نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا مسئلہ صحیح احادیث کی روشنی میں

یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب نماز مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

● امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کا بیان :

نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، مقتدی امام کے پیچھے چاہے وہ بلند آواز سے قرآت کرے یا نہ کرے سورۃ فاتحہ ضرور پڑھے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

﴿لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب .﴾
صحیح بخارى، كتاب الأذان، رقم : ٧٥٦- صحيح مسلم، کتاب الصلاة، رقم : ٣٩٤.

’’جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں۔‘‘

امام بخاریؒ اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں:

﴿باب وجوب القراءة للإمام والمأموم فى الصلوات كلها، فى الحضر والسفر ، وما يجهر فيها وما يخافت .﴾

’’باب، سورۂ فاتحہ پڑھنا ہر نمازی پر واجب ہے، خواہ امام ہو، منفرد ہو یا مقتدی ، حضر میں ہو یا سفر میں ، جہری نماز ہو یا سری ۔‘‘

مزید برآں امام بخاریؒ فرماتے ہیں:

﴿تواتر الخبر عن رسول الله لا صلاة إلا بقراءة أم القرآن .﴾
جزء القراءة، رقم : ٢٥ .

’’رسول اللہ ﷺ سے متواتر حدیث مروی ہے کہ ام القرآن یعنی سورۃ فاتحہ کی قرآت کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔‘‘

علامہ قسطلانیؒ اسی مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

﴿أى فى كل ركعة منفردا أو اماما أو مأموما سواء أسر الإمام او جهر﴾
ارشاد السارى : ٤٣٩/٢.

’’ہر رکعت میں ہر نمازی خواہ امام ہو یا منفرد یا مقتدی ، خواہ امام آہستہ پڑھے یا بآواز بلند، فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔‘‘

❀ علامہ کرمانیؒ لکھتے ہیں:

’’اس حدیث میں دلیل ہے کہ تمام نمازوں میں ، خواہ امام ہو یا مقتدی، یا اکیلے سب پر سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔‘‘
شرح الكرماني : ١٢٤/٥.

❀ امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:

’’اہل علم کی ایک جماعت نے مقتدی کے لیے فاتحہ ترک کرنے کے بارے میں سخت بات کہی ہے کہ فاتحہ کے بغیر نماز کافی نہیں اگرچہ نمازی اکیلا ہو یا مقتدی۔ اور وہ عبادۃؓ کی روایت سے استدلال کرتے ہیں اور عبادۃؓ بھی آنحضرت ﷺ کے بعد امام کے پیچھے پڑھتے تھے اور انہوں نے تاویل کی کہ آنحضرت ﷺ کے فرمان کی کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔ یہی قول امام شافعی اور اسحاق وغیر ہما کا ہے۔
سنن ترمذى مع تحفة الاحوذی : ٢٥٦/١، ٢٥٧.

❀ حافظ ابن عبدالبرؒ فرماتے ہیں کہ:

’’یہ حدیث عام ہے، اس میں امام یا مقتدی، یا اکیلے نمازی کے لیے تخصیص نہیں ہے۔ بلکہ سب کے لیے حکم ہے ۔‘‘
التمهيد : ٤٣/١١.

ابن عبد البرؒ نے امام اوزاعیؒ کا قول نقل کیا ہے کہ:

﴿اخذت القراءة مع الإمام عن عبادة بن الصامت ومكحول﴾
التمهيد : ٣٦/١١.

’’میں نے امام کے ساتھ قراءت کا عمل عبادہ بن صامتؓ اور مکحول سے لیا ہے۔‘‘

❀ امام نوویؒ فرماتے ہیں:

’’نبی ﷺ کے فرمان ” جس نے فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں‘‘ میں امام شافعی اور ان کے ہمنواؤں کی دلیل ہے کہ فاتحہ امام، مقتدی اور منفرد کے لیے واجب ہے ۔‘‘
شرح مسلم : ۱۰ / ۱۷۰.

شاہ ولی اللہ دہلویؒ ارکان نماز شمار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

﴿وما ذكره النبى الله بلفظ الركنية لقوله ﷺ لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب وقوله ﷺ لا تجزئ صلاة الرجل حتى يقيم ظهره فى الركوع والسجود وما سمى الشارع الصلاة به فإنه تنبيه بليغ على كونه ركنا فى الصلاة .﴾
حجة الله البالغة : ٤/٢ .

اور جس کو نبی ﷺ نے لفظ رکن سے ذکر کیا ہو، جیسے آپ نے فرمایا:

فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ، اور آپ کا فرمان ہے کہ آدمی کو نماز کفایت نہیں کرتی جب تک کہ وہ رکوع و سجود میں پیٹھ کو سیدھا نہ کرے۔ اور جسے شارع نے نماز کہا ہو، نماز کے لیے اس کے رکن ہونے پر بڑی بلیغ تنبیہ ہے ۔

اور علامہ خطابیؒ لکھتے ہیں:

﴿قلت عموم هذا القول يأتى على كل صلاة يصليها المرء وحده أو من وراء الإمام أسر امامه القراءة أو جهر بها .﴾
إعلام الحديث في شرح صحيح البخاري : ١ / ٥٠٠ .

’’میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کا عموم ہر اس نماز کو شامل ہے جسے آدمی اکیلے ادا کرتا ہے یا امام کے پیچھے، اس کا امام قراءت سری کر رہا ہو یا جہری ۔‘‘

پس معلوم ہوا کہ جو بھی نمازی خواہ وہ امام ہو یا مقتدی، منفرد ہو یا جماعت کے ساتھ، اگر سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا تو اس کی نماز نہیں ہوتی ۔

ایک صوفی بزرگ خواجہ نظام الدین اولیاء امام کے پیچھے آہستہ قرآت کرتے تھے ، تو ان کے کسی مرید نے انہیں ایک روایت پیش کی کہ امام کے پیچھے قراءت کرنے والے کے منہ میں آگ کا انگارا رکھا جائے گا۔ تو انہوں نے فرمایا:

’’قد صح عنه ﷺ لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب .‘‘
نزهة الخواطر: ١٢٩/٢.

’’رسول کریم ﷺ سے صحیح ثابت ہے کہ جس شخص نے سورۃ الفاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہے۔‘‘

جمہور علماء اسی کے قائل ہیں۔ بلکہ نماز میں فاتحہ کی رکنیت پر صحابہ کرامؓ کا اتفاق ہے ۔ علامہ سیوطیؒ لکھتے ہیں :

﴿ولم يحفظ أنه كان فى الإسلام صلاة بغير الفاتحة ذكره ابن عطية وغيره .﴾
الاتقان : ١٢/١۔

’’یہ بات کبھی ذکر میں نہیں آئی کہ اسلام میں فاتحہ کے بغیر بھی نماز پڑھی گئی ہو۔‘‘

❀ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

﴿من صلى خلف الإمام فليقرأ بفاتحة الكتاب .﴾
مسند الشامیین، رقم: ۲۹۱ ۔ ہیثمیؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی ’’ثقہ‘‘ ہیں۔

’’جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے، اسے سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے۔‘‘

سید نا عبادۃ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نماز فجر میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھے ، آپ نے قرآن پڑھا، پس آپ پر پڑھنا بھاری ہو گیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:

شاید تم اپنے امام کے پیچھے پڑھا کرتے ہو؟ ہم نے کہا:

ہاں! اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا:

سوائے فاتحہ کے اور کچھ نہ پڑھا کرو، کیونکہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے۔
سنن أبو داؤد، كتاب الصلاة، رقم: ۸۲۳ ۔ سنن ترمذی ابواب الصلاة، رقم: ۳۱۱- صحيح ابن خزيمه ، رقم: ١٥٨١ ـ صحيح ابن حبان ٤٦١،٤٦٠ ۔ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اسے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

مزید برآں سیدنا عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا:

کیا تم میرے ساتھ قرآت کرتے ہو؟ تو صحابہ کرام نے کہا :

جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا:

سورہ فاتحہ کے سوا کچھ بھی نہ پڑھو کیونکہ جو شخص اس کو نہیں پڑھتا اس کی نماز ہی نہیں ۔
كتاب القرأة للبیھقی ۔ امام بیہقی اور ضیاء المقدسی نے اس کو ’’صحیح‘‘ اور امام دارقطنی نے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔

↰ فائدہ :

سیدنا عبادۃؓ فاتحہ خلف الامام پڑھنے کے قائل و فاعل تھے ، آپ سے فاتحہ خلف الامام پڑھنے کا سبب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:

کیونکہ ﴿لا صلاة إلا بها﴾

’’اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔‘‘
السنن الكبرى للبيهقي : ١٦٨/٢٢ – التمهيد : ۳۹/۱۱۔

گویا حدیث کے راوی سید نا عبادۃؓ اس عمومی حکم کو مقتدی کے لیے بھی سمجھتے تھے۔ پس جن لوگوں نے اس کو منفرد کے لیے خاص کر رکھا ہے، وہ دعوی بلا دلیل ہے۔

❀ علامہ خطابیؒ نے لکھا ہے:

﴿هذا عموم لا يجوز تخصيصه إلا بدليل .﴾

’’یہ حدیث عام ہے، اس کو بلا دلیل منفرد کے لیے مخصوص کرنا درست نہیں ۔‘‘
معالم السنن: ٣٨٩/١ مع مختصر المنذرى.

❀ امام بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ :

’’عبادةؓ کا مشہور مذہب فاتحہ خلف الامام ہے ۔‘‘
السنن الكبرى : ١٦٨/٢.

مولا نا سرفراز صفدر دیوبندی نے بھی لکھا ہے کہ :

’’یہ بالکل صحیح سند کے ساتھ ہے کہ حضرت عبادہؓ امام کے پیچھے پڑھتے تھے۔ ان کی یہی تحقیق اور شعار ومذہب ہے۔‘‘
احسن الكلام : ١٤٢/٢ ، طبع : ٢ .

◈ لا نفی جنس یا لانفی کمال :

مذکورہ حدیث میں ’’لا‘‘ نفس جنس کا ہے نہ کہ ’’لا‘‘ نفی کمال کا ۔ یہ اصول مسلم ہے کہ لافی جنس کی خبر جب محذوف ہو تو اس میں وجود کی نفی مراد ہوتی ہے۔ الا یہ کہ کوئی قرینہ صارفہ موجود ہو ۔ حنفی علماء میں سے مولا نا عبد الحئی لکھنوی، علامہ ابوالحسن سندھی اور علامہ ابن الہمام وغیرہ نے یہاں لانفی جنس یعنی وجود کی نفی ہی مراد لی ہے۔ اور جن لوگوں نے خواہ مخواہ لا نفی کمال بنانے کی کوشش کی ہے، ان کا خوب رد کیا ہے۔

سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

﴿وليقرأ أحدكم بفاتحة الكتاب فى نفسه .﴾
صحيح ابن حبان، رقم : ١٨٤٤ – جزء القراءة، للبخاري رقم : ٥٦ – السنن الكبرى للبيهقي، – رقم : ٢٧٥ ـ التلخيص الحبیر، رقم: ۸۷۔ ابن حبانؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ اور ابن حجر نے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔

’’تم صرف سورۃ فاتحہ دل میں پڑھا کرو۔‘‘

اور سیدنا ابو ہریرۃؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’جس شخص نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی، پس وہ نماز ’’خداج‘‘ ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں ۔‘‘

سیدنا ابوہریرۃؓ سے پوچھا گیا:

ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں پھر بھی پڑھیں؟ تو سیدنا ابو ہریرۃؓ نے کہا:

(ہاں!) تو اس کو دل میں پڑھو ۔ اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے اور میں بندے کا سوال پورا کرتا ہوں، جب میرا بندہ ’’اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ‘‘ کہتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، میرے بندے نے میری حمد بیان کی ہے اور جب بندہ ’’الر حمٰنِ الرَّحِيْمِ‘‘ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میرے بندے نے میری ثنا بیان کی ہے۔ جب بندہ ’’مَلِكِ يَوْمِ الدین‘‘ کہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعظیم کی ہے۔ جب بنده ’’إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ‘‘ کہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے، اور میرے بندے کے لیے ہے جو بھی اس نے سوال کیا ۔ اور جب بندہ کہتا ہے :

’’اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یہ میرے بندے کے لیے خاص ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے سوال کیا ۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب وجوب القراءة في كل ركعة رقم : ٣٩٥ .

↰ فائدہ:

امام بخاریؒ نے ’’جزء القراءة‘‘ میں لغت کے امام ابو عبیدؒ سے ’’خداج‘‘ کا معنی نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں:

’’خِدَاجُ النَّاقَةِ‘‘ اس وقت بولا جاتا ہے، جب اونٹنی بچے کو وقت سے پہلے مردہ حالت میں گرادے اور ایسے مردہ بچے سے کوئی نفع نہیں حاصل کیا جا سکتا ۔

صحیح ابن خزیمہ میں الفاظ یوں ہیں:

﴿لا تجزى صلاة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب﴾
صحیح ابن خزيمه : ٢٤٨/١، رقم : ٤٩٠ ۔ ابن خزیمہ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

’’جس نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ کفایت نہیں کرتی۔‘‘

پس واضح معلوم ہو گیا کہ سورہ کے بغیر پڑھی گئی نماز بے سود اور بے فائدہ ہے۔

مفسر قرآن سید نا عبد اللہ ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ:

﴿اقرأء خلف الإمام بفاتحة الكتاب .﴾
كتاب القرأة، للبيهقى ص : ٧٧، وفي السنن الكبرى : ١٦٩/٤ – امام بیہقی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

’’امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھو۔‘‘

↰ فائدہ:

اقوال صحابہ بھی تفسیر قرآن میں حجت ہیں، کیونکہ یہ پاکیزہ ہستیاں ایک تو یہ کہ قرآن حکیم کے نزول کے حالات سے اچھی طرح باخبر اور قرآن حکیم کے اولین مخاطب تھیں۔ اور دوسرے یہ کہ انھیں رحمت دو عالم ﷺ کی صحبت و رفاقت کا شرف حاصل ہوا اور آپ کی شاگردی نصیب ہوئی۔ ظاہر ہے کہ نبی رحمت ﷺ کے براہِ راست شاگر د قرآن فہمی کی دولت سے بقیہ امت کی نسبت کہیں زیادہ مالا مال تھے ۔ اور پھر عبد اللہ بن عباسؓ تو وہ عظیم صحابی ہیں کہ جن کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی یہ دُعا بھی موجود ہے:

﴿اللهم علمه الكتاب .﴾
صحيح ،بخاری، کتاب العلم، رقم : ٧٥.

’’اے اللہ ! اسے کتاب کی تفسیر کا علم سکھا دے۔‘‘

اور یہ دعا سید نا عبد اللہ بن عباسؓ کے حق میں مقبول ٹھہری کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس اُمت کا عظیم مفسر قرآن بنایا۔ پس اگر سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں ابن عباسؓ نے قرآت خلف الامام کا حکم دیا ہے تو یہ سنت نبوی ﷺ کے عین مطابق ہے۔

خلیفہ راشد امیر المومنین عمرؓ سے یزید بن شریک نے فاتحہ خلف الامام کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا :

تم سورۃ فاتحہ پڑھا کرو۔

اُس نے کہا:

اگر آپ قرآت جہر کر رہے ہوں تو ؟ انہوں نے فرمایا :

اگر چہ میں جہر سے پڑھ رہا ہوں تو بھی ؟
مستدرك حاكم: ٢٣٩/١ ۔ حاکم اور دارقطنی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

سید نا ابی بن کعبؓ کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔
جزء القرأة للبخارى: ٥٢.

ابونضرة منذر بن مالک نے حدیث بیان کی کہا:

میں نے ابوسعید خدریؓ سے امام کے پیچھے قراءت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:

سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیےَ۔
جزء القراءة : ١٠٥ – كتاب القراءة للبيهقي : ٢٢٤ – الكامل لابن عدى: ١٠٣٧/٤.

قراءة فاتحہ خلف الامام کے متعلق اقوال تابعین وائمہؒ :

سعید بن جبیر (شاگر د عبد اللہ بن عباسؓ) نے اس سوال (کیا میں امام کے پیچھے قرآت کروں؟) کا جواب دیا کہ جی ہاں! اور اگر چہ تو اس کی قرآت سن رہا ہو ۔
جزء القرأة : ۲۷۳.

دوسری روایت میں فرمایا:

کہ ضروری ہے کہ تو امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھے۔
مصنف عبدالرزاق، رقم: ۲۷۸۹ – كتاب القراءة للبيهقي، رقم: ۲۳۷ – جزء القراءة، ص : ٢٩ – توضيح الكلام : ٥٣٠/١ .

❀ حسن بصریؒ فرماتے ہیں:

کہ امام کے پیچھے ہر نماز میں سورۃ فاتحہ اپنے دل میں پڑھو۔
مصنف ابن ابي شيبة، رقم : ٣٧٦٢ ـ السنن الكبرى للبيهقي : ۱۷۱/۲ ـ كتاب القرأة للبيهقي :٢٤٢۔

❀ امام اوزاعیؒ نے جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا۔
كتاب القرأة للبيهقي : ٢٤٧ .

❀ امام شافعیؒ فرماتے ہیں:

ہر رکعت میں امام، مقتدی اور منفر دسب کے لیے سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔ خواہ سری نماز ہو یا جہری ہو ، فرض ہو یا نفلی ۔

(بحوالہ فقہ الحدیث : ۱/ ۳۸۶)

❀ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ :

امام شافعیؒ کے قول کو ترجیح حاصل ہے۔

(تفسیر قرطبی : ۱/ ۱۱۹)

❀ امام خطابیؒ کے نزدیک امام کے پیچھے فاتحہ کی قراءت واجب ہے۔ خواہ امام جہری قرآت کرتا ہو یا سری۔

(معالم السنن: ۱/ ۴۰۵)

❀ امام شوکانیؒ کا فرمان ہے کہ حق یہی ہے کہ امام کے پیچھے قرآت فاتحہ واجب ہے۔

(نیل الأوطار : ۱/ ۳۹)

❀ عبد الحئی لکھنوی حنفیؒ نے فرمایا:

کسی مرفوع حدیث میں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی ممانعت مروی نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسی حدیث ہے تو یا اس کی کوئی اصل نہیں یا وہ صحیح نہیں ہے۔

(التعلیق المجد ص ۱۰۱ ص:۱۰۱)

❀ ابن حزمؒ کے نزدیک امام اور مقتدی پر سورۃ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔

(المحلی : ۲۶۵/۲)

● سورۂ فاتحہ خلف الامام نہ پڑھنے کے دلائل اور ان کا تجزیہ

◈ پہلی دلیل :

مقتدی امام کے پیچھے سورت فاتحہ نہ پڑھے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾

(الأعراف : ٢٠٤)

اور جب قرآن پڑھا جائے تو تم اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

◈ جواب:

اس آیت سے سورۃ فاتحہ خلف الامام نہ پڑھنے پر استدلال غلط ہے۔ چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں:

’’میرے نزدیک (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا) ”جب قرآن مجید پڑھا جائے تو کان لگا کر سنو‘‘ تبلیغ محمول ہے، اس جگہ ’’قراءت فی الصلوۃ‘‘ مراد نہیں، سیاق سے یہی معلوم ہوتا ہے ۔
الکلام الحسن، ملفوظات تھانوی صاحب: ۲۱۲/۲ طبع مکتبہ اشرفیہ لاہور، مرتب بانی جامعہ اشرفیہ مفتی محمد حسن صاحب مرحوم –

تھانوی صاحب کے شاگرد مولانا عبد الماجد دریا آبادی رقم طراز ہیں:

’’حکم کے مخاطب ظاہر ہے کہ کفار و منکرین ہیں اور مقصود اصلی یہ ہے کہ جب قرآن به غرض تبلیغ وغیرہ پڑھ کر تم کو سنایا جائے تو اسے توجہ اور خاموشی سے سنو، تاکہ اس کا معجزہ ہونا اور اس کی تعلیمات کی خوبیاں تمہاری سمجھ میں آجائیں اور تم ایمان لا کر مستحق رحمت ہو جاؤ۔ اصل حکم تو اسی قدر تھا لیکن علمائے حنفیہ نے اس کے مفہوم میں توسیع پیدا کر کے اس سے حالت نماز میں مقتدی کے لیے قرآنی سورہ فاتحہ کی ممانعت بھی نکالی ہے۔‘‘
تفسیر ماجدی : ۳۷۳، حاشیہ نمبر: ۲۹۹، طبع تاج کمپنی لاہور و کراچی ۔

﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا﴾

مکہ میں نازل ہوئی ہے اور اس کے بعد بھی صحابہ کرامؓ نماز میں کلام کر لیا کرتے تھے اور سلام کا جواب دے لیا کرتے تھے، نماز میں کلام کرنا تو مدینہ میں آکر منسوخ ہوا، جب سورۃ بقرہ کی آیت (قُومُوا لله قیتِین قنِتِينَ) نازل ہوئی۔ جب سورۃ اعراف کی اس آیت کریمہ نے نماز میں کلام اور سلام کرنے سے نہیں منع کیا تو پھر سورۂ فاتحہ پڑھنے سے کیسے روکتی ہے۔ یاد رہے کہ نماز میں کلام کے مدینہ میں منسوخ ہونے کا موقف حنفی حضرات نے بھی تسلیم کیا ہے۔
احسن الكلام : ١ / ١٩٤ – شرح مسلم از غلام رسول سعیدی : ٢/ ٩٦ – طحاوی : ٣٠٤/١، كتاب الصلاة، باب الكلام في الصلاة.

شیخ العرب والحجم سید علامہ ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدیؒ لکھتے ہیں:

﴿وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾

” جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے ۔‘‘

اس آیت کا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا اور آپ ﷺ ہی اس کو ان سب سے زیادہ جانتے تھے، اپنی زندگی میں اپنے قول و فعل سے اس کی تفسیر کرتے رہے اور آپ ﷺ نے یہ حکم دیا کہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھی جائے ورنہ نماز نہیں ہوگی ۔ اگر قرآن کریم میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے سے روکا گیا ہوتا تو آپ ﷺ کبھی بھی اس کے پڑھنے کا حکم نہ دیتے کیونکہ آپ ﷺ نے کبھی قرآن کے خلاف کوئی حکم نہیں دیا اور آپ ﷺ نے ہی قرآن پر صحیح عمل کرنے کا طریقہ تعلیم سکھایا ہے اور یہ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے اس لیے اس طرح آیت اور صحیح احادیث کا آپس میں ٹکرانا عقیدے کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ بلکہ مسلمانوں کو تمام مسائل قرآن اور احادیث کی روشنی میں سمجھنے چاہئیں ۔ اسی وجہ سے امیر المومنین عمر بن خطابؓ فرماتے تھے:

کچھ لوگ تمہیں قرآن سے دلیل پیش کر کے شبہات پیدا کر کے جھگڑیں گے۔ پس تم ان کو حدیث سے پکڑنا ، مواخذہ کرنا۔

’’فإن اصحاب السنن اعلم بكتاب اللہ‘‘

’’اس لیے کہ حدیث والے (اہل حدیث) ہی قرآن کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔‘‘
سنن دارمی، رقم : ٤٧٨ .

اس کے لیے مضمون خود بتا رہا ہے کہ اس آیت کا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

قرآن کریم میں سیاق اس طرح ہے:

﴿ وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي ۚ هَٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ‎﴿٢٠٣﴾‏ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ‎﴿٢٠٤﴾﴾

﴿الاعراف : ٢٠٣ تا ٢٠٤﴾

ان آیات کا ترجمہ علامہ تاج محمد امروٹی نے اس طرح کیا ہے۔

”اور (اے پیغمبر!) جب تو ان کے پاس کوئی آیت لاتا ہے (تو) کہتے ہیں کہ (اپنی طرف سے) کیوں نہیں بناتا؟ کہہ دے کہ جو کچھ میری طرف اپنے رب کی طرف سے وحی ہوتی ہے اس کے علاوہ (کسی اور کی ) تابعداری نہیں کرتا۔ یہ قرآن ہمارے رب کی طرف سے روشنی اور ہدایت اور رحمت ہے اس قوم کے لیے جو مانتی ہے اور جب قرآن پڑھا جائے (تو) اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے ۔‘‘

اسی طرح مولوی محمد عثمان نورنگ زادہ کی تفسیر تنویر الایمان میں بھی ہے۔ ناظرین! اب اس ترجمہ پر غور کریں کہ یہ کفار کا مطالبہ ہے جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو یہ کہنے کا حکم دیتا ہے کہ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ اس حکم کا پابند ہوں جو وحی کے ذریعے میری طرف آتا ہے اور یہ قرآن میرے رب کی طرف سے آیا ہے جس میں تمہارے لیے روشنی اور رہنمائی ہے خاص کر مؤمنوں اور ماننے والوں کے لیے رحمت ہے اس لیے تم اس کو خاموشی سے سنو تا کہ تمہارے لیے بھی رحمت بن جائے یعنی وہ وعظ اور دورانِ خطبہ شور مچاتے تھے اور ان کے بڑوں کی اپنے زیر دستوں کو یہ تعلیم تھی۔ جیسا کہ قرآن کریم میں (دوسری جگہ) فرمایا گیا ہے:

﴿وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ﴾

﴿حم السجده : ٢٦﴾

’’اور کفار نے کہا کہ اس قرآن کو نہ سنو اور اس کے پڑھنے کے دوران شور کرو تا کہ تم غالب ہو جاؤ۔‘‘

﴿ترجمہ امروئی ، صفحہ ۵۷۳﴾

یعنی دوران خطبہ کفار کو شور کرنے سے روکا گیا۔ امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر جلد ۵ صفحہ ۱۰۴-۱۰۵ میں اس بارے میں تفصیلی تقریر کی ہے۔ اور فرماتے ہیں:

’’اسی طرح قرآن کریم کے مضمون کی اچھی ترتیب اس کو فائدہ مند بنانے والی ہے اور اس کو امام کے پیچھے قراءت کرنے سے روکنے کی دلیل بنانے سے مضمون کا سلسلے وار ہونا اور ترتیب نہیں رہے گی ۔‘‘
فاتحه خلف الإمام، ص : ٤٣ – ٤٥ ـ طبع جمعیت اهلحديث سندهـ.

◈ دوسری دلیل :

مسلم، ابن ماجہ، طحاوی اور نسائی میں روایت ہے کہ امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے ، جب تکبیر کہے تو تکبیر کہو، اور جب قرآت کرے تو خاموش رہو ۔

’’وإذا قرأ فانصتوات.‘‘

◈ جواب: … اولاً:

’’انصات‘‘ آہستہ پڑھنے کے منافی نہیں ۔ جیسا کہ ’’وَ إِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ‘‘ کے عموم کے اعتبار سے خطبہ سننا چاہیے۔ چنانچہ المبسوط للسرخی : ۲/ ۲۸ میں ہے:

ولا ينبغي للقوم ان يتكلموا والإمام يخطب لقوله تعالىٰ:﴿فاستمعوا له وانصتوا﴾

امام کے خطبہ کے وقت لوگوں کا باہم بات کرنا مناسب نہیں ، اس لیے کہ اللہ کا فرمان ہے:

’’سنو اور خاموش رہو ۔‘‘

جب کہ (يايها الذين آمنوا صلوا عليه وسلموا تسليما) کی رو سے محمد ﷺ کا نام سن کر درود پڑھنے کا حکم ہے ۔ تو علمائے حنفیہ نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ درود آہستہ پڑھ لو۔ پس معلوم ہوا کہ آہستہ پڑھنا ’’انصات‘‘ کے منافی نہیں تفصیل دیکھیں:

کفایه : ٢٩٩/١ – فتح القدير لابن الهمام: ۲/ ۳۸ – البناية للعينى : ۲/ ۳۷۹، ۳۸۰ ـ رمز الحقائق شرح کنز الدقائق : ٤٥ قدیم: ۲۷/۱ ، جديد شرح وقاية : ٧٥- الهداية: ١/ ١٢١ –

جب در دو شریف پڑھا جا سکتا ہے تو فاتحہ پڑھنے میں کیا حرج و ممانعت ہے؟

علامہ طاہر حنفی بھی انصات کا معنی ’’سکوت‘‘ کرتے ہیں اور سکوت سے مراد آہستہ پڑھنا لیتے ہیں۔ دلیل کے طور پر ایک حدیث پیش کرتے ہیں جس میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول الله ! ’’ما تقول بين اسكاتك .‘‘ الخ یعنی تکبیر تحریمہ کے بعد جب آپ چپ ہوتے کیا پڑھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اللهم باعد بيني وبين خطايا ….. الخ پڑھتا ہوں ۔‘‘
مجمع البحار : ١٢٥/٢.

معلوم ہوا کہ انصات ’’چپ رہنا‘‘ جہر کے منافی ہے، آہستہ پڑھنے کے منافی نہیں ۔

◈ ثانياً :

حنفی حضرات تو سری نمازوں میں بھی قرآت خلف الامام کے قائل نہیں ہیں، اور جو یہ پڑھتے ہیں وہ احتیاطاً پڑھتے ہیں ۔ (غیث الغمام ، ص : ١٥٦) حالانکہ ان سری نمازوں میں امام اونچی آواز سے قرآت نہیں کر رہا ہوتا کہ جس بنیاد پر قرآت کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔ لہذا یہ منطق سمجھ سے باہر ہے۔ یادر ہے کہ سورۃ فاتحہ کو امام شافعی ، مالک ، احمد ، ابن حجر اور ابن قدامہ اور ابن حزمؒ وغیرہ نماز کا رکن قرار دیتے ہیں ۔

◈ تیسری دلیل :

❀ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی اس کا منہ آگ سے بھر دیا جائے گا۔
یہ روایت موضوع ہے۔ دیکھیں : موضوع اور منکر روایات : ۵۹ –

❀ ’’جس نے امام کے پیچھے قراءت کی اس کی نماز نہیں ہوگی ۔‘‘
یہ روایت باطل ہے۔ دیکھیں : موضوع اور منکر روایات : ۶۰ ۔

◈ جواب:

مولانا عبد الحئی لکھنوی حنفی رقم طراز ہیں:

﴿إنه لم يرو فى حديث مرفوع صحيح النهي عن قراءة الفاتحة خلف الإمام وكل ما ذكروه مرفوعا فيه إما لا أصل له وإما لا يصح .﴾

﴿التعلیق الممجد، ص: ۱۰۱﴾

’’کسی بھی مرفوع حدیث میں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی ممانعت وارد نہیں ہوئی ، اس بارے میں حنفی علماء نے جو بھی مرفوع روایت ذکر کی ہے وہ یا تو بے اصل ہے یا صحیح نہیں ہے۔‘‘

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء