وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ لَم أَنَّهُ نَهَى أَن يُصَلِّيَ الرَّجُلُ مُخْتَصِرًا – لَفْظُ الْبُخَارِيِّ وَهُوَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ –
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: ”کوئی شخص نماز پڑھے اپنے پہلو پر ہاتھ رکھ کر ۔“ متفق علیہ ۔ لفظ بخاری کے ہیں ۔
تحقیق و تخریج:
بخاری: 1220، مسلم: 545
فوائد:
➊ نماز میں آداب بجالانا بہت ضروری ہے صحیح صحیح کھڑا ہونا چاہیے ۔ نماز کواللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے ایسی حرکات سے بچنا چاہیے جو کہ نماز کے خشوع کے منافی ہوں جیسا کہ پہلو پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو جانا یہ متکبرانہ انداز ہے ۔ یہ انداز یہودیوں کا ہے اس سے بچنا چاہیے ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب کسی کا کھانا دستر خوان پر رکھ دیا جائے اور نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو پہلے کھانا کھاؤ وہ شخص قطعا جلدی نہ کرے یہاں تک کہ کھانے سے فارغ ہو جائے ۔“
تحقیق و تخریج:
بخاری: 673 مسلم: 559
فوائد:
➊ ایک طرف کھانا حاضر خدمت ہو تو دوسری طرف جماعت کھڑی ہو جائے یا نماز کا وقت ہو جائے تو پہلے کھانا کھایا جائے اور آرام سے کھایا جائے جلدی سے کھانا نہیں کھانا چاہیے ۔
➋ جلد بازی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہر کام میں اعتدال کو پسند کیا گیا ہے ۔ جماعت کھڑی ہو تو اس کے ساتھ ملنے کے لالچ میں کھانا کھانے والا جلدی کرے گا تو معدہ خراب ہو گاکیونکہ چبا کر کھانا پیٹ کے لیے ہاضم دار ہوتا ہے بصورت دیگر نقصان دہ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ نماز تسلی سے نہیں پڑھ سکے گاکیونکہ تیزی سے فارغ ہوا تیزی سے وضو کیا اور تیزی سے جماعت سے ملا اور ابھی باقی کھانے کے خیالات بھی ساتھ رہ سکتے ہیں اس لیے ضروری ہے جب کھانے سے فراغت ملے تو پھر اطمینان سے نماز پڑھنی چاہیے ۔
➌ اسلام نے پیٹ کا بھی حق بندہ پر رکھا ہے کہ پہلے اس کو تسلی دینی ہے بعد میں اللہ کی عبادت کرنی ہے ۔
➍ رات کے کھانے کو عربی میں ”عشاء“ کہتے ہیں ۔
➎ یہ کبھی کبھار ایسے ہو سکتا ہے یہ نہیں کہ معمول اس طرح کا ہو کہ جب بھی نماز باجماعت کا وقت ہو کھانا آگے رکھ لیا جائے اور یہ بات عام نمازی کے لیے زیادہ زیب دیتی ہے یہ نہیں کہ امام صاحب کھانا رکھوا کر بیٹھ جائیں اور سو آدمی کی جماعت مسجد میں اس کا انتظار کرتے کرتے تھک جائیں ہاں اگر امام کو کبھی اس طرح کا واقعہ پیش آبھی جائے تو اپنے نائب یا پھر نمازیوں کو اطلاع دے کہ کوئی ایک امام بن جائے اور نماز پڑھ لیں ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: ”کوئی شخص نماز پڑھے اپنے پہلو پر ہاتھ رکھ کر ۔“ متفق علیہ ۔ لفظ بخاری کے ہیں ۔
تحقیق و تخریج:
بخاری: 1220، مسلم: 545
فوائد:
➊ نماز میں آداب بجالانا بہت ضروری ہے صحیح صحیح کھڑا ہونا چاہیے ۔ نماز کواللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے ایسی حرکات سے بچنا چاہیے جو کہ نماز کے خشوع کے منافی ہوں جیسا کہ پہلو پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو جانا یہ متکبرانہ انداز ہے ۔ یہ انداز یہودیوں کا ہے اس سے بچنا چاہیے ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب کسی کا کھانا دستر خوان پر رکھ دیا جائے اور نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو پہلے کھانا کھاؤ وہ شخص قطعا جلدی نہ کرے یہاں تک کہ کھانے سے فارغ ہو جائے ۔“
تحقیق و تخریج:
بخاری: 673 مسلم: 559
فوائد:
➊ ایک طرف کھانا حاضر خدمت ہو تو دوسری طرف جماعت کھڑی ہو جائے یا نماز کا وقت ہو جائے تو پہلے کھانا کھایا جائے اور آرام سے کھایا جائے جلدی سے کھانا نہیں کھانا چاہیے ۔
➋ جلد بازی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہر کام میں اعتدال کو پسند کیا گیا ہے ۔ جماعت کھڑی ہو تو اس کے ساتھ ملنے کے لالچ میں کھانا کھانے والا جلدی کرے گا تو معدہ خراب ہو گاکیونکہ چبا کر کھانا پیٹ کے لیے ہاضم دار ہوتا ہے بصورت دیگر نقصان دہ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ نماز تسلی سے نہیں پڑھ سکے گاکیونکہ تیزی سے فارغ ہوا تیزی سے وضو کیا اور تیزی سے جماعت سے ملا اور ابھی باقی کھانے کے خیالات بھی ساتھ رہ سکتے ہیں اس لیے ضروری ہے جب کھانے سے فراغت ملے تو پھر اطمینان سے نماز پڑھنی چاہیے ۔
➌ اسلام نے پیٹ کا بھی حق بندہ پر رکھا ہے کہ پہلے اس کو تسلی دینی ہے بعد میں اللہ کی عبادت کرنی ہے ۔
➍ رات کے کھانے کو عربی میں ”عشاء“ کہتے ہیں ۔
➎ یہ کبھی کبھار ایسے ہو سکتا ہے یہ نہیں کہ معمول اس طرح کا ہو کہ جب بھی نماز باجماعت کا وقت ہو کھانا آگے رکھ لیا جائے اور یہ بات عام نمازی کے لیے زیادہ زیب دیتی ہے یہ نہیں کہ امام صاحب کھانا رکھوا کر بیٹھ جائیں اور سو آدمی کی جماعت مسجد میں اس کا انتظار کرتے کرتے تھک جائیں ہاں اگر امام کو کبھی اس طرح کا واقعہ پیش آبھی جائے تو اپنے نائب یا پھر نمازیوں کو اطلاع دے کہ کوئی ایک امام بن جائے اور نماز پڑھ لیں ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]