نماز میں جوتا آگے رکھنے کا حکم
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 02

سوال

نماز پڑھتے وقت جوتا آگے رکھنے کا کیا حکم ہے؟ کیا جوتا آگے ہو تو نماز نہیں ہوتی؟ میں نے حدیث میں پڑھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں جوتی اتاری اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اپنے جوتے اتار دیے۔ اس کے بارے میں وضاحت کریں۔

جواب

نماز میں جوتا اتارنے اور اس کو رکھنے کے حوالے سے صحیح احادیث موجود ہیں۔ ابو داؤد کی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے جوتے دائیں یا بائیں طرف نہ رکھے، تاکہ یہ کسی دوسرے کے دائیں طرف نہ ہو جائیں، سوائے اس صورت میں کہ بائیں طرف کوئی نہ ہو۔ بہتر یہ ہے کہ اپنے جوتے اپنے پیروں کے درمیان رکھے۔”
(ابوداؤد، کتاب الصلاة، باب المصلى إذا خلع نعليه أين يضعهما)

یہ حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ نماز پڑھتے وقت جوتے کہاں رکھے جائیں۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر حکم دیا ہے کہ جوتے کو دائیں یا بائیں طرف نہ رکھا جائے، بلکہ انہیں اپنے پیروں کے درمیان رکھا جائے، تاکہ دوسرے نمازیوں کو پریشانی نہ ہو۔

جہاں تک یہ بات ہے کہ "جوتا آگے ہو تو نماز نہیں ہوتی”، اس کے بارے میں کوئی صریح آیت یا حدیث موجود نہیں ہے۔ نماز کی صحت کے لیے اہم شرائط وضو، قبلہ رخ ہونا، ستر ڈھانپنا اور خشوع و خضوع ہیں، نہ کہ جوتے کا مخصوص مقام۔ البتہ، بہتر یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے جوتے کو پیروں کے درمیان رکھا جائے، جیسا کہ حدیث میں ہدایت دی گئی ہے۔

خلاصہ

نماز کے دوران جوتے کو پیروں کے درمیان رکھنا سنت ہے اور دائیں یا بائیں جانب رکھنے سے بچنا چاہیے تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔ تاہم، جوتا آگے رکھنے سے نماز باطل نہیں ہوتی، اس کے بارے میں کوئی خاص حکم نہیں آیا۔

واللہ اعلم۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے