نماز میں قبلہ رخ ہونے کا حکم
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَحَيْتُ مَا كُنتُمْ فَوَلَّوْا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ
[البقرة : 144]
” تم جہاں کہیں بھی ہو اس (مسجد حرام) کی طرف اپنے چہروں کو پھیر لو ۔“
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو فرض و نفل میں قبلہ رخ ہوتے اور اسی کا حکم دیتے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیى الصلاة سے کہا:
إذا قمت إلى الصلاة فأسبغ الوضوء ثم استقبل القبلة فكبر
[بخاري 6251 ، كتاب الاستئذان : باب من رد فقال عليك السلام ، مسلم 397 ، نسائي 59/3 ، أبو داود 856 ، ترمذي 303 ، ابن ماجة 1060]
” جب تم نماز کا ارادہ کرو تو مکمل وضوء کرو پھر قبلہ رخ ہو کر تکبیر کہو۔“
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ لوگ مسجد قبا میں نماز صبح ادا کر رہے تھے کہ اچانک ایک آدمی نے آ کر کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رات کو قرآن نازل ہوا ہے :
وقد أمر أن يستقبل الكعبة
[بخاري 4488 ، 403 ، كتاب الصلاة : باب ما جاء فى القبلة ومن لم ير الإعادة على من سها ، مسلم 526 ، مؤطا 195/1 ، أحمد 16/2 ، أبو عوانة 394/1 ، ترمذي 341 ، نسائي 61/2 ، دارمي 281/1 ، ابن أبى شيبة 335/1]
” اور بے شک انہیں کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔“
ان کے چہرے شام کی طرف تھے اور وہ کعبہ کی جانب گھوم گئے ۔
ان تمام دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نمازی کے لیے قبلہ رخ ہو نا فرض ہے اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
[نيل الأوطار 677/1 ، الروضة الندية 235/1]
دو صورتوں میں قبلہ رخ ہونے کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے:
➊ دوران جنگ شدت خوف کے وقت کہ جب قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھنا ممکن نہ رہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
فان خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا
[البقرة :239]
” اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل یا سوار ( ہر حالت میں نماز ادا کرو )۔ “
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ حضرت نافعؒ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جب نماز خوف کے بارے میں سوال کیا جاتا تو اس کی صورت بیان فرماتے پھر کہتے کہ اگر خوف اس سے زیادہ سخت ہو تو :
صلوا رجالا ، قياما على أقدامهم و ركبانا مستقبلى القبلة وغير مستقبليها
[بخاري 943 ، كتاب الجمعة : باب صلاة الخوف رجالا و ركبانا…، مسلم 306 ، نسائي 173/3 ، احمد 155/2 ، أبو عوانة 358/2 ، دارقطني 59/2 ، بيهقي 260/3]
” پیادے ، حالت قیام میں اپنے قدموں پر یا سوار ہوکر ، قبلہ رخ ہو کر یا قبلہ رخ نہ ہو کر ( ہر طرح) نماز پڑھ لو۔“
حضرت نافعؒ کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہی بیان کیا ہے۔ )
➋ سواری پر نفلی نماز میں :
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر : قبل أى و جهه توجه جس طرف بھی آپ کا رخ ہوتا ، نفل نماز پڑھ لیتے تھے اور اس پر وتر پڑھ لیتے لیکن فرض نماز اس پر نہیں پڑھتے تھے۔
[بخاري 999 ، كتاب الجمعة : باب الوتر على الداية ، مسلم 36 ، أبو داود 1224 ، ترمذي 472 ، نسائي 242/3 ، ابن ماجة 1200 ، أحمد 7/2]
ایک اور روایت میں یہ لفظ ہیں کہ : حيثما توجهت به ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری جس طرف بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کر دیتی “ ( آپ نماز پڑھتے رہتے تھے ) ۔
[أحمد 7/2 ، مسلم 700 ، ترمذي 472]
یاد رہے کہ ان دونوں صورتوں میں بھی (حسب امکان ) تکبیر تحریمہ کے وقت قبلہ رخ ہونا واجب ہے۔
[المغني لابن قدامة 93/2 ، نيل الأوطار 685/1]
جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کرتے اور نفل پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو : استقبل بنافته القبلة ” اپنی اونٹنی کے ساتھ قبلہ رخ ہو جاتے“ پھر تکبیر کہتے اور : ثم صلى حيث وجهه ركابه ” پھر جس طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ پھیر دیتی نماز پڑھ لیتے ۔“
[حسن : صحيح أبو داود 1084 ، كتاب الصلاة : باب التطوع على الراحلة ، أبو داود 1225 ، أحمد 203/3 ، بيهقي 5/2 ، امام نووي نے اس كي سند كو حسن كہا هے۔ المجموع 315/3]
اگر کوئی کہے کہ اس حدیث میں تو محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ( نفل میں قبلہ رخ ہونا ) مذکور ہے اور یہ اصولی بات ہے کہ فعل سے وجوب ثابت نہیں ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث اثبات وجوب کے لیے نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کی وضاحت کے لیے بیان کی گئی ہے علاوہ ازیں وجوب کے دلائل وہی ہیں جو پیچھے بیان کر دیے گئے ہیں۔
بعض لوگوں کا گمان یہ ہے کہ قبلہ رخ ہونا نماز کے لیے شرط ہے جیسا کہ امام ابن قدامہ خنبلیؒ رقمطراز ہیں کہ :
استقبال القبلة شرط فى صحة الصلاة إلا فى حالتين
[المغني لابن قدامة 92/2]
” دو حالتوں کے سوا قبلہ رخ ہونا نماز کی صحت کے لیے شرط ہے۔“
لیکن ان کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہو کہ قبلہ رخ نہ ہونے سے نماز نہیں ہوتی بلکہ صرف وہی دلائل ہیں کہ جن میں قبلہ رخ ہونے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بات معروف ہے کہ حکم سے وجوب تو ثابت ہوتا ہے شرط نہیں کیونکہ اوامر و فرائض احکام تکلیفیہ میں سے ہیں اور شرط احکام وضعیہ میں سے ہے۔
[إرشاد الفحول 15/1 ، الإحكام للأمدى 90/1]
اگر قبلہ نہ دیکھ رہا ہو تو کوشش و تحقیق کے بعد اس کی جہت کی طرف رخ کرلے
➊ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا
[البقرة: 286]
”اللہ تعالی کسی نفس کو بھی اس کی وسعت و طاقت سے زیادہ تکلیف میں نہیں ڈالتے۔“
➋ عبد اللہ بن عامر بن ربیعہؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک اندھیری رات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ ہمیں قبلے کا علم نہیں ہوا :
فصلي كل رجل منا على حياله
[حسن : صحيح ترمذي 284 ، كتاب الصلاة : باب ما جاء فى الرجل يصلى لغير القبلة فى الغيم ، ترمذى 345 ، دار قطني 272/1 ، بيهقي 11/2]
” لہذا ہم میں سے ہر آدمی نے اپنی جہت میں نماز پڑھ لی۔ “
جب صبح ہوئی تو ہم نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی :
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَقَمْ وَجْهُ اللهِ
[البقرة : 115]
”تم جس طرف بھی پھرو وہیں اللہ کا چہرہ ہے۔ “
(ابن بازؒ ) جب مومن کسی صحرا میں یا ایسی بستی میں ہو جہاں قبلے کا رخ مشتبہ ہورہا ہو تو پھر وہ شخص صحیح رخ معلوم کرنے کے لیے مکمل کوشش کرنے کے بعد اپنے اجتہاد کے مطابق نماز ادا کر لے تو اس کی نماز درست ہے۔
[فتاوي ابن باز مترجم 56/1]
فقہاء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اجتہاد کے ساتھ کسی سمت میں نماز پڑھ لیتا ہے پھر اسے علم ہوتا ہے کہ اس نے قبلہ رخ نماز نہیں پڑھی تو کیا اسے دوبارہ نماز ادا کرنی پڑے گی یا کہ پہلی نماز کفایت کر جائے گی ؟
(احناف ، حنابلہ ) اجتہاد کی صورت میں دوبارہ نماز پڑھنا واجب نہیں۔
(مالکیہ ) اس نماز کے وقت میں نماز دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔
(شافعیہ) اگر اس نماز کا وقت گزر بھی گیا ہو تب بھی اسے دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔
[الفقه الإسلامي وأدلته 761/1 ، سبل السلام 307/1]
(راجح) اس نماز کا وقت ہو یا گزرچکا ہو کسی صورت میں بھی نماز دوبارہ ادا کرنا واجب نہیں جیسا کہ گذشتہ حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔ نیز امام شوکانیؒ اور عبدالرحمن مبارکپوریؒ بھی اس کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[نيل الأوطار 677/1 ، السيل الجرار 173/1 ، تحفة الأحوذى 335/1]
(ابن قدامہ حنبلیؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[المغني 111/2]
اگر دوران نماز قبلے کا علم ہو جائے
تو نماز میں ہی اس کی طرف گھوم جانا چاہیے۔
[المغني لابن قدامة 113/1]
جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں واضح طور پر موجود ہے کہ جب اہل قباء کو دوران نماز ایک صحابی نے قبلہ بدل جانے کا فرمان الہی سنایا تو انہوں نے نماز میں ہی شام سے کعبہ کی جانب رخ پھير ليا :
و كانت وجوههم إلى الشام فاستداروا إلى الكعبة
[بخاري 403 ، كتاب الصلاة : باب ما جاء فى القبلة ، مؤطا 195/1 ، ترمذي 431 ، أبو عوانة 394/1 ، نسائي 61/2 ، أحمد 16/2]
” ان کے چہرے شام کی طرف تھے تو وہ کعبے کی جانب گھوم گئے ۔“
عین قبلہ کی جانب رخ کرنا
جب نمازی قبلہ سے دور دراز فاصلہ پر ہو تو اس کے لیے عین قبلہ کی جانب رخ کرنا لازمی نہیں بلکہ محض اپنا چہرہ اس سمت میں کر لینا ہی کافی ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما بين المشرق والمغرب قبلة
[صحيح : إرواء الغليل 324/1 ، ترمذى 344 ، 342 ، كتاب الصلاة : باب ما جاء أن ما بين المشرق والمغرب قبلة ، ابن ماجة 1011 ، نسائي 172/4 ، بيهقي 9/2 ، دار قطني 27031 ، شيخ حازم على قاضي نے اس حديث كو صحيح لغيره كها هے۔ التعليق على سبل السلام 307/1]
” مشرق اور مغرب کے مابین قبلہ ہے ۔“
امام صنعانیؒ رقمطراز ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ایسے شخص کے لیے کہ جس پر عین قبلہ معلوم کرنا دشوار ہو محض اس سمت میں چہرہ کر لینا ہی کافی ہے نہ کہ اس پر عین قبلہ کی جانب رخ کرنا ضروری ہے۔ علماء کی ایک جماعت کا اس حدیث کی وجہ سے یہی موقف ہے۔
[سبل السلام 308/1]
گذشتہ حدیث سے وجہ استدلال یوں ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان تمام جگہ میں تو قبلہ نہیں ہے بلکہ بعض جگہ میں قبلہ ہے اور بعض اس کا اردگرد ہے لیکن سب کو ہی قبلہ کہا گیا ہے لہذا اس جہت وسمت میں رخ کرنا ہی کافی ہوگا۔
(شوکانیؒ) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص کعبے سے دور ہو اس پر اس جہت میں اپنا رخ کر لینا ہی فرض ہے نہ کہ اس پر عین قبلہ رخ کرنا ضروری ہے۔
[نيل الأوطار 682/1]
(احمدؒ ، مالکؒ ، ابوحنیفہؒ) اس کے قائل ہیں۔ ایک قول کے مطابق امام شافعیؒ کا بھی یہی موقف ہے۔
( شافعیؒ ) جو شخص دور ہے اس پر بھی عین قبلہ کی جانب رخ کرنا فرض ہے۔
[ الأم 190/1 ، روضة الطالبين 329/1 ، شرح فتح القدير 234/1 ، كشاف القناع 305/1]
(راجح) پہلا موقف ہی راجح و برحق ہے۔
[المغني لابن قدامة 102/2]
آج کل قبلہ معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں ہے کیونکہ ہر شہر اور بستی میں مساجد کے محراب اہل خبر و اہل معرفت افراد نے تحقیق و تفتیش کے بعد قبلہ کی جانب ہی بنائے ہوئے ہیں لہذا انہی کے مطابق قبلہ رخ ہو جانا چاہیے۔
اگر کوئی ایسے بلند و بالا پہاڑ پر نماز پڑھے
کہ کعبہ کی سمت سے ( اوپر ) نکل جائے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اسی طرح اگر کوئی ایسی جگہ میں نماز پڑھے جو اس کی سمت سے نیچے ہو ( تو بھی اس کی نماز صحیح ہے ) ۔
[المغني 102/2]
ہوائی جہاز اور کشتی میں قبلہ رخ ہونا اور بیٹھ کر نماز پڑھنا
(ابن بازؒ) مسلمان پر واجب ہے کہ جب وہ ہوائی جہاز یا صحرا میں ہو تو علامات قبلہ اہل خبر و نظر سے دریافت کر کے قبلہ پہچاننے میں اجتھاد کرے۔ پھر اگر اسے اس کا علم نہ ہو سکے تو قبلہ کے رخ کی جستجو میں اجتھاد کرے اور اس طرف چہرہ کر کے نماز ادا کرے، یہ اس کے لیے کافی ہے خواہ بعد میں یہ معلوم ہو کہ اس نے قبلہ کی تلاش میں خطا کی ہے۔ (بیٹھ کر نماز پڑھنے میں) کوئی حرج نہیں جبکہ وہ کھڑا ہو کر نماز نہ ادا کر سکتا ہو جیسے کشتی یا بحری جہاز میں نماز ادا کرنے والا اگر کھڑا ہو کر نماز پڑھنے سے عاجز ہو تو بیٹھ کر ادا کر سکتا ہے اور اس مسئلے میں حجت اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
فَاتَّقُوا اللهَ مَاسْتَطَعْتُمْ
[التغابن : 16]
” جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرو۔“
اور ہوائی جہاز سے اترنے تک نماز کو اس صورت میں موخر کر سکتا ہے جبکہ نماز کے وقت میں گنجائش ہو۔ یاد رہے کہ یہ تمام مسائل فرضی نمازوں کے متعلق ہیں علاوہ ازیں نوافل میں قبلہ رخ ہونا واجب نہیں ۔
[الفتاوى الإسلامية 253/1 ، فتاوى ابن باز مترجم 57/1]
مجبوری یا حالت مرض میں قبلہ رخ ہونا
جسے مجبور کیا گیا ہو اور مریض دونوں قبلہ رخ ہوئے بغیر بھی نماز ادا کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ قبلہ رخ ہونے سے عاجز ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
إذا أمرتكم بأمر فاتوا منه ما استطعتم
[فقه السنة 116/1]
” جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس پر عمل کر لو ۔“