وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: مِنَ السُّنَّةِ إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ قَالَ: الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ- أَخْرَجَهُ الدَّارُ قُطَنِيُّ، وَرَوَاهُ ابْنُ خَزَيْمَةَ فِي صَحِيحِهِ مُخْتَصَرًا لَمْ يَذْكُرُ فِيهِ تثنية التثويب
حضرت انس بن مالک یہ سے روایت ہے فرمایا : ”یہ سنت ہے کہ جب مؤذن فجر کی نماز میں حي على الفلاح کہتا ہے اور پھر وہ کہتا ہے الصلوة خيرمن النوم، الصلوة خير من النوم، الله اكبر، الله اكبر، لا اله الا الله اس حدیث کو دارقطنی نے راویت کیا ہے، ابن خزیمہ نے اسے اپنی صحیح میں مختصر بیان کیا ، لیکن ان جملوں کو دہرانے کا تذکرہ نہیں ۔
تحقیق و تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے ۔ ابن خزیمه : 387 دار قطنی : 1/ 243
فوائد :
➊ نماز فجر کی اذان میں الصلوة خير من النوم دو مرتبہ کہنا سنت ہے اور یہ حي على الفلاح ، حي على الفلاح کے بعد کہنا چاہیے کبھی صبح کی اذان میں الصلوة خير من النوم کہتا یا د نہ رہے تو اذان ہو جاتی ہے کوئی حرج نہیں ہے ۔
➋ ضرورت جسمانی سے بڑھ کر سونے سے بہتر ہے نماز میں مشغول ہونا ۔ نیند جسم انسانی کا حق ہے ۔ تھکا وٹ دور کرتی ہے تازگی اور قوت مدافعت کو نئے سرے سے بدن میں بھرتی ہے ۔ لیکن ضرورت سے زیادہ نیند ستی کند دینی اور مہلک امراض کا باعث ہوتی ہے کثرت سے بغیر ضرورت کے نیند کرنے سے چہرے کی رونق کم ہو جاتی ہے اور روزی میں کمی واقع ہوتی ہے اس کے برعکس نماز پڑھنا ہر لحاظ سے فائدہ مند ہے اس میں کثرت کی ممانعت نہیں ہے بلکہ کثرت صلوٰۃ سے قرب الہی جلد نصیب ہوتا ہے لیکن اس میں بھی تکلف سے بالا تر ہو کر مشغول ہونا چاہیے حوائج و ضروریات کو ادا کرنا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے ۔
وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِي أَمَرَ بِلَالًا أَنْ يَشْفَعَ الْآذَانَ، وَيُؤْتِرَ الأقامة
أَخْرَجَهُ النِّسَائِيُّ، وَهُوَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ؛ لَكِن بِلَفْظ: أَمِرَ بِلَالٌ
حضرت انس اسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو حکم دیا : ”وہ اذان دہری کہے اور اقامت اکبری کہے۔ “
نسائی، متفق علیہ، لیکن بخاری ، مسلم میں الفاظ یہ ہیں ”حضرت بلال کو حکم دیا گیا “ ۔
تحقيق و تخريج :
بخاری : 3457،607،603 ، مسلم : 378 ۔
وَفِي لَفُظٍ عِنْدَ الْبُخَارِيِّ مِنْ جِهَةِ سُلَيْمَانَ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادٍ: إِلَّا الْإِقَامَةَ قِيلَ: إِنَّهُ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حَمَّادٍ فَلَمْ يَذْكُرُوا هذه اللفظة .
امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک سلیمان بن حرب کے حوالے سے حماد سے روایت منقول ہے جس میں الا الاقامة کے الفاظ منقول ہیں ۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ حماد کے علاوہ بھی کئی ایک نے یہ روایت بیان کی ہے لیکن انہوں نے اس لفظ کا تذکر ہ نہیں کیا ۔
تحقیق و تخریج :
بخاری : 205، 207، الا الاقامة کے الفاظ مسلم میں ہیں ۔ حدیث نمبر 378 ملاحظہ کریں ۔
فوائد :
➊ اذان کو دہرا کہنا اور تکبیر اکہری کہنا درست ہے ۔ یعنی اذان میں کلمات ڈبل اور تکبیر میں کلمات سنگل جیسے اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمد رسول الله حى الصلوة حى على الفلاح وغیرہ ۔ اس میں صرف دو مرتبہ قد قامت الصلوة ، قد قامت الصلواة کہنا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تکبیر د ہری نہ کہنا زیادہ مناسب ہے ۔
حضرت انس بن مالک یہ سے روایت ہے فرمایا : ”یہ سنت ہے کہ جب مؤذن فجر کی نماز میں حي على الفلاح کہتا ہے اور پھر وہ کہتا ہے الصلوة خيرمن النوم، الصلوة خير من النوم، الله اكبر، الله اكبر، لا اله الا الله اس حدیث کو دارقطنی نے راویت کیا ہے، ابن خزیمہ نے اسے اپنی صحیح میں مختصر بیان کیا ، لیکن ان جملوں کو دہرانے کا تذکرہ نہیں ۔
تحقیق و تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے ۔ ابن خزیمه : 387 دار قطنی : 1/ 243
فوائد :
➊ نماز فجر کی اذان میں الصلوة خير من النوم دو مرتبہ کہنا سنت ہے اور یہ حي على الفلاح ، حي على الفلاح کے بعد کہنا چاہیے کبھی صبح کی اذان میں الصلوة خير من النوم کہتا یا د نہ رہے تو اذان ہو جاتی ہے کوئی حرج نہیں ہے ۔
➋ ضرورت جسمانی سے بڑھ کر سونے سے بہتر ہے نماز میں مشغول ہونا ۔ نیند جسم انسانی کا حق ہے ۔ تھکا وٹ دور کرتی ہے تازگی اور قوت مدافعت کو نئے سرے سے بدن میں بھرتی ہے ۔ لیکن ضرورت سے زیادہ نیند ستی کند دینی اور مہلک امراض کا باعث ہوتی ہے کثرت سے بغیر ضرورت کے نیند کرنے سے چہرے کی رونق کم ہو جاتی ہے اور روزی میں کمی واقع ہوتی ہے اس کے برعکس نماز پڑھنا ہر لحاظ سے فائدہ مند ہے اس میں کثرت کی ممانعت نہیں ہے بلکہ کثرت صلوٰۃ سے قرب الہی جلد نصیب ہوتا ہے لیکن اس میں بھی تکلف سے بالا تر ہو کر مشغول ہونا چاہیے حوائج و ضروریات کو ادا کرنا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے ۔
وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِي أَمَرَ بِلَالًا أَنْ يَشْفَعَ الْآذَانَ، وَيُؤْتِرَ الأقامة
أَخْرَجَهُ النِّسَائِيُّ، وَهُوَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ؛ لَكِن بِلَفْظ: أَمِرَ بِلَالٌ
حضرت انس اسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو حکم دیا : ”وہ اذان دہری کہے اور اقامت اکبری کہے۔ “
نسائی، متفق علیہ، لیکن بخاری ، مسلم میں الفاظ یہ ہیں ”حضرت بلال کو حکم دیا گیا “ ۔
تحقيق و تخريج :
بخاری : 3457،607،603 ، مسلم : 378 ۔
وَفِي لَفُظٍ عِنْدَ الْبُخَارِيِّ مِنْ جِهَةِ سُلَيْمَانَ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادٍ: إِلَّا الْإِقَامَةَ قِيلَ: إِنَّهُ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حَمَّادٍ فَلَمْ يَذْكُرُوا هذه اللفظة .
امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک سلیمان بن حرب کے حوالے سے حماد سے روایت منقول ہے جس میں الا الاقامة کے الفاظ منقول ہیں ۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ حماد کے علاوہ بھی کئی ایک نے یہ روایت بیان کی ہے لیکن انہوں نے اس لفظ کا تذکر ہ نہیں کیا ۔
تحقیق و تخریج :
بخاری : 205، 207، الا الاقامة کے الفاظ مسلم میں ہیں ۔ حدیث نمبر 378 ملاحظہ کریں ۔
فوائد :
➊ اذان کو دہرا کہنا اور تکبیر اکہری کہنا درست ہے ۔ یعنی اذان میں کلمات ڈبل اور تکبیر میں کلمات سنگل جیسے اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمد رسول الله حى الصلوة حى على الفلاح وغیرہ ۔ اس میں صرف دو مرتبہ قد قامت الصلوة ، قد قامت الصلواة کہنا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تکبیر د ہری نہ کہنا زیادہ مناسب ہے ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]