؓ فرماتے ہیں:”جب رسول الله ﷺ نے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم وَلا الضَّالّينَ پڑھا تو آپ نے بلند آواز سے آمین کہی کہ میں نے سنی اور میں آپ کے پیچھے صف میں کھڑا تھا۔
سنن نسائی، کتاب الإفتتاح، رقم: ۹۳۲

اور سیّدنا ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم وَلا الضَّالّينَ پڑھتے تو کہتے : آمین۔ اس قدر اونچی آواز سے کہ پہلی صف میں آپ کے ارد گرد کے لوگ سن لیتے۔
سنن الكبرى للبيهقي : ٥۸/۲ ، صحیح ابن خزیمه ، رقم: ٥٧١ – صحيح ابن حبان : ٤٦٢

حجیہ بن عدی سیدنا علیؓ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے جب وَلا الضَّالّينَ کہا تو آمین کہی۔
سنن ابن ماجه، باب الجهر بالتأمين، رقم: ٨٨٤

ابن ام الحصین اپنی دادی ام الحصین سے بیان کرتے ہیں : کہ میں نبی کریم ﷺ کو مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ پڑھتے ہوئے سنا، پس آپ نے قراءت کی حتی کہ وَلَا الضَّالِينَ پر پہنچ گئے، تو کہا : آمين۔
معجم أبو يعلى، ص : ٢٥١ ، ٢٥٢ ، رقم : ۳۱۳

⋆ دور صحابہ میں آمین بالجھر کا ثبوت :

سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ اور ان کے مقتدی اتنی بلند آواز سے آمین کہا کرتے تھے کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔
صحیح بخاری : معلقًا، باب جهر الأمام بالتأمين مصنف عبدالرزاق : ٩٦/٢

↰ فوائد

(۱) اس حدیث پر امام بخاری نے باب قائم کیا ہے۔ ’’باب جهر الا مام بالتامين‘‘ امام کے آمین بالجبر کا بیان گویا امام بخاریؒ نے اس اثر سے آمین بالجبر کا اثبات کیا ہے۔

(۲) یہ حدیث موقوف ہے، لیکن حکماً مرفوع ہے۔ اور یہ اصول مسلم ہے کہ جب موقوف مرفوع کے حکم میں ہو، تو وہ مرفوع کی طرح حجت اور دلیل قطعی ہوتی ہے۔
تيسير مصطلح الحديث، ص : ١٢٥ – ١٢٦ ، طبع مكتبه قدوسيه.

نعیم بن مجمرؒ فرماتے ہیں : ”میں نے سیدنا ابو ہریرہؓ کے پیچھے نماز پڑھی وہ جب غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم وَلا الضَّالّينَ تک پہنچے تو انھوں نے آمین کہا اور ان کے پیچھے لوگوں نے آمین کہی۔ پھر انھوں نے فرمایا : ”اللہ کی قسم! میں نے تمھیں رسول اللہ ﷺ والی نماز پڑھائی ہے.‘‘
مسند أحمد ٤٩٧/٢ – صحیح ابن خزیمه : ۲۲۳/۱ ، ٢٢٤ ، رقم : ٤٩٩ ـ صحيح ابن حبان، :رقم: ۱۷۹۷۲ – ۱۸۰۱ – مستدرك حاكم: ۲۳۲/۱ – سنن دارقطنی : ٣٠٦/١ ، رقم : ٢٤٥١ – سنن الكبرى للبيهقى : ٥٨/٢ ، رقم : ١١٥۰

جناب عکرمہؒ فرماتے ہیں : میں نے دیکھا کہ امام جب وَلَا الضَّالِينَ کہتا تو لوگوں کے آمین کہنے کی وجہ سے مسجد گونج جاتی۔
مصنف ابن ابی شیبه : ۱۸۷/۲

امام نافع، سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے بیان کرتے ہیں، کہ جب وہ امام کے ساتھ نماز پڑھتے، سورۂ فاتحہ پڑھتے، پھر لوگ آمین کہتے، تو آپ بھی آمین کہتے، اور اسے سنت قرار دیتے۔
صحیح ابن خزيمه : ۲۸۷/۱، رقم : ٥٧٢

امام بیہقیؒ لکھتے ہیں :
’’سیدنا ابن عمرؓ کا امام ہوتے یا مقتدی، دونوں صورتوں میں آمین بآواز بلند کہتے تھے۔‘‘
السنن الكبرى : ٥٩/٢.

سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
مـا حسدتكم اليهود على شيء ، ما حسدتكم على السلام والتأمين.
”یہود نے تمہارے ساتھ کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا، جتنا سلام اور آمین پر حسد کیا ۔“
سنن ابن ماجه بالجهر بالتأمين، رقم : ٨٥٦ – الترغيب والترهيب : ۳۲۸/۱

⋆ ائمہ اور اہل علم سے آمین بالجہر کا ثبوت :

امام ترمذیؒ کہتے ہیں : کہ امام شافعی، احمد بن حنبل اور اسحاقؒ آمین بالجہر کے قائل ہیں۔

علامہ ابن قیمؒ کہتے ہیں : کہ امام شافعیؒ سے پوچھا گیا کہ کیا امام بلند آواز سے آمین کہے، انہوں نے کہا : ہاں! اور جو اس کے پیچھے ہیں وہ سب بھی بلند آواز سے آمین کہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے کہا: اہل علم ہمیشہ اسی آمین بالجہر کے اوپر کار بند رہے ہیں۔
تحفة الاحوذى : ٣٠٩/١.

⋆ امام ابوحنیفہؒ کے استاد کی شہادت :

امام عطا بن ابی رباحؒ فرماتے ہیں : ”میں نے دوسو (۲۰۰) صحابہ کرامؓ کو دیکھا کہ بیت اللہ میں جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم وَلا الضَّالّينَ کہتا، تو سب لوگ بلند آواز سے آمین کہتے۔‘‘
السنن الكبرى للبيهقي : ٩٥/٢ ، رقم : ٢٤٥٥ ـ كتاب الثقات لابن حبان : ٢٦٥/٦

↰ فائدہ

ہم نے عرب حنفی حضرات کو قائلین رفع الیدین اور بآواز بلند آمین کہتے ہوئے پایا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آج امام ابو حنیفہؒ کی آخری آرام گاہ کے پاس بھی نمازی بآواز بلند آمین کہتے ہیں۔

⋆ آمین بالجہر کہنے کی فضیلت :

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
اذا أمن الإمام فأمنوا، فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه.
جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو (اس وقت فرشتے بھی آمین کہتے ہیں) تو جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ مل گئی اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔“
صحیح بخاری، كتاب الأذان رقم : ۷۸۰ – صحیح مسلم، رقم : ٤١٠ – صحیح ابن خزیمه، کتاب الصلاة : ٢٢٥/١٢ – ٢٥٦ ، رقم : ٥٧٠١ .

↰ فائدہ

ابن خزیمہؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : ”اس حدیث سے ثابت ہوا کہ امام بلند آواز سے آمین کہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ امام کی آمین کے ساتھ آمین کہنے کا حکم اس صورت میں دے سکتے ہیں، جب مقتدی کو معلوم ہوا کہ امام آمین کہہ رہا ہے۔ کوئی عالم تصور بھی نہیں کر سکتا کہ رسول اللہ ﷺ مقتدی کو امام کی آمین کے ساتھ آمین کہنے کا حکم دیں، جب کہ وہ اپنے امام کی آمین سن ہی نہ سکے۔“
مذکورہ حدیث کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

⋆ نماز کی مسنون قرآت :

پھر قرآن میں سے جو آسان لگے اور یاد ہو پڑھے۔ ہم آپ کی سہولت کے لیے چند ایک سورتیں لکھتے ہیں :

⋆ سورة الإخلاص :

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ‎﴿١﴾‏ اللَّهُ الصَّمَدُ ‎﴿٢﴾‏ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ‎﴿٣﴾‏ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ‎﴿٤﴾‏

’’آپ کہہ دیجیے کہ وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، اس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے، اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔‘‘

⋆ سورۃ اخلاص کی فضیلت :

ایک انصاری صحابی، مسجد قباء میں امامت کراتے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھنے سے پہلے قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (یعنی سورۃ اخلاص) تلاوت فرماتے، ہر رکعت میں اسی طرح کرتے۔ مقتدیوں نے امام سے کہا کہ آپ پہلے قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ کی تلاوت کرتے ہیں، پھر بعد میں دوسری سورۃ ملاتے ہیں، کیا ایک سورت تلاوت کے لیے کافی نہیں؟ اگر اللَّهُ أَحَدٌ کی تلاوت نہیں تو اس کو چھوڑ دیں اور اللَّهُ أَحَدٌ دوسری سورت کی تلاوت کیا کریں۔ امام نے جواب دیا : میں قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ کی تلاوت نہیں چھوڑ سکتا۔ انہوں نے رسول مکرم علیہ الصلاۃ والسلام کی خدمت میں مسئلہ پیش کیا، تو نبی کائنات ﷺ نے اُس امام سے کہا کہ ”تم مقتدیوں کی بات کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ اس سورۃ کو ہر رکعت میں کیوں لازمی پڑھتے ہو؟‘‘ تو اس نے کہا : مجھے اس سورت کے ساتھ محبت ہے۔ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’اس سورت کے ساتھ تیری محبت تجھے جنت میں داخل کرے گی۔‘‘
صحیح بخارى، كتاب الأذان، باب الجمع بين السورتين في الركعة، تعليقاً ـ سنن ترمذی ، ابواب ثواب القرآن، رقم: ٢٩٠٦

⋆ سورة الفلق :

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ‎﴿١﴾‏ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ‎﴿٢﴾‏ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ‎﴿٣﴾‏ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ‎﴿٤﴾‏ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ‎﴿٥﴾‏

”اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے، میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں، تمام مخلوقات کی شر سے، اور رات کی برائی سے جب اس کی بھیانک تاریکی ہر جگہ داخل ہو جاتی ہے۔ اور ان جادوگر عورتوں سے جو دھاگے پر جادو پڑھ کر پھونکتی ہیں اور گر ہیں ڈالتی ہیں۔ اور حاسد کے حسد سے جب وہ اپنا حسد ظاہر کرتا ہے۔“

⋆ سورة الناس :

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ‎﴿١﴾‏ مَلِكِ النَّاسِ ‎﴿٢﴾‏ إِلَٰهِ النَّاسِ ‎﴿٣﴾‏ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ‎﴿٤﴾‏ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ‎﴿٥﴾‏ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ‎﴿٦﴾

’’اے میرے نبی! آپ کہہ دیجیے، میں انسانوں کے رب کی پناہ میں آتا ہوں، انسانوں کے حقیقی بادشاہ کی پناہ میں، انسانوں کے تنہا معبود کی پناہ میں، وسوسہ پیدا کرنے والے، چھپ جانے والے شیطان کے شر سے جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ پیدا کرتا ہے چاہے وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔“

⋆ قرآت کے حکام و مسائل :

۱۔ قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا (المزمل:٤)
’’اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے۔‘‘

۲۔ ہر آیت پر وقف کیا جائے۔
صحیح سنن ابوداؤد، کتاب الحروف والقراءات ، رقم: ۴۰۰۱

۳۔ فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پر اکتفا کرنا، اور فاتحہ کے ساتھ کسی دوسری سورت کی تلاوت کرنا دونوں طرح درست ہے۔
صحیح بخاری، كتاب الأذان، رقم : ٧٧٦- صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم : ٤٥٢،٤٥١

۴۔ تلاوت کرتے وقت ہونٹوں کا ہلنا ضروری ہے۔ بعض لوگ ہونٹ بند کر کے تلاوت کر رہے ہوتے ہیں، یہ طریقہ درست نہیں ہے۔

⋆ رکوع کا بیان :

پھر ”اَللهُ أَكْبَرُ“ کہتے ہوئے رکوع کرے، اور اپنے دونوں ہاتھوں کو کاندھوں تک اٹھائے، اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھے، اور سبحان ربي العظيم کہے۔ مذکورہ دعا کا تین مرتبہ یا اس سے زیادہ پڑھنا سنت ہے۔
صحیح بخارى، كتاب الأذان، رقم: ۷۸۹، ۸۲۸ ۔ صحیح مسلم، كتاب الصلاة، رقم : ٣٩٠، ۷۷۲،۳۹۲۔ سنن ترمذی، کتاب الصلاة، رقم: ٢٦١.

⋆ رکوع کے ضروری مسائل :

۱۔ حالت رکوع میں پیٹھ کو بالکل سیدھا رکھا جائے۔
صحيح سنن ابو داؤد، تفریع ابواب الصفوف ، رقم : ٨٥٥

۲۔ سر نہ زیادہ نیچے ہو اور نہ زیادہ اونچا۔
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم : ٤٩٨

۳۔ ہتھیلیاں گھٹنوں پر یوں رکھی ہوئی ہوں کہ گویا ان کو پکڑا ہوا ہو۔
صحیح بخاری، كتاب الأذان، رقم: ۸۲۸

۴۔ کہنیوں کو پہلوؤں سے دُور رکھنا۔
صحيح سنن ابوداؤد، ابواب تفریع استفتاح الصلاة، رقم : ٨٦٣

۵۔ بازؤں کو کمان کی تانت کی طرح سیدھا رکھنا۔
صحيح سنن ابو داؤد، ابواب تفریع استفتاح الصلاة، رقم : ٨٣٤.

⋆ رکوع کی مزید دعائیں :

(۱) سیدنا علی المرتضیؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ رکوع میں یہ دعا پڑھتے :
اللهم لك ركعت وبك آمنت ولك أسلمت، خشع لك سمعي وبصري ومخي وعظمي وعصبي.
’’اے اللہ ! میں تیرے ہی لیے جھکا ہوں، تجھ ہی پر ایمان لایا اور تیرا ہی اطاعت گزار ہوا۔ تیرے ہی لیے ڈر کر میرے کان، آنکھیں، میرا دماغ، میری ہڈیاں اور میرے پٹھے عاجز ہو گئے ہیں۔“
صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، رقم : ١٨١٢.

(۲) سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنے رکوع میں اکثر کہتے تھے :
سبحانك اللهم ربنا وبحمدك، اللهم اغفر لي.
” اے اللہ ! تو پاک ہے، اے ہمارے پروردگار ! ہم تیری حمد بیان کرتے ہیں، اے اللہ ! مجھے بخش دے۔“
صحیح بخارى، كتاب الأذان، رقم : ٨١٧،٧٩٤ – صحیح مسلم، كتاب الصلاة، رقم: ٤٨٤

(۳) سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے رکوع اور سجدے میں کہتے تھے :
سبوح قدوس، رب الملائكة والروح.
”بہت پاکیزگی والا، نہایت مقدس ہے تمام فرشتوں اور روح (جبریلؑ) کا رب۔“
صحیح مسلم، کتاب الصلوة، رقم : ٤٨٧.

(۴) سیدنا عوف بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے رکوع میں کہتے تھے :
سبحان ذى الجبروت والملكوت والكبرياء والعظمة.
’’پاک ہے وہ اللہ جو بڑی طاقت اور بادشاہی والا ہے، وہ بہت بڑائی والا اور صاحب عظمت ہے۔“
صحيح سنن ابو داؤد : ١ / ٢٤٧، رقم : ٨٧٣.

(۵) حبیب کبریا ﷺ رکوع میں فرماتے :
سبحانك وبحمدك لا إله إلا أنت
”اے اللہ ! تیرے ہی لیے پاکی اور تعریف ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے۔“
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم : ٤٥٨.

(۶) رسول اللہ ﷺ رکوع و سجود میں تین دفعہ پڑھتے تھے :
سبحان الله وبحمده.
’’اللہ شراکت اور ہر عیب سے پاک ہے، ہم اس کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے ہیں۔“
سنن ابوداؤد، باب مقدار الركوع والسجود، رقم: ۸۸۵

⋆ قیام بعد الرکوع اور اس کی دعائیں :

پھر اگر امام یا منفرد ہو تو رفع الیدین کرتے ہوئے، اور سمع الله لمن حمده کہتے ہوئے رکوع سے کھڑا ہو جائے۔ اور پوری طرح سیدھا کھڑا ہو جانے کے بعد یہ دعا پڑھے :
(۱) ربنا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه.
”اے ہمارے رب! تیرے لیے ہی تعریف ہے، بہت زیادہ پاکیزہ اور بابرکت۔“
صحيح بخارى، كتاب الأذان، رقم : ٧٣٥، ٧٣٦ ٧٣٧، ٧٩٦۔ صحیح مسلم، كتاب الصلاة، رقم: ٤٧٦.

⋆ فضیلت :

سیدنا رفاعہ بن رافعؓ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے رکوع سے سر اٹھایا تو فرمایا : سمع الله لمن حمده پس ایک مقتدی نے کہا : ”ربنا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه“ پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا : ”ابھی کس نے یہ کلمے پڑھے ہیں؟ ایک شخص نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! میں تھا۔ آپ ﷺ تم نے فرمایا : ”میں نے تیسں سے زائد فرشتے دیکھے جو ان کلموں کا ثواب لکھنے میں جلدی کر رہے تھے۔“
صحيح البخارى، كتاب الأذان، رقم : ٧٩٥.

(۲) اللهم ربنا لك الحمد ملء السموات ومل ء الأرض وملء ما بينهما ، وملء ما شئت من شيء بعد.
”اے ہمارے پروردگار اللہ ! تیرے ہی لیے ساری تعریفیں ہیں، آسمانوں اور زمینوں کے برابر، اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے اس کے برابر، اور اس کے علاوہ جو چیز بھی تو چاہے اس کے برابر۔“
مسلم، كتاب الأذان، رقم: ٤٧٦.

(۳) اللهم لك الحمد ملء السموات وملء الأرض وملء ما شئت من شي بعد ، اللهم طهرني بالثلج والبرد والماء والبارد ، اللهم طهرني من الذنوب والخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الوسخ.
”اے اللہ ! تیرے ہی لیے ساری تعریف ہے، اتنی جس سے آسمان بھر جائیں اور زمین بھر جائے اور ہر اس چیز کے بھراؤ کے برابر جو تو چاہے۔ اے اللہ ! مجھے برف، اولے اور ٹھنڈے پانی کے ساتھ پاک کر دے۔ اے اللہ ! مجھے گناہوں اور خطاؤں سے اسی طرح پاک کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔“
صحيح مسلم، کتاب الصلاة، رقم : ٤٧٦/٢٠٤.

(۴) سیدنا ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو یہ دعا پڑھتے :
اللهم لك الحمد ملء السموات وملء الأرض وملء ما شئت من شي بعد، أهل الثناء والمجد احق ما قال العبد وكلنا لك عبد، اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطى لمامنعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد.
”اے ہمارے رب تیرے لیے ہی ساری تعریف ہے، جس سے آسمان بھر جائیں اور زمین بھر جائے اور دونوں کے درمیان جو کچھ ہے وہ بھر جائے اور اس کے بعد جو چیز تو چاہے وہ بھر جائے۔ اے تعریف اور بزرگی کے لائق، سب سے سچی بات جو بندے نے کہی، وہ یہ ہے، جبکہ ہم سب تیرے بندے ہیں ! اے اللہ ! کوئی روکنے والا نہیں اس چیز کو جو تو نے عطا کی، اور وہ چیز کوئی دینے والا نہیں جو تو نے روک دی اور کسی کا مقام ومرتبہ اسے تیرے عذاب سے بچا نہیں سکتا۔“
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم : ٤٧٧.

⋆ امام اور مقتدی کا سمع اللہ لمن حمدہ کہنا :

اگر آپ مقتدی ہیں تو بھی سمع الله لمن حمده ضرور کہیں۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ : كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا قال سمع الله لمن حمده : قال اللهم ربنا لك الحمد.
صحیح بخاری، كتاب الأذان، رقم : ٧٩٥.

”نبی کریم ﷺ جب سمع الله لمن حمده کہتے اور پھر فرماتے :
ربنا ولك الحمد.
اور یہ حدیث عام ہے جو کہ آپ کی ہر دو حالتوں، حالتِ امامت اور حالت اقتداء کو شامل ہے۔ حالت اقتداء کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں آپ نے سیدنا عبد الرحمن بن عوفؓ کے پیچھے نماز ادا کی۔
سنن ابوداؤد، باب المسح على الخفين، رقم : ١٤٩ – صحيح مسلم، كتاب الصلواة رقم : ٣٢١/١٠٥.

یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث پر امام بخاریؒ نے باب قائم کیا ہے :
باب ما يقول الإمام ومن خلفه إذا رفع رأسه من الركوع۔
”باب امام اور مقتدی رکوع سے سر اٹھانے پر جو کہیں۔“

لہٰذا امام کی اقتداء کرتے ہوئے مقتدی بھی یہ کلمات ادا کرے، کیونکہ مقتدی پر امام کی اقتداء ضروری ہے۔

⋆ سجده :

پھر اللهُ أَكْبَرُ کہتے ہوئے سجدہ میں جائے، اور سجدے میں اپنے دونوں بازوؤں کو پہلوؤں سے اور دونوں رانوں کو پنڈلیوں سے دور رکھے، اور سات اعضاء : پیشانی ناک سمیت، دونوں ہاتھوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کی انگلیوں کے پوروں پر سجدہ کرے۔ اور سجدے میں سبحان ربي الأعلى تین یا اس سے زیادہ مرتبہ کہے۔ اس کے علاوہ بھی جو دعائیں چاہے پڑھے۔
سنن ابو داؤد، كتاب الصلاة، رقم: ۷۳۰ ، ۷۳٤ ، ۸۹۵ سنن ترمذی، کتاب الصلاة، رقم : ٣٠٤، صحیح بخاری، كتاب الأذان، رقم: ۸۱۲، ۸۲۸ ۔ صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم : ٤٩٠ـ صحيح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، رقم: ۷۷۲ – مسند البزار – طبرانی کبیر – مجمع الزوائد : ٢/ ٣١٥

إذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير وليضع يديه قبل ركبتيه
’’جب تم سجدہ میں جاؤ تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھو، بلکہ پہلے ہاتھ رکھو پھر گھٹنے رکھو۔‘‘
صحیح ابن خزیمه : ۳۱۸/۱۸ ، ۳۱۹، رقم : ٦٢٧ – صحیح بخاری، قبل حديث رقم : ۸۰۳، معلقاً.

یاد رہے کہ اونٹ اور دیگر جو پایوں کے گھٹنے ان کے ہاتھوں یعنی انگلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں۔ لسان العرب میں ہے : ”اونٹ کا گھٹنا اس کے ہاتھ یعنی انگلی ٹانگ میں ہوتا ہے اور تمام چوپایوں کے گھٹنے ان کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔‘‘ لہذا اونٹ کی طرح نہیں بیٹھنا چاہیے، وہ پہلے گھٹنے زمین پر رکھتا ہے، لہذا ہمیں پہلے ہاتھ رکھنے چاہئیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھ رکھا کرتے تھے اور فرماتے تھے: ’’رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے.‘‘
سنن ابوداؤد، کتاب الصلاة ، رقم : ٨٤٠

⋆ گھٹنے پہلے رکھنے کی دلیل کا دراسہ :

سجدہ میں گھٹنے پہلے رکھنے والی سیدنا وائل بن حجرؓ سے مروی روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس کی سند شریک بن عبد اللہ القاضی راوی کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
سلسلة الضعيفة : ۳۲۹/۲ – سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، رقم: ۸۳۸

لہذا راجح بات یہی ہے کہ سجدے میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ زمین پر رکھے جائیں اور بعد میں گھٹنے۔

⋆ سجدہ اور قرب الہی :

سجدہ انسان کو رب تعالیٰ کے قریب کر دیتا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا :
وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب (العلق:١٩)
”اور اپنے رب کے سامنے سجدہ کیجیے، اور اس کا قرب حاصل کیجیے۔“

سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول رب العالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا :
یقیناً بندہ حالت سجدہ میں اپنے رب سے بہت قریب ہوتا ہے۔ پس سجدے میں زیادہ سے زیادہ دعا کرو۔
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم : ٤٨٢.

مزید نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کہ سجدے میں کوشش و جستجو سے دعا مانگا کرو کیونکہ وہ اس لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول کر لی جائے۔
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم : ٤٧٩

⋆ سجدہ اور گناہوں کا مٹنا :

سیدنا ابو امامہؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : ”آپ مجھے ایسا حکم دیں کہ میں اسی کا ہو کر رہ جاؤں، آپ ﷺ نے فرمایا : ”جان لے کہ تو جب بھی اللہ تعالیٰ کے لیے سجدہ کرتا ہے وہ تجھے ایک درجہ بلند کرتا ہے اور اس سجدے کی وجہ سے تیرا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔‘‘
صحیح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: ۸۱.

سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”جب آدم کا بیٹا سجدے کی آیت تلاوت کرتا ہے اور سجدہ کرتا ہے تو شیطان اس سے دور ہوکر رونا شروع کر دیتا ہے، اور کہتا ہے، مجھے افسوس ہے کہ آدم کے بیٹے کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا اس نے سجدہ کیا، اس کے لیے جنت ہے۔ مجھے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا، میں نے انکار کیا، میرے لیے جہنم ہے۔‘‘
مسند احمد ٢٤٩،٢٤٨/٥ – سلسلة الصحيحة، رقم : ١٤٨٨.

⋆ سجدہ اور جنت :

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب ابن آدم سجدے کی آیت تلاوت کرتا ہے۔ پھر سجدہ کرتا ہے، تو شیطان روتا ہوا ایک طرف ہو کر کہتا ہے، ہائے میری ہلاکت، تباہی اور بربادی ! آدم کے بیٹے کو سجدے کا حکم دیا گیا۔ اس نے سجدہ کیا۔ پس اس کے لیے جنت ہے۔ اور مجھے سجدے کا حکم دیا گیا میں نے نافرمانی کی، پس میرے لیے آگ ہے۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب الايمان، رقم : ٢٤٤.

⋆ سجدہ اور جنت میں رسول اللہ ﷺ کا ساتھ :

سیدنا ربیعہ بن کعبؓ سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رات گزارتا تھا آپ کے لیے وضوء کا پانی اور آپ کی دیگر ضرورت مسواک وغیرہ لاتا تھا۔ ایک رات آپ نے مجھے فرمایا : ” کچھ دین و دنیا کی بھلائی مانگو۔ میں نے کہا: جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : اس کے علاوہ کوئی اور چیز ؟ میں نے کہا : بس یہی ! پھر آپ نے فرمایا : پس اپنی ذات کے لیے سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔“
صحيح مسلم ، کتاب الصلاة، باب فضل السجود والحث عليه، رقم: ٤٨٩.

⋆ سجدہ کی مسنون مزید دعائیں :

سجدہ نماز کا راز اور اس کا عظیم رکن اور رکعت کا خاتمہ ہے، اس سے پہلے جو ارکان نماز اور ہیں وہ اس کے مقدمات ہیں۔ چنانچہ وہ حج میں طواف زیارہ کے زیادہ مشابہ ہیں، کیونکہ وہ حج کا مقصد اور اللہ تعالیٰ کے ہاں داخل ہونے کا محل ہے۔ اور اس سے پہلے جو کچھ ہے وہ اس کے لیے مقدمات ہیں۔ اسی لیے بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے۔ اور اس کی سب سے افضل حالت وہ ہے جس میں وہ اللہ سے سب سے زیادہ قریب ہو، لہذا اس جگہ دعا کرنا قبولیت کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ لہذا سجدہ کی حالت میں زیادہ سے زیادہ دعا کرنے کا حکم ہے۔

(۱) سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ اپنے رکوع اور سجدے میں کثرت سے یہ دعا پڑھتے تھے :
سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لى.
”اے اللہ! تو پاک ہے، اے ہمارے پروردگار! ہم تیری حمد بیان کرتے ہیں، اے اللہ ! مجھے بخش دے۔“
صحیح بخارى، كتاب الأذان، رقم : ٧٩٤، ۸۱۷۔ صحیح مسلم، كتاب الصلاة، رقم : ٤٨٤.

(۲) سیدنا علی بن ابی طالبؓ بیان کرتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ جب سجدے میں جاتے تو یہ دعا پڑھتے :
اللهم لك سجدت ، وبك آمنت ، ولك أسلمت ، سجد وجهي للذي خلقه وصوره وشق سمعه وبصره، تبارك الله أحسن الخالقين.
”اے اللہ ! میں نے تیرے ہی لیے سجدہ کیا، تجھ پر ہی ایمان لایا اور میں تیرا ہی فرمانبردار بنا، میرے چہرے نے اس ذات کے لیے سجدہ کیا جس نے اسے پیدا فرمایا اور اس کی صورت بنائی۔ اس نے اس کی سماعت اور اس کی نظر کو کھولا ہے۔ وہ اللہ نہایت بابرکت ہے کہ جو بہترین تخلیق کرنے والا ہے۔“
صحيح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، رقم: ١٨١٢.

(۳) سیدنا ابو ہریرةؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سجدے میں یہ دعا پڑھتے تھے :
اللهم اغفر لي ذنبي كله دقه وجله وأوله وآخره وعلانيته وسره
”اے اللہ ! میرے چھوٹے اور بڑے، پہلے اور پچھلے ظاہر اور پوشیدہ سب کے سب گناہ معاف کر دے۔“
صحيح مسلم، کتاب الصلاة، رقم : ۱۰۸٤

↰ نوٹ :

فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظ اللہ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا : اگر کوئی شخص صدق دل سے یہ دعا پڑھے، اور اس کی نیت یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ میرے صغیرہ اور کبیرہ گناہ معاف کر دے تو اللہ عزوجل اس کے صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف کر دے گا۔

(۴) سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی آخر الزماں، سردار دو جہاں ﷺ نماز تہجد کے سجدوں میں پڑھتے تھے :
أللهم أعوذ برضاك من سخطك ، وبمعافاتك من عقوبتك ، وأعوذبك منك ، لا أحصي ثناء عليك، أنت كما أثنيت على نفسك.
’’اے اللہ ! میں تیری رضا کے ذریعے تیرے غصے سے، تیری معافی کے ذریعے تیری سزا سے، اور میں تیری ذات اقدس کے ساتھ تیری ذات کی پناہ چاہتا ہوں کہ تو کہیں ناراض نہ ہو جائے میں پوری طرح تیری تعریف نہیں کر سکتا تو ویسا ہی ہے جس طرح تو نے اپنی تعریف و ثناء خود فرمائی ہے۔‘‘
صحيح مسلم، کتاب الصلاة، رقم: ۱۰۹۰

(۵) سبحانك اللهم ربنا وبحمدك، اللهم اغفر لى، انك انت التواب الرحيم.
’’اے اللہ ! تو پاک ہے، ہمارے رب! ہر قسم کی تعریف کے لائق تو ہی ہے۔ اے اللہ ! مجھے بخش دے، بے شک تو توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔“
مسند أحمد، رقم : ٣٦٨٣ ، ٣٧٤٥ ـ سلسلة الصحيحة، رقم : ٢٠٨٤.

(٦) اللهم اغفر لي ما أسررت وما أعلنت.
”اے اللہ ! میرے گناہوں کو بخش دے، جو میں چھپ چھپ کر یا سر عام کرتا ہوں۔‘‘
مصنف ابن ابى شيبة : ۱۱۲/۱۲ ـ مستدرك حاكم: ۲۲۱/۱

(۷) سبحانك وبحمدك لا إله إلا أنت.
”اے اللہ ! تو ہر عیب اور شراکت سے پاک ہے، اور اپنی حمد و ثناء کے ساتھ بہت زیادہ بزرگی اور شان والا ہے، صرف تو ہی معبود برحق ہے۔“
مسلم، كتاب الصلواة، رقم : ٤٨٥ – مسند ابو عوانة : ١٦٩/٢ – مسند احمد : ١٥١/٦.صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم للألباني، ص: ١٤٧.

(۸) سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رکوع اور سجود میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے :
سبحانك وبحمدك أستغفرك ، وأتوب إليك
’’اے اللہ ! تو پاک ہے، ہر شراکت اور عیب سے، اور ہر قسم کے تعریف تیری ہے، میں تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور تیری طرف توبہ کرتا ہوں۔“
معجم كبير للطبراني : ٧٢/١- سلسلة الصحيحة، رقم : ٢٠٤

(۹) سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ احمد مجتبی ﷺ اپنے رکوع اور سجدے میں یہ کہتے تھے :
سبوح قدوس رب الملائكة والروح.
”بہت پاکیزگی والا، نہایت مقدس ہے تمام فرشتوں اور روح یعنی جبریل کا رب‘‘
صحیح مسلم، کتاب الصلواة، رقم : ٨٤٧.

(۱۰) رسول اللہ ﷺ رکوع و سجود میں تین دفعہ یہ دعا پڑھتے تھے :
سبحان الله وبحمده.
’’اللہ شراکت اور ہر عیب سے، پاک ہے ہم اس کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے ہیں۔“
سنن ابوداؤد، باب مقدار الركوع والسجود، رقم : ۸۸۵

(۱۱) رب اغفرلي خطيئتي وجهلي وإسرافي فى امرى كله، وما أنت أعلم به مني، اللهم اغفر لي خطاياى وعمدى وجهلي وهزلي وكل ذلك عندي.اللهم اغفرلي ما قدمت وما اخرت ، وما أسررت وما اعلمت، انت المقدم وانت المؤخر، وأنت على كل شيء قدير.
”میرے رب! میری خطا، میری نادانی اور تمام معاملات میں میرے حد سے تجاوز کرنے میں میری مغفرت فرما، اور وہ گناہ بھی جن کو تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ اے اللہ ! میری مغفرت کر، میری خطاؤں میں، میرے بالا رادہ اور بلا ارادہ کاموں ور میرے ہنسی مزاح کے کاموں میں اور یہ سب میری ہی طرف سے ہیں۔ اے اللہ ! میری مغفرت کر ان کاموں میں جو میں کر چکا ہوں اور انھیں جو کروں گا اور جنھیں میں نے چھپایا اور جنھیں ظاہر کیا ہے تو ہی سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے بعد میں ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘
صحیح ،بخاری، كتاب الدعوات، رقم : ٦٣٩٨ ، ٦٣٩٩

(۱۲) سبحان ربي الأعلى وبحمده.
’’سب سے بلند رب پاک ہے، اور ان سب سے بزرگ و برتر ہے۔“
سنن ابو داؤد، ابواب الركوع والسجود، رقم: ۸۷۰ – صحيح مسلم، رقم : ٤٨٤.

(۱۳) محسن انسانیت ﷺ سجدے میں کہتے :
اللهم اجعل فى قلبي نورا، وفي بصري نورا، وفي سمعي نورا، وعن يميني نورا، وعن يساري نورا، وفوقي نورا، وتحتي نورا، وأما مي نورا، وخلفي نورا، وعظم لي نورا
’’اے اللہ ! میرے دل، میری بصارت اور سماعت کو منور فرما، میرے دائیں بائیں، اوپر نیچے، سامنے اور پیچھے ہر طرف نور پھیلا دے، اور میری روشنی کو بڑھا دے۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب الدعاء في صلاة الليل ،وقيامه رقم : ٧٦٣.

⋆ رکوع وسجود میں امام سے جلدی کرنے کی ممانعت :

محمد بن زیادؒ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو ہریرہؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” کیا تم سے کوئی اس بات سے نہیں ڈرتا کہ جب وہ امام سے پہلے اپنا سر اٹھائے تو اللہ اس کے سر کو گدھے کا سر یا اس کی صورت کو گدھے کی صورت بنا دے.‘‘
صحیح بخاری، رقم : ٦٩١ – صحیح مسلم، رقم : ٩٦٢ – سنن دارمی، رقم: ١٣٥٥.

⋆ جلسہ اور اس کی مسنون دعائیں :

پھر اللَّهُ أَكْبَرُ کہتے ہوئے سر اٹھائے، اور دایاں پاؤں کھڑا رکھے، اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھ جائے، اور دونوں ہاتھ ، دونوں رانوں اور گھٹنوں پر رکھے۔
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، رقم: ۷۳۰ – سنن ترمذی، کتاب الصلاة، رقم : ٣٠٤ – سنن ابن ماجة كتاب اقامة الصلاة، رقم : ١٠٦٠ – صحيح بخارى، كتاب الأذان، باب سنة الجلوس ـ في التشهد، رقم: ۸۲۸

مزید برآں جلسہ میں اعتدال و اطمینان سے کام لے۔ سیدنا حذیفہ بن یمانؓ نے ایک شخص کو دیکھا وہ نہ رکوع پوری طرح اعتدال کے ساتھ کرتا ہے اور نہ سجود، اس لیے آپ نے اس سے فرمایا : تم نے نماز نہیں پڑھی، اور اگر تم مرگئے تو تمہاری موت اس فطرت پر نہ ہوگی جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو پیدا فرمایا تھا۔
صحیح بخاری ، كتاب الأذان، رقم: ۷۹۱.

اور ساتھ یہ دعا پڑھے :
(۱) رب اغفر لي وارحمني وعافني وارزقني واهدني واجبرني وارفعني
’’اے اللہ ! مجھے بخش دے، اور مجھ پر رحم کر، اور مجھے عافیت دے، اور مجھے رزق عطا فرما اور مجھے ہدایت دے اور میرے نقصان پورے کر۔“
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، رقم : ٨٥٠ سنن ترمذی ابواب الصلاة، رقم : ٢٨٤ ـ سنن ابن ماجہ،رقم: ۸۹۸- مستدرك حاكم ١/ ٢٦٢ ، ١/ ٢٧١

(۲) سیدنا حذیفہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ دونوں سجدوں کے درمیان یہ دُعا پڑھا کرتے تھے :
رب اغفرلي، رب اغفر لي
”اے میرے رب! مجھے بخش دے، اے میرے رب ! مجھے بخش دے۔“
سنن ابو داؤد، ابواب الركوع والسجود، رقم : ٨٧٤۔

❀ اس کے بعد اللَّهُ أَكْبَرُ کہتے ہوئے دوسرا سجدہ کرے، اور اس میں بھی وہی سب کچھ کرے جو پہلے سجدہ میں کیا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی پہلی رکعت پوری ہوگئی۔ پھر اللَّهُ أَكْبَرُ کہتے ہوئے دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے۔

⋆ جلسہ استراحت

❀ پہلی اور تیسری رکعت کے بعد دوسری اور چوتھی رکعت کے لیے اُٹھنے سے پہلے ایک دفعہ اطمینان کے ساتھ بیٹھ جائیں، اور پھر ہاتھوں کا سہارا لے کر کھڑے ہوں۔ سیدنا مالک بن حویرثؓ نے سنت طریقہ بتانے کے لیے نماز پڑھی تو اس میں ہے :
إذا رفع رأسه عن السجدة الثانية جلس واعتمد على الأرض ثم قام.
”جب وہ پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو بیٹھ جاتے اور زمین پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے۔“
صحیح بخاری، كتاب الأذان، رقم : ٨٢٤.

دوسری رکعت کے شروع میں سورہ فاتحہ اور قرآن کی کچھ آیتیں پڑھے، پھر رکوع کرے، پھر رکوع سے سر اٹھائے اور دو سجدے ٹھیک اسی طرح کرے جیسے پہلی رکعت میں کیے تھے۔

↰ نوٹ :

دوسری رکعت میں دعائے استفتاح نہیں پڑھی جائے گی۔

⋆ تشهد :

دوسرے سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد بالکل اسی طرح بیٹھ جائے جیسے دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھا تھا، پھر تشہد پڑھے، اور انگشت شہادت کے ساتھ اشارہ کرے، انگلی کو اٹھائے رکھے، اور اسے ہلاتا رہے اور انگلی میں تھوڑا سا خم ہو۔
صحیح مسلم، کتاب المساجد ، رقم : ٥٧٩ ، ۵۸۰ – سنن ابو داؤد، کتاب استفتاح الصلاة، رقم : ٧٢٦۔ صحیح بخارى، كتاب الأذان، رقم: ۷۳۹- صحیح ابن حبان، ١٨٢/٥، ١٨٤ ـ صحيح ابن خزیمه، رقم: ٧١٦ .

تشہد یہ ہے:
التحيات لله والصلوت والطيبات، السلام عليك أيها النبى ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله
’’میری تمام قولی، مالی اور عملی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں، اے نبی ! آپ پر سلام ہو، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکت نازل ہو، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور گواہی دیتا ہوں کہ بیشک محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘
صحیح بخاری، كتاب الأذان، باب التشهد في الآخرة، رقم : ۸۳۱،٨٣٥۔ صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب التشهد في الصلاة، رقم : ٤٠٢

⋆ تشہد میں انگشت شہادت کو حرکت دیتے رہنا :

دورانِ تشهد انگشت شہادت کو حرکت دینی چاہیے، یعنی اشارہ کرنا چاہیے، کیونکہ یہ نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔ سیدنا وائل بن حجرؓ کی حدیث میں ہے :
ثم رفع اصبعه فرأيته يحركها يدعو بها.
’’پھر نبی کریم ﷺ نے اپنی انگلی کو اٹھایا اور میں نے دیکھا کہ آپ اسے حرکت دیتے رہے اور دعا کرتے رہے۔“
سنن نسائی، کتاب الصلاة، رقم : ١٢٦٩

مولوی سلام اللہ حنفی شرح موطا میں رقم طراز ہیں :
وفيه تحريكها دائما اذا الدعاء بعد التشهد .
’’اس حدیث میں ہے کہ انگلی کو تشہد میں ہمیشہ حرکت دیتے رہنا ہے، کیونکہ دعا تشہد کے بعد ہوتی ہے۔“

علامہ ناصر الدین البانیؒ فرماتے ہیں :
ففيه دليل على أن السنة أن يستمر فى الإشارة وفي تحريكها إلى السلام لان الدعاء قبله.
’’پس اس حدیث میں دلیل ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ انگلی کا اشارہ، حرکت اور ہلانا سلام تک جاری رہے، کیونکہ دعا سلام سے متصل ہے۔“
صفة صلاة النبي ص : ١٥٨.

⋆ تشہد میں اشارہ کرنے کا ثواب :

امام نافعؒ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرؓ جب نماز میں بیٹھتے تو اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھتے اور مسجہ انگلی کے ساتھ اشارہ کرتے اور اشارے کے پیچھے اپنی نظر لگائے رکھتے بعد ازاں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
لهى أشد على الشيطان من الحديد، يعني السبابة.
’’انگشت شہادت کا اشارہ شیطان پر تلوار اور نیزے سے بھی زیادہ سخت ہے۔“
مسند احمد: ۱۱۹/۲۔

مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی نے الغابية (ص : ۲۱۷، ۲۲۱) التعليق المجد (ص: ۱۰۶) عمدة الرعاية (ص: ۱۹۶) فتاوی اُردو مبوب (ص: (۲۲۱) اور مجموعۃ الفتاوی (۱۹۱٫۳) میں اشارہ سبابہ کو سنت قرار دیا ہے۔

مزید لکھتے ہیں کہ یہ اشارہ آخر تشہد تک ہونا چاہیے۔ علامہ علی قاری نے بھی یوں ہی کہا ہے۔
مجموعة الفتاوى : ۳۹۰/۱ – التعليق الممجد، ص : ١٠٦

⋆ تشہد میں اشارہ کرنے کے طریقے :

(۱) دو انگلیوں کو بند کر کے درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنا لینا، اور انگشت شہادت سے اشارہ کرنا اور اسے ہلانا۔
سنن ابوداؤد، تفریع ابواب الركوع والسجود، رقم: ٩٥٧

(۲) تین انگلیوں کو بند کر کے انگوٹھے کو درمیانی انگلی پر رکھنا، اور انگشت شہادت سے اشارہ کرنا۔
صحیح مسلم ، کتاب الصلاة ، رقم : ۱۳۰۷

(۳) ترپن کی گرہ لگانا یعنی تین انگلیوں کو ہتھیلی کے قریب ترین حصے کے ساتھ بند کر کے انگوٹھے کو شہادت والی انگلی کی آخری گرہ کے نیچے رکھنا۔
صحيح مسلم، کتاب الصلاة ، رقم : ۱۳۰۸.

❀ اگر چار رکعت والی نماز ہو تو، تو رک کی حالت میں بیٹھے، اور اگر نماز دو رکعت والی ہو جیسے فجر، جمعہ اور عیدین کی نمازیں تو پھر تو رک نہ بیٹھے، (جیسے دو سجدوں کے درمیان بیٹھا جاتا ہے)
تفصیل دیکھیں: اصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم: ۹۸۱/۳ – ۹۸۹.
اور تشہد کے بعد درود پاک پڑھے :

⋆ درود شریف :

اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ. اَللهُمَّ بَارِك عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى ال مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.
’’اے اللہ ! رحمت نازل فرما محمد ﷺ پر اور آل محمد ﷺ پر جیسے رحمت نازل کی تو نے ابراہیمؑ پر اور آل ابراہیمؑ پر، بیشک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے اور برکت نازل فرما محمد ﷺ پر اور آل محمد ﷺ پر جیسے برکت نازل کی ابراہیمؑ پر اور آل ابراہیمؑ پر ، بیشک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الأنبياء، رقم: ٣٣٧٠.

⋆ درود کے بعد کی دعائیں :

اور اس کے بعد ” خواہ فرض نماز ہو یا نفل‘‘ دنیا و آخرت کی بھلائی کے لیے جو دعا چاہے کرے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم دو رکعت پر بیٹھو تو التحیة کے بعد جو دعا زیادہ پسند ہو وہ کرو.
سنن نسائی، کتاب التطبيق، رقم: ١١٦٣۔

(ا) اللهم انى اعوذبك من عذاب القبر و من عذاب جهنم، و اعوذبك من فتنة المسيح الدجال واعوذبك فى فتنة المحيا والممات واعوذبك من المأثم والمغرم.
”اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے عذاب سے، اور قبر کے عذاب سے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے، اور مسیح دجال کے فتنہ سے۔“
صحيح مسلم، كتاب الصلاة، رقم : ٥٨٨ – سنن أبو داؤد، رقم: ٥٥١٢.

(٢) اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت، فاغفر لى مغفرة من عندك وارحمنى إنك أنت الغفور الرحيم
”اے اللہ ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، اور تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخش نہیں سکتا، پس مجھے اپنی خاص مغفرت سے بخش دے، اور مجھ پر رحم کر۔ یقینا تو ہی بخشنے والا، بے حد رحم کرنے والا ہے۔“
صحيح البخاری، کتاب الاذان، رقم : ٨٣٤.

(۳) اللهم اغفرلي ما قدمت وما أخرت ، وما أسررت وما أعلنت ، وما أسرفت وما أنت أعلم به مني، أنت المقدم وأنت المؤخر، لا إله إلا أنت.
”اے اللہ ! مجھے بخش دے جو میں نے پہلے کیا اور جو پیچھے کیا۔ جو میں نے چھپا کر کیا اور جو میں نے علانیہ کیا۔ جو میں نے زیادتی کی اور جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ تو ہی مقدم کرنے والا ہے (اپنی اطاعت کے ساتھ جسے چاہے) اور تو ہی مؤخر کرنے والا ہے (جسے چاہے اس کی نافرمانی کی وجہ سے) تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔“
صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، رقم : ١٨١٢.

(۴) اللهم انى اعوذبك من البخل ، وأعوذبك من الجبن، وأعوذبك أن أرد إلى أرذل العمر ، وأعوذبك من فتنة الدنيا وأعوذبك من عذاب القبر.
’’اے اللہ ! میں بخل سے تیری پناہ چاہتا ہوں، میں بزدلی سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں، اور اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ نکمی عمر کی طرف لوٹایا جاؤں، میں دنیا کے فتنے اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“
صحيح البخارى، كتاب الدعوات، رقم: ٦٣٧٠.

(۵) اللهم بعلمك الغيب وقدرتك على الخلق أحيني ما علمت الحياة خيرا لي وتوفني إذا علمت الوفاة خيرا لي. اللهم وأسألك خشيتك فى الغيب والشهادة ، وأسألك كلمة الحق فى الرضاء والغضب. وأسألك القصد فى الفقر والغنى ، وأسألك نعيما لا ينفد وأسألك قرة عين لا تنقطع ، وأسألك الرضاء بعد القضاء وأسألك برد العيش بعد الموت ، وأسألك لذة النظر إلى وجهك والشوق إلى لقاء ك فى غير ضراء مضرة ولا فسة مضلة ، أللهم زينا بزينة الإيمان واجعلنا هداة مهتدين
”اے اللہ ! میں تیرے غیب جاننے اور مخلوق پر قدرت رکھنے کے ساتھ سوال کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک زندگی عطا کیے رکھ جب تک تو زندگی کو میرے لیے بہتر جانتا ہے اور مجھے اس وقت فوت کرنا جب تو وفات کو میرے لیے بہتر جانے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے تنہائی میں اور حاضر ،سب کے سامنے ہونے کی حالت میں تیری خشیت کا سوال کرتا ہوں۔ اور میں تجھ سے راضی اور غصے والی ہر دو حالتوں میں کلمہ حق کہنے کا سوال کرتا ہوں کہ اس کی مجھے توفیق دیے رکھنا اور میں تجھ سے غریبی اور امیری ہر دو حالتوں میں میانہ روی کا سوال کرتا ہوں۔ اور میں تجھ سے ایسی نعمت کا سوال کرتا ہوں جو ختم نہ ہو۔ اور میں تجھ سے آنکھوں کی ایسی ٹھنڈک کا سوال کرتا ہوں جو کبھی منقطع نہ ہو۔ اور میں تجھ سے تیرے فیصلے پر راضی رہنے کا سوال کرتا ہوں اور میں تجھ سے موت کے بعد والی ”زندگی کی ٹھنڈک‘‘ کا سوال کرتا ہوں۔ اور اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے چہرے کی طرف دیکھنے کی لذت کا سوال کرتا ہوں۔ اور اسی طرح تجھ سے ملاقات کے شوق کا میں سوال کرتا ہوں جو کسی تکلیف دہ مصیبت اور گمراہ کن فتنے کے بغیر ہو۔ اے اللہ ! ہمیں ایمان کی زینت سے مزین فرما اور ہمیں رہنمائی دینے والے اور خود ہدایت پانے والے بنا دے۔“
سنن النسائى، كتاب السهو، رقم : ١٣٠٦ – الكلم الطيب، لشيخ الإسلام ابن تيميه رحمه الله، ١٠٤

(۶) أللهم إني أسألك يا الله بأنك الواحد الأحد الصمد الذى لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد. أن تغفرلي ذنوبي إنك أنت الغفور الرحيم
”اے اللہ ! بلاشبہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، اے اللہ کہ تو واحد، اکیلا اور بے نیاز ذات ہے، تو کسی کا باپ نہیں اور نہ تو کسی کا جنا ہوا ہے، اور تو وہ ہستی ہے کہ اس کا برابری والا کوئی نہیں ہے۔ تو میرے سب کے سب گناہ معاف کر دے، یقینا تو ہی بخشنے والا، بے حد مہربان ہے۔“

⋆ فضیلت :

نبی ﷺ نے ایک شخص کو تشہد میں یہ دعا مانگتے سنا تو تین بار فرمایا :
قد غفر له
اس کے گناہ بخش دیے گئے ہیں۔
سنن النسائی، کتاب السهو، رقم : ۱۳۰۲۔سنن أبى داؤد، رقم : ٩٨٥.

(۷) أللهم إني أسألك بأن لك الحمد ، لا إله إلا أنت المنان بديع السموات والأرض ياذالجلال والإكرام! يا حي يا قيوم! إني أسألك الجنة وأعوذ بك من النار.
”اے اللہ ! میں تجھ سے اس بات کے ساتھ سوال کرتا ہوں کہ حمد وثناء تیرے ہی لیے ہے۔ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ بے حد احسان کرنے والا، تمام آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے اے بزرگی اور عزت والے رب ! اے زندہ اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے اللہ! میں تجھ سے جنت مانگتا ہوں اور جہنم سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
سنن النسائی، کتاب السهو، رقم : ۱۳۰۱ – سنن ابن ماجه رقم : ۹۱۰ – سنن ابی داؤد، رقم : ۷۹۲

⋆ نماز کا اختتام :

❀ پھر السلام عليكم ورحمته الله کہتا ہوا داہنی طرف، اور پھر اسی طرح بائیں طرف سے سلام پھیر دے۔
سنن ابو داؤد، ابواب الركوع والسجود، رقم: ٩٦

لیکن اگر تین تین رکعت والی نماز مغرب ہو، یا چار رکعت والی نماز ظہر یا عصر یا عشاء ہو تو تشہد کے بعد ”الله اكبر“ کہتا ہوا کھڑا ہو جائے اور رفع الیدین کرے، اور صرف سورۂ فاتحہ پڑھے، پھر اسی طرح رکوع اور سجدے کرے جس طرح پہلی دونوں رکعتوں میں کیے تھے، اور اسی طرح چوتھی رکعت بھی مکمل کرے، البتہ اس مرتبہ تشہد میں تو رک کرے، یعنی دایاں پاؤں کھڑا رکھے اور اس کے نیچے سے بایاں پاؤں نکال کر کولھے پر بیٹھے.
سنن ابوداؤد، رقم : ٧٣٠- صحيح ابن حبان : ٨٢/٥، ١٨٤
پھر مغرب کی تیسری رکعت اور ظہر اور عصر اور عشاء کی نماز میں چوتھی رکعت کے بعد تشہد اور اس کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھے، اور پھر دعا مانگے، پھر دائیں اور بائیں طرف سلام پھیر دے، اور اس کے ساتھ ہی نماز مکمل ہوگئی۔

⋆ فرض نماز کے فوراً بعد اجتماعی دعا :

عبادات توفیقی ہیں، لہذا عبادات کے اصل عدد، کیفیت اور جگہ کے بارے میں کسی شرعی دلیل کی بنیاد پر ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مشروع ہے، تو اس ضابطہ کی بنیاد پر جب ہم اس اجتماعی دعاء کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نبی کریم ﷺ دین کی سنت، قول یا فعل یا علم تقریر سے قطعاً ثابت نہیں ہے، اور ساری خیر و برکت آپ کی سنت کے اتباع میں ہے اور اس مسئلہ میں قطعی دلائل سے ثابت جو آپ کی سنت ہے اور جس کے مطابق آپ کے خلفاء راشدین سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم ، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینؒ نے عمل کیا وہ اجتماعی طور پر دعا کا نہ کرنا ہے، اور جو شخص رسول اللہ ﷺ کی اس سنت کے خلاف عمل کرتا ہے، تو وہ مردود عمل ہے۔ جیسا کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا :
من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد.
’’جو کوئی ایسا عمل کرے جو ہمارے امر کے مطابق نہ ہو تو وہ (عمل) مردود ہے۔“
صحیح مسلم ، كتاب الأقضية ، رقم : ٤٩٣

لہذا جو لوگ سلام کے بعد اجتماعی دعا کرتے ہیں، ان سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اپنے اس عمل کے اثبات میں کوئی دلیل پیش کریں ورنہ یہ عمل مردود قرار پائے گا۔ نمازی کو چاہیے کہ نماز کی بے شمار دعائیں ہیں ان کو یاد کرے، اور نماز کے اندر ان کو پڑھے، بصورتِ دیگر نماز مکمل کرنے کے بعد مسنون دعائیں اور اذکار پڑھے، اور مسنون ذکر واذکار کے بعد اگر کوئی انفرادی سطح پر دعا مانگنا چاہے تو مانگ سکتا ہے۔
والله اعلم بالصواب !

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء