نماز پڑھتے وقت سترے کا خاص اہتمام کرنا

تحریر : ابو ضیاد محمود احمد غضنفر حفظ اللہ

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ لَا كَانَ إِذَا خَرَجَ يَوْمَ الْعِيدِ أَمَرَ بِالْحِرْبَةِ، فَتُوضَعُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَيُصَلِّي إِلَيْهَا وَالنَّاسُ وَرَاءَهُ وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السَّفَرِ، فَمِنْ ثَمَّ اتَّخَذَهَا الْأَمَرَاءُ
لفظ مُسْلِمٍ]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن نکلتے تو برچھی لانے کا حکم صادر فرماتے تو برچھی آپ کے سامنے رکھ دی جاتی، آپ اس کی طرف رخ کرتے ہوئے نماز پڑھتے اور لوگ آپ کے پیچھے ہوتے، سفر کے دوران بھی آپ ایسے ہی کرتے ، پھر امراء نے بھی یہی طرز عمل اختیار کیا ۔ مسلم کے لفظ ہیں ۔
تحقیق و تخریج:
بخاری: (498٬494 مسلم: 501 ”باب سترة المصلي ۔“
فوائد:
➊ نماز پڑھتے وقت سترے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے خاص کر جب کھلا میدان ہو آگے سے گزر کا بھی موقع ہو ۔ سترہ امام کے آگے اور مقتدی امام کے پیچھے ہوں گے ۔
➋ عید کی نماز کھلے میدان میں ادا کرنی چاہیے عید کے دن پیدل چلنا زیادہ عمدہ ہے ۔
➌ امام کی خدمت کرنا اس کے آگے کوئی چیز رکھنا یا اس کے لیے کسی چیز کا اہتمام کرنا شرعاًً جائز ہے ۔
➍ اگر دورانِ سفر نماز کا وقت ہو گیا ہے تو پھر بھی کھلے میدان میں کوئی چیز اپنے مصلے کے آگے گاڑ کر نماز پڑھے گا اس بنا پر لاٹھی عصا وغیرہ اپنے پاس رکھنا درست ہے ۔
وَرَوَى مَالِكٌ عَنْ بُسْرِبْنِ سَعِيدٍ أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ أَرْسَلَهُ إِلَى أَبِي جُهَيْمٍ يَسْأَلُهُ مَا ذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ مَا فِي الْمَارِبَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ فَقَالَ أَبُو جُهَيْهِ: قَالَ رَسُولُ اللهِ عَلَ: لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُ بَيْنَ يَدَي الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ
قَالَ أَبُو النَّصْرِ: لَا أَدْرِى أَرْبَعِينَ يَوْمًا أَوْ شَهْرًا أَو سَنَةً مُتَّفَقٌ عَلَيْهِمَا وَاللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ
امام مالک رحمہ اللہ نے بسر بن سعید کے حوالے سے روایت کیا کہ زید بن خالد نے اسے ابوجہیم کی طرف بھیجا کہ وہ ان سے پوچھے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازی کے آگے سے گذرنے والے کے بارے میں کیا سنا ہے (کہ گذرنے والے کو کس قدر گناہ ہوتا ہے) ابوجہیم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر نمازی کے سامنے سے گذرنے والا یہ جان لے کہ اسے کس قدر گناہ ہوتا ہے تو چالیس تک ٹھہرنا نمازی کے سامنے سے گذرنے کی نسبت بہتر ہو ۔“ ابونصر کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں جانتا کہ آپ نے چالیس دن، چالیس مہینے یا چالیس سال کہا ۔ متفق علیہ ۔ الفاظ بخاری کے ہیں ۔
تحقیق و تخریج:
بخاری: 510 ، مسلم: 507
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتُ سُئِلَ رَسُولُ اللهِ لا عَنْ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي فَقَالَ: مِثْلُ مُؤَخَّرَةِ الرَّحْلِ
انْفَرَدَ بِهِ مُسْلِمٌ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازی کے سترے کے بارے میں پوچھا گیا ، تو آپ نے ارشاد فرمایا: ”اونٹ کے پالان کے پچھلے حصے کی مانند۔ “ مسلم اس روایت میں منفرد ہے ۔
تحقيق و تخریج:
مسلم: 500
وَعَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيُّ من قَالَ: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدُنُ مِنْهَا لَا يَقْطَعُ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ
أَخْرَجَهُ أَبو داود.
سہل بن ابی حثمہ سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی سترہ کی جانب نماز پڑھے تو وہ اس کے قریب ہو جائے تاکہ شیطان اس کی نماز منقطع نہ کر سکے ۔“ ابوداؤد
تحقیق و تخریج:
یہ حدیث صحیح ہے ۔ مسند امام احمد بن حنبل: 214 ، ابوداؤد: 695 ، النسائی: 2/ 62، ابن حبان: 409، البيهقي: 2/ 272 مستدرك حاكم: 1/ 251-252
فوائد:
➊ نمازی کے آگے سے گزرنا گناہ ہے ۔ یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ گزرنے والا چالیس دن یا مہینے تو کھڑا ہو سکتا ہے ۔ وہ یہ آسان سمجھے گا مگر گزرنا پھر بھی بھاری ہے جبکہ اسے معلوم ہو جائے کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے ۔
➋ نمازی کو ہر فرضی و نفلی عبادت کرتے وقت اپنے آگے سترہ رکھنا چاہیے ۔
➌ گزرنے کی صورت یہ ہو گی: نمازی قبلہ کی طرف مغرب سمت کھڑانماز پڑھ رہا ہو تو گزرنے والاجنو ب سمت چل پڑے یاجنو ب سمت سے آدمی آئے اور نمازی کے آگے سے گزر کر شمال سمت چلا جائے یہ ہوتا ہے ”مرور“ جو کہ منع ہے ۔ اگر آدمی آگے ہے اور نمازی بالکل اس کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے تو اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ وہ انتظار کر لے جب نمازی سلام پھیر لے تو پھر پیچھے کو مڑتا ہوا چلا جائے اگر شرعی مجبوری یا جلدی ہے تو پھر آدمی آگے کھڑا ہونے والا اپنے پیچھے نماز پڑھنے والے کے آگے سے اٹھ کر جا سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ مردور کے معنی میں نہیں آتا جو کہ صحیح کر اس کا معنی دیتا ہے اور یہ کر اس نہیں ہوتا
یا اس طرح سمجھیں کہ نمازی کے طول سے گزرنا بامر مجبوری درست ہے اور عرض سے گزرناجائز نہیں ہے کیونکہ یہ مرور ہے ۔
➍ سترہ اتنا اونچا ہونا چاہیے جتنا کہ اونٹ کا کجاوہ ہوتا ہے سرے کی موٹائی کی کوئی قید نہیں ہے لیکن محسوس ہونے والی شے ہونا پھر بھی ضروری ہے ۔
➎ سترہ کے قریب ہو کر کھڑا ہونا شیطان کے لیے ضرر رساں ہے ۔ ان احادیث سے یہ بھی پتا چلا کہ وضو صحیح ہو نیت ٹھیک ہو خشوع و خضوع بھی نماز میں ہو یعنی سبھی نماز کے عوامل درست اداکیے جا رہے ہوں صرف سترہ نہ رکھنے کی وجہ سے اور آگے سے کسی کے گزرجانے کی وجہ سے نماز میں نقص واقع ہوتا ہے ۔
➏ یہ جو آیا ہے کہ آدمی کی نماز فلاں فلاں چیز توڑ دیتی ہے اس کا یہ مفہوم نہیں کہ وہ دوبارہ نماز پڑھے یا دہرائے یا چھوڑ کر دوبارہ سرے سے نماز شروع کرے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ نماز کے ثواب میں کمی واقع ہو جاتی ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء