نماز عید الفطر کے مسائل صحیح احادیث کی روشنی میں
مرتب کردہ تحریر قاری اسامہ بن عبد السلام حفظہ اللہ

عیدالفطر کے دن غسل کرنا ضروری ھے

(١)سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ ۔(آنَّہُ کَانَ یَغْتَسِلُ یَوْمَ الْعِیْدُ یَوْمَ الَعِیدُ) کہ وہ عیدالفطر کے دن غسل کرتے تھے۔ مسند الشافعی حدیث (٤٧٢)

(٢)عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ عیدالفطر کے دن عیدگاہ جانے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے مؤطا حدیث

(٣)حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیا ن کر تے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید ین کے روزغسل کر تے تھے ۔(مسند البزار:حدیث نمبر 64)

(٤)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرو ی ہے کہ جو شخص رمضا ن کے رو زے رکھے غسل کر کے عید گا ہ جا ئے اور صد قہ فطر ادا کر ے تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت لے کر گھرواپس آتا ۔(مجمع الزوائد :2198)

(٥) فا کہ بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید اور عرفہ کے دن غسل کر تے اور حضرت فا کہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان ایا م میں اپنے اہل خا نہ کو غسل کر نے کا حکم دیتے ۔(مسند امام احمد :78/4)

(٦)حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرو ی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید ین کے رو ز غسل کر تے تھے ۔(ابن ما جہ :حدیث نمبر 1315)

(٧)حضرت سا ئب بن یز ید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مر وی ہے کہ وہ عید گا ہ جا نے سے پہلے غسل کر تے تھے ۔(احکا م العید ین اللفطریا بی :80)

(٨)حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی عید ین کے دن غسل کا استحبا ب مر وی ہے (بیہقی : 3/278)

خلاصہ
ان احادیث و آثا ر کے پیش نظر عید ین میں عید گا ہ جا نے سے پہلے غسل کر نے میں شر عاً کو ئی قبا حت نہیں ہے بلکہ ایسا کر نا مستحب ہے ۔(واللہ اعلم )

عمدہ لباس پہنیں۔

حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدین کے موقع پر ہمیں حکم دیا تھا کہ ہم عمدہ لباس پہنیں
(مستدرک الحاکم نیشاپوری) سندہ جید

عمدہ خوشبو لگائیں۔

حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ عیدین کے موقع پر عمدہ خوشبو لگائیں.
(مستدرک الحاکم)

مسواک کرنا بھی جائز ھے.

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس دن غسل کیا کرو اورجس کے پاس خوشبو ہو وہ خوشبو استعمال کرے اور مسواک کا استعمال کرنا تم پر لازم ہے اے مسلمانو ۔
مؤطا لابن وھب حدیث (٢١٧) معجم الاؤ سط للطبرانی حدیث (٧٣٥٥) حسن

گھر سے عیدگاہ تک جاتے ھوۓ بلند آواز میں تکبیرات کہنی چاہیے ۔

(١).عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ گھر سے عیدگاہ تک جاتے ھوۓ بلند آواز میں تکبیرات کہتے تھے وہ الفاظ یہ ھیں

اللَّـهُ اَکْبَرْ ۔۔ آللَّـهُ اَکْبَرْ ۔
لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللَّـهُ۔وَآللَّـهُ اَکْبَرْ ۔وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔
ترجمہ
[اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اور تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں۔ ]
مصنف ابن أبی شیبۃ حدیث (٥٦١٨) حسن

(٢).عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کے دنوں میں باھر نکلتے تو بلند آواز سے تکبیر وتہلیل پڑھتےھوئے نکلتے
صحیح ابن خزیمہ حدیث (١٤٣١) حسن

(٣).عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا مسجد سے سویرے سویرے ہی عیدگاہ کی طرف نکل جاتے تھے اور عیدگاہ میں پہنچنے تک بلند آواز میں تکبیرات کہتے رہتے اور وہاں امام کے آنے تک بھی تکبیرات کہتے رہتے
سنن دارقطنی حدیث (١٦٩٨) حسن

تنبیہ:

’’اللہُ أَکْبَرُ اللہُ أَکْبَرُ اللہُ أَکْبَرُ، لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ، اللہُ أَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘

(سنن الدارقطنی ج 2 ص 49، 50 ح 1721)

اس روایت کی سند موضوع ہے۔ عمرو بن شمر کذاب راوی ہے۔ جابر الجعفی سخت ضعیف رافضی ہے۔ نائل بن نجیح ضعیف ہے۔ دیکھئے کتب اسماء الرجال وغیرہ

ایک روایت میں آیا ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تکبیرات عیدین میں درج ذیل الفاظ پڑھتے تھے:

’’اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا، اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا، اللَّہُ أَکْبَرُ، وَأَجَلُّ اللَّہُ أَکْبَرُ، وَلِلَّہِ الْحَمْدُ‘‘

(مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 167 ح 5650)

اس کی سند صحیح ہے۔

سیدنا سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ یہ الفاظ پڑھتے تھے:

’’اللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ‘‘

(مصنف عبدالرزاق 11/ 294، 295 ح 20581، والبیہقی 3/ 316، وسندہ حسن)

ابراہیم النخعی کہتے ہیں:

’’کَانُوا یُکَبِّرُونَ یَوْمَ عَرَفَۃَ، وَأَحَدُہُمْ مُسْتَقْبِلٌ الْقِبْلَۃَ فِی دُبُرِ الصَّلَاۃِ: اللہُ أَکْبَرُ، اللہُ أَکْبَرُ، لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ، واللہُ أَکْبَرُ، اللہُ أَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 167 ح 5649 وسندہ صحیح)

درج بالا تکبیرات صحابہ و تابعین سے ثابت ہیں لہٰذا ایام عیدین میں انھیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اقتداء بالسلف کی رو سے ثواب کی امید ہے۔

مختصر یہ کہ آپ کی ذکر کردہ دعا پڑھنی تابعین سے ثابت ہے اور اس پر عمل صحیح ہے۔ والحمدللہ

عید کی نماز کھلے میدان میں پڑھنی چاہیئے

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدَأُ بِهِ الصَّلَاةُ

ترجمہ
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن عیدگاہ تشریف لے جاتے تو پہلے جو کام کرتے وہ نماز ہوتی. صحیح البخاری حدیث (٩٥٦) حسن

مجبور ی کی صورت میں مسجد یا کسی اور جگہ نماز عید پڑھی جاسکتی ھے

(١).حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ. ح حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ مِنْ الْفَرَوِيِّينَ، وَسَمَّاهُ الرَّبِيعُ فِي حَدِيثِهِ عِيسَى بْنَ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ أَبِي فَرْوَةَ، سَمِعَ أَبَا يَحْيَى عُبَيْدَ اللَّهِ التَّيْمِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ أَصَابَهُمْ مَطَرٌ فِي يَوْمِ عِيدٍ” فَصَلَّى بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعِيدِ فِي الْمَسْجِدِ

ترجمہ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ایک موقع پر عید کے دن مسلمانوں کو بارش نے آ لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عید کی نماز مسجد میں پڑھائی۔
اسے ابوداؤد نے کمزور سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
سنن أبی داود حديث:(1160)، وابن ماجه، حدیث ( ١٣١٣) سنن الکبری للبیہقی حدیث (٦١١٨)اس کی سند جید ھے

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مسجد سے تکبیر کہتے ہوئے عید گاہ کی طرف جاتے اور تکبیر کہتے رہتے حتٰی کہ امام آجاتا۔ (سنن الدارقطنی2/ 43 ح 1696، وسندہ حسن، محمد بن عجلان صرح بالسماع عند البیہقی فی السنن الکبریٰ3/ 279 و صححہ الالبانی فی ارواء الغلیل3/ 122)

خلاصہ یہ ہے کہ عیدکی نماز مسجد سے باہر عید گاہ یا کھلے میدان میں پڑھنا سنت ہے۔ یاد رہے کہ شرعی عذر کے بغیر مسجد میں عید کی نماز پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن اگر بارش ہوتو پھر مسجد میں عید کی نماز پڑھنا جائز ہے جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد سے ثابت ہے۔
دیکھئے

السنن الکبریٰ للبیہقی (3/ 130، وسندہ قوی،

ہمارا مؤقف یہ ھے کہ کسی عذر کی وجہ سے مسجدِ میں نماز عید ادا کرنا بالکل جائز ھے.

عورتوں کا عید گاہ جانا.

سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عیدالفطر اور عیدالاضحی میں عورتوں کو (عیدگاہ) لے کر جائیں۔ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم نے کہا: اگر ہم میں سے کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو (تو وہ کیا کرے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اس کی بہن اپنی چادر اوڑھا دے۔ (صحیح مسلم: حدیث ۔(٨٩٠)دارالسلام:(٢٠٥٦)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گھر (بیوی وغیرھا) میں سے جو طاقت رکھتے انھیں (عید گاہ) لے جاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ2/ 182 ح (٥٧٨٦) -(٤٣) و سندہ صحیح)

یاد رہے کہ عیدگاہ میں منبر لے کر نہیں جانا چاہئے۔ دیکھئے صحیح بخاری (٩٤٦)

آج کے زمانے میں بعض لوگ حالات کی وجہ سے عورتوں کو مساجد اور عیدگاہ جانے سے روکتے ہیں، اور اپنی دلیل ’’ناسازگار‘‘ حالات کو بناتے ہیں۔ حالانکہ صحیح حدیث کے بعد اس عذر کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی۔

نماز عید کے لئے پیدل چل کے جانا

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعُمَرِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” يَخْرُجُ إِلَى الْعِيدِ مَاشِيًا، وَيَرْجِعُ مَاشِيًا”.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے لیے پیدل جاتے، اور پیدل ہی واپس آتے۔ [سنن ابن ماجه حدیث: (١٢٩٥] (تحفة الأشراف(٧٧٤٠) (٨٠٢٠)، ومصباح الزجاجة: (٤٥٣)
شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے،

وضاحت
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ سنت یہی ہے کہ عیدگاہ کو پیدل جائے، اگر عید گاہ دور ہو یا کوئی پیدل نہ چل سکے تو سواری پر جائے۔

عید کے دن راستہ بدلنا چاہیے

(١)عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعمل یہی ہے کہ جب عیدکادن ہوتا توعید گاہ جانے اورواپس آنے کے لئے راستہ تبدیل کرلیتے تھے۔ مستدرک الحاکم حدیث (١٠٩٨)

(١١)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے لئے کسی راستہ سے نکلتے توواپسی پرکسی دوسرے راستہ سے لوٹتے تھے۔

صحیح ابن خزیمہ حدیث(١٤٦٨)

اس لئے راستہ تبدیل کرنا مسنون عمل ہے۔ راستہ تبدیل کرنے کی حکمت کے متعلق علما نے لکھا ہے تاکہ قیامت کے دن زیادہ چیزیں اس کارخیر کے لئے گواہی دیں، نیز فقرا و مساکین کی خبرگیری کرنے کے لئے ایسا عمل کیاجاتا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی احوال پرسی ہوسکے ۔تفصیل کے لئے دیکھئے۔ [مغنی ابن قدامہ، ص: ۲۸۳، ج ۳]
نوٹ
بہرحال اس عمل کوسنت سمجھ کر بجالانا چاہیے اگرچہ اس کی حکمت کے متعلق ہم کچھ بھی نہ جان سکیں، اس سنت پرعمل کرنے سے ہمیں اللہ تعالیٰ کے ہاں اجروثواب ضرور ملے گا

عیدالفطر کے دن عیدگاہ کی طرف جانے سے پہلے کچھ کھا لینا چاہیے

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، عَنْ ثَوَابِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: ” كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَطْعَمَ وَلَا يَطْعَمُ يَوْمَ الْأَضْحَى حَتَّى يُصَلِّيَ ".
ترجمہ
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن جب تک کھا نہ لیتے نکلتے نہیں تھے اور عید الاضحی کے دن جب تک نماز نہ پڑھ لیتے کھاتے نہ تھے۔ سنن ترمذی حدیث (٥٤٢) حسن

بر صغیر ہند و پاک کے مسلمانوں نے پتہ نہیں کہاں سے یہ حتمی رواج بنا ڈالا ہے کہ سوئیاں کھا کرعید گاہ جاتے ہیں، اور آ کر بھی کھاتے کھلاتے ہیں، اس رواج کی اس حد تک پابندی کی جاتی ہے کہ ”عیدالفطر“ اور سوئیاں لازم ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں، جیسے عیدالاضحی میں ”گوشت“، اس حد تک پابندی بدعت کے زمرے میں داخل ہے۔

تنبیہ
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ حَفْصِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ ” يُفْطِرُ عَلَى تَمَرَاتٍ يَوْمَ الْفِطْرِ قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ إِلَى الْمُصَلَّى ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
ترجمہ
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں کھا لیتے تھے۔ سنن ترمذی حدیث : (543)-(٩٥٣)، سنن ابن ماجہ حدیث (٤٩) (١٧٥٣)،

اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں:

1. نماز عید کے لیے باہر جانا مسنون ہے۔
2.نماز عیدالفطر کے لیے جانے سے پہلے طاق عدد میں کھجوریں کھانی مسنون ہیں۔
3. کھجوروں کو ایک ایک کر کے کھانا چاہیے۔
ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ زیادہ کھجوریں منہ میں ٹھونس لی جائیں۔ یہ تہذیب و اخلاق کے منافی ہے۔ اگر کسی کو کھجوریں دستیاب نہ ہو سکیں تو پھر کوئی بھی چیز کھائی جا سکتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
4.کھجوروں کو ایک ایک کر کے کھانے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ آدمی حریص و لالچی نہ بنے‘ نیز اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وتر ہے اور وتر ہی کو پسند کرتا ہے۔ طبی اعتبار سے بھی ایک ایک کو خوب اچھی طرح چبا چبا کر لعاب دہن شامل کر کے نگلنا چاہیے تاکہ نظام انہضام میں معاون و مددگار ثابت ہو۔

عیدین کی نماز کے لئے اذان واقامت نہیں ہوتی تھی

وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِيدَيْنِ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَة. رَوَاهُ مُسلم
ترجمہ
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ عیدین کی نماز کئی مرتبہ پڑھی جن میں اذان اور اقامت نہیں تھی۔ رواہ مسلم۔

عیدگاہ میں نماز عید سے پہلے یا بعد میں کوئی سنت یا نفل نماز نہیں ھے

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کے دن عیدگاہ میں نفل نماز نہ پہلے پڑھی نہ بعد میں. مسند الشافعی حدیث (٤٨٠) حسن

نوٹ نماز عید سے پہلے اور بعد میں نفل نماز پڑھنا درست نہیں ھے جیسا کہ (١) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ۔(٢) حضرت علی رضی اللہ عنہ(٣) حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ( ٤) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ(٥) حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ( ٦) حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ (٧) حضرت جابر رضی اللہ عنہ وغیرہ کا یہی مؤ قف ھے
مسند الشافعی حدیث (٤٨٤)معرفۃ السنن والآثار للبیہقی حدیث ( ١٩٢٨) سارے آثار الصحابہ سند کے اعتبار سے حسن ھیں

نماز عید الفطر کی دورکعت ھیں

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نکلے تو آپ نے دو رکعت پڑھی، نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد، صحیح البخاری حدیث (٩٦٤)

نماز عید کی پہلی رکعت میں قرات سے قبل سات تکبیر یں کہنا اور دوسری میں قرات سے قبل پانچ تکبیر یں کہنا مسنون ھے

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْلَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” كَبَّرَ فِي صَلَاةِ الْعِيدِ سَبْعًا، وَخَمْسًا

ترجمہ
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید میں سات اور پانچ تکبیریں کہیں۔ [سنن ابن ماجه حدیث: (١٢٧٨]

تنبیہ
یہی طریقہ( ١)حضرت عمررضی اللہ عنہ(٢) حضرت علی رضی اللہ عنہ ( ٣) ابوھریرہ رضی اللہ عنہ ( ٤)ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ( ٥)
جابر رضی اللہ عنہ ( ٦) عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ (٧) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ( ٨) ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ (٩)زید بن ثابت رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ وغیرہم کا تھا (نیل الاوطار)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) نافع (رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ میں نے عید الاضحی اور عیدالفطر (کی نماز) ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ (یعنی آپ کے پیچھے) پڑھی تو آپ نے پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیریں کہیں اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔

امام مالک نے فرمایا: ہمارے ہاں (مدینہ میں) اسی پر عمل ہے۔

(موطأ امام مالک، روایۃ یحییٰ بن یحییٰ 1/ 180ح 435 وسندہ صحیح، روایۃ ابی مصعب الزہری 1/ 230 ح 590)

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔

امام بیہقی نے فرمایا: اور ابو ہریرہ کی موقوف روایت صحیح ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ (الخلافیات قلمی ص 53 ب، مختصر الخلافیات لابن فرح ج 2 ص 220)

ایک روایت میں ہے کہ نافع نے کہا: میں نے لوگوں کو اسی پر پایا ہے۔ (الخلافیات قلمی، ص 55 ا وسندہ حسن، عبداللہ العمری عن نافع: حسن الحدیث و ضعیف عن غیرہ)

ایک روایت میں ہے کہ اور یہ سنت ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی 3/ 288 وسندہ صحیح)

فائدہ:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی نماز (مطلقاً) پڑھ کر فرماتے تھے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کے مشابہ ہوں، یہی آپ کی نماز تھی حتیٰ کہ آپ دنیا سے چلے گئے۔ (صحیح بخاری: 803)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی نماز کا ہر مسئلہ مرفوع حکماً ہے اور یہی نماز نبی کریم ﷺ کی آخری نماز تھی لہٰذا اس کے مقابلے میں ہر روایت منسوخ ہے۔

امام محمد بن سیرین (مشہور ثقہ تابعی) نے فرمایا:

’’کل حدیث أبي ھریرۃ عن النبي ﷺ‘‘ إلخ

ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کی ہر حدیث نبی ﷺ سے ہے۔

(شرح معانی الآثار 1/ 20 وسندہ حسن)

اس قول کا تعلق سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی نماز والی تمام روایات سے ہے جیسا کہ صحیح بخاری (803) کی مذکورہ حدیث سے ظاہر ہے۔

خلاصۃ التحقیق: بارہ تکبیروں والی حدیث بالکل صحیح ہے اور مرفوع حکماً ہے اور اس کے مقابلے میں ہر روایت (چاہے طحاوی کی معانی الآثار کی چھ تکبیروں والی روایت ہو) منسوخ ہے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تائید میں مرفوع روایات بھی ہیں۔ (مثلاً دیکھئے حدیث ابی داود: 1151، وسندہ حسن)

ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ ہر رکعت میں رکوع سے پہلے ہر تکبیر پر رفع یدین کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ کی نماز پوری ہو جاتی۔ (مسند احمد 2/ 134، وسندہ حسن، ماہنامہ الحدیث حضرو: 17 ص 6)

اس حدیث سے سلف صالحین (امام بیہقی فی السنن الکبریٰ 3/ 292، 293، اور ابن المنذر کما فی التلخیص الحبیر 2/ 86 ح 692) نے (متفقہ یعنی بغیر کسی اختلاف کے) استدلال کیا ہے کہ تکبیراتِ عیدین میں رفع یدین کرنا چاہئے۔

امام اوزاعی رحمہ اللہ (متوفی 157ھ) نے فرمایا: تمام تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کرو۔ (احکام العیدین للفریابی: 136، وسندہ صحیح)

نیز دیکھئے کتاب الام للشافعی (1/ 237) مسائل احمد (روایۃ ابی داود ص 60) اور تاریخ یحییٰ بن معین (روایۃ عباس الدوری: 2284)

سلف صالحین کے اس متفقہ فہم کے خلاف بعض جدید محققین اور متحققین کا یہ دعویٰ کہ ’’تکبیراتِ عیدین میں رفع یدین نہیں کرنا چاہئے‘‘ بلا دلیل اور مردود ہے
تنبیہ: کسی ایک صحیح حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نبی ﷺ نے عید کی نماز بغیر تکبیروں کے پڑھی ہو اور یہ بھی ثابت نہیں ہے کہ ان تکبیرات میں آپ ﷺ نے رفع یدین نہ کیا ہو۔

نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے (سیدنا) ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کے پیچھے عید الاضحی اور عید الفطر کی نماز پڑھی، آپ نے پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہیں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہیں۔ (موطأ امام مالک 1/ 180 ح 435 وسندہ صحیح)

آپ یہ ساری تکبیریں قراءت سے پہلے کہا کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 173 ح 5702 وسندہ صحیح)

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی بارہ تکبیریں ثابت ہیں۔ (احکام العیدین للفریابی: 128، وسندہ صحیح)

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عیدین میں تکبیر سات اور پانچ ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 175 ح 5720 وسندہ حسن)

امام مکحول رحمہ اللہ (تابعی) نے فرمایا: عید الاضحی اور عبد الفطر میں تکبیر قراءت سے پہلے سات اور (دوسری رکعت میں) پانچ ہے۔ (ابن ابی شیبہ 2/ 175 ح 5714 ملخصاً وسندہ صحیح)

ابو الغصن ثابت بن قیس الغفاری المکی نے فرمایا کہ میں نے عمر بن عبد العزیز (رحمہ اللہ) کے پیچھے عید الفطر کی نماز پڑھی تو انھوں نے پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں پڑھیں۔ (ابن ابی شیبہ 2/ 176 ح 5732 وسندہ حسن وھو صحیح بالشواہد)

امام ابن شہاب الزہری نے فرمایا: سنت یہ ہے کہ عید الاضحی اور عید الفطر میں پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ (احکام العیدین للفریابی: 106، وسندہ حسن لذاتہ وھو صحیح بالشواہد)

امام مالک کا بھی یہی مذہب ہے۔ (دیکھئے احکام العیدین: 131، وسندہ صحیح)

امام مالک اور امام اوزاعی دونوں نے فرمایا کہ ان تکبیروں کے ساتھ رفع یدین بھی کرنا چاہیے۔ (احکام العیدین: 136۔137، والسندان صحیحان)

ھر دو تکبیروں کا درمیانی فاصلہ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے قولا وفعلا ہر دو تکبیروں کے درمیان ایک کلمے کی مقدار کے برابر فاصلہ ھونا چاھیے
(مجمع الزوائد)

نماز عید الفطر میں سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ غاشیہ کی تلاوت کرنا بھی درست ہے

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور نماز جمعہ میں سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی تلاوت کرتے تھے صحیح مسلم حدیث (٨٧٨)

خطبہ نماز عید کے بعد دیا جائے گا

عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھتے تھے
معجم الکبیر للطبرانی حدیث (١٣٢٠٨) حسن

خطبہ عید کے لئے منبر مشروع نہیں

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ھمیشہ خطبہ عید الفطر منبر کے بغیر دیا تھا
مصنف عبدالرزاق حدیث (٥٦٤٨)

البتہ سواری پر بیٹھ کر عید الفطر کا خطبہ دیا جاسکتا ھے

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر خطبہ عید الفطر ارشاد فرمایا تھا
صحیح ابن حبان ( الاحسان) حدیث ( ٢٨٢٥)ابو یعلی الموصلی حدیث ( ١١٨٢) صحیح ابن خزیمہ حدیث ( ١٤٤٥) حسن
تنبیہ اس حدیث کو نور الدین ہیثمی نے اور ابن خزیمہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ھے

نوٹ۔
اس حدیث سے معلوم ہؤا کہ اگر کسی سواری وغیرہ پر بیٹھ کر خطبہ دینا بلکل جائز ھے۔

خطیب کا عیدالفطر کے خطبے میں لاٹھی یا کمان وغیرہ کا سہارا لینا درست ہے

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي جَنَابٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْبَرَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” نُوِّلَ يَوْمَ الْعِيدِ قَوْسًا فَخَطَبَ عَلَيْهِ".
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عید کے دن ایک کمان دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر (ٹیک لگا کر) خطبہ دیا۔ [سنن ابي داود حدیث: (١١٤٤٥]
(تحفة الأشراف:(١٩٦١) مسند احمد (4/282، 304)
قال الشيخ الألباني: حسن

نماز عید کے بعد گھر جاکر نماز ادا کرنا بھی درست ہے

عیدگاہ میں تو سوائے دورکعت کے کوئی نماز پہلے یا بعد میں پڑ ھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ھے البتہ عیدگاہ سے فارغ ہونے کے بعد گھر جاکر دو رکعتیں پڑھی جاسکتی ھیں جیسا کہ:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو الرَّقِّيِّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” لَا يُصَلِّي قَبْلَ الْعِيدِ شَيْئًا، فَإِذَا رَجَعَ إِلَى مَنْزِلِهِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید سے پہلے کچھ بھی نہیں پڑھتے تھے، جب اپنے گھر واپس لوٹتے تو دو رکعت پڑھتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه حدیث: (١٢٩٣] تحفة الأشراف: (٤١٨٧)، مصباح الزجاجة(٤٥١)، ‏‏‏‏ قال الشيخ الألباني: حسن

نماز عید کا وقت سورج کے نیزے کے برابر بلند ہونے سے ڈھلنے تک ھے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خُمَيْرٍ الرَّحَبِيُّ، قَالَ:” خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُسْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّاسِ فِي يَوْمِ عِيدِ فِطْرٍ أَوْ أَضْحَى، فَأَنْكَرَ إِبْطَاءَ الْإِمَامِ، فَقَالَ: إِنَّا كُنَّا قَدْ فَرَغْنَا سَاعَتَنَا هَذِهِ وَذَلِكَ حِينَ التَّسْبِيحِ

ترجمہ
یزید بن خمیر رحبی سے روایت ہے کہ صحابی رسول عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عید الاضحی کے دن نکلے، تو انہوں نے امام کے دیر کرنے کو ناپسند کیا اور کہا: ہم تو اس وقت عید کی نماز سے فارغ ہو جاتے تھے اور یہ اشراق پڑھنے کا وقت تھا۔ [سنن ابي داود /حدیث:(١١٣٥)
«‏‏‏‏سنن ابن ماجہ 170 (١٣١٧) (تحفة الأشراف: 5206) (صحیح)» ‏‏‏‏ قال الشيخ الألباني: صحيح

عید کی نماز کا وقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب سورج ایک نیزہ بلند ہو۔

اس سلسلہ میں محدثین نے صحابی حضرت عبداللہ بن بسرؓ کا واقعہ بھی بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ لوگوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے کیلئے نکلے۔ امام صاحب تاخیر سے آئے تو انہوں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو اس وقت فارغ ہوچکے ہوتے تھے۔ یہ وقت تو تسبیح کا ہے۔ (سنن ابی دائود: حدیث: ۱۱۳۵ سنن ابن ماجہ: حدیث: ۱۳۱۷)
اب دیکھنا یہ ہے کہ نماز عید کا آخری وقت زوال ہونا کہاں سے ثابت ہے۔ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس چند سوار آئے اور انہوں نے گواہی دی کہ انہوں نے کل چاند دیکھا ہے جس پر رسول اللہﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ روزہ کھول دیں اور جب صبح ہوجائے تو عید گاہ پہنچیں۔ (سنن ابی دائود حدیث: ۱۱۵۷، سنن ابن ماجہ حدیث: ۱۶۵۳، سنن النسائی حدیث: ۱۵۵۷)
یہ لوگ زوال کے بعد دن کے آخر میں رسول اللہﷺ کے پاس آئے تھے۔ جب انہوں نے چاند دیکھنے کی گواہی دی۔ تو آپﷺ نے صحابہ کو جو چاند دیکھنے کی بنا پر رمضان کا تیسواں روزہ پورا کررہے تھے، روزہ کھولنے کا حکم دیا اور انہیں دوسرے دن صبح عید گاہ پہنچنے کی تاکید کی جہاں وہ عید کی نماز ادا کریں۔ فقہاء نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ عید کی نماز کا آخری وقت زوال ہے۔ اگر زوال کے بعد عید کی نماز کا وقت ہوتا تو رسول اللہﷺ اسی دن نماز پڑھاتے۔ صحابہ کو دوسرے دن صبح کو عید گاہ پہنچے کا حکم نہ دیتے۔ مطلب یہ کہ چاند دیکھنے کی اطلاع زوال کے بعد ملی تھی اس لئے آپﷺ نے صحابہ کو روزہ کھولنے کا تو حکم دے دیا مگر عید کی نماز نہیں پڑھائی کیونکہ اس کا وقت ہی نہیں رہا تھا۔
فقہاء نے اسی حدیث کی بنا پر کہا ہے کہ عید کی نماز کا وقت آفتاب ایک نیزہ بلند ہونے کے وقت سے لے کر زوال کے آغاز تک ہے بلکہ احتیاط اس میں ہے کہ زوال سے پندرہ بیس منٹ قبل نماز ختم ہو

……… سوال …………

کیا نمازِ عید کے بعد ایک دوسرے کو ’’تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَمِنْکَ‘‘ کہنا ثابت ہے؟

………… الجواب …………

اس بارے میں دو مرفوع روایتیں مروی ہیں:

1- سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت

(الکامل لابن عدی ج 6 ص 2274، دوسرا نسخہ 7/ 524 وقال: ’’ھذا منکر …‘‘ المجروحین لابن حبان 2/ 301، دوسرا نسخہ 2/ 319، السنن الکبریٰ للبیہقی 3/ 319، العلل المتناہیہ لابن الجوزی 1/ 476 ح 811 وقال: ’’ھذا حدیث لایصح …‘‘ التدوین فی اخبار قزوین 1/ 342، ابوبکر الازدی الموصلی فی حدیثہ ق 3/2 بحوالہ سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ و الموضوعہ للالبانی 12/ 385۔386 ح 5666)

یہ روایت محمد بن ابراہیم بن العلاء الشامی کی وجہ سے موضوع ہے۔

محمد بن ابراہیم: مذکور کے بارے میں امام دارقطنی نے فرمایا: ’’ کذاب‘‘ (سوالات البرقانی للدارقطنی: 423)

حافظ ابن حبان نے کہا: و ہ شامیوں پر حدیث گھڑتا تھا۔ (المجروحین 2/ 301، دوسرا نسخہ 2/ 319)

صاحبِ مستدرک حافظ حاکم نے کہا: اس نے ولید بن مسلم اور سوید بن عبدالعزیز سے موضوع حدیثیں بیان کیں۔ (المدخل الی الصحیح ص 208 ت 191)

2- سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت

(السنن الکبریٰ للبیہقی 3/ 319، 320، امالی ابن شمعون: 277، المجروحین لابن حبان 2/ 149، دوسرا نسخہ 2/ 133، العلل المتناہیہ 2/ 57۔58 ح 900 وقال: ’’ھذا حدیث لیس بصحیح‘‘ تاریخ دمشق لابن عساکر 36/ 69)

اس کے راوی عبدالخالق بن زید بن واقد کے بارے میں امام بخاری نے فرمایا: ’’منکر الحدیث‘‘ (کتاب الضعفاء للبخاری بتحقیقی: 244)

امام بخاری نے فرمایا: میں جسے منکر الحدیث کہوں تو اُس سے روایت بیان کرنے کا قائل نہیں ہوں۔ (التاریخ الاوسط 2/ 107، دوسرا نسخہ: ہامش التاریخ الاوسط 3/ 582)

معلوم ہوا کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے۔

دوسرے یہ کہ یہ مکحول اور سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کے درمیان واسطہ نہ ہونے کی وجہ سے منقطع بھی ہے۔

حافظ ابن حجر نے اس روایت کو سند کے لحاظ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ (دیکھئے فتح الباری 2/ 446 تحت ح 952)

ان مردود روایات کے بعد اب بعض آثار کی تحقیق درج ذیل ہے:

1- طحاوی نے کہا:

’’وَحدثنَا یحیی بن عُثْمَان قَالَ حَدثنَا نعیم قَالَ حَدثنَا مُحَمَّد بن حَرْب عَن مُحَمَّد بن زِیَاد الْأَلْہَانِيْ قَالَ کُنَّا نأتيْ أَبَا أُمَامَۃ وواثلۃ بن الْأَسْقَع فِی الْفطر والأضحی ونقول لَہما قبل اللہ منا ومنکم فَیَقُولَانِ ومنکم ومنکم‘‘

محمد بن زیاد الالہانی (ابو سفیان الحمصی: ثقہ) سے روایت ہے کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی میں ابو امامہ اور واثلہ بن اسقع (رضی اللہ عنہما) کے پاس جاتے تو کہتے:

’’تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَمِنْکُمْ‘‘ اللہ ہمارے اور تمھارے (اعمال) قبول فرمائے،

پھر وہ دونوں جواب دیتے: اور تمھارے بھی، اور تمھارے بھی۔

(مختصر اختلاف الفقہاء للطحاوی / اختصار الجصاص 4/ 385 وسندہ حسن)

اس سند میں یحییٰ بن عثمان بن صالح اور نعیم بن حماد دونوں جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث تھے اور باقی سند صحیح ہے۔

اس روایت کو بھی ابن الترکمانی نے بغیر کسی حوالے کے نقل کر کے ’’حدیث جید‘‘ کہا اور احمد بن حنبل سے اس کی سند کا جید ہونا نقل کیا۔ دیکھئے الجوہر النقی (3/ 319۔320)

2- قاضی حسین بن اسماعیل المحاملی نے کہا:

’’حدثنا المھنی بن یحیی قال: حدثنا مبشر بن إسماعیل الحلبی عن إسماعیل بن عیاش عن صفوان بن عمرو عن عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر عن أبیہ قال: کان أصحاب النبي ﷺ إذا التقوا یوم العید یقول بعضھم لبعض: تقبل اللہ منا و منک‘‘

جبیر بن نفیر (رحمہ اللہ / تابعی) سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ کے صحابہ عید کے دن ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو تقبل اللہ منا و منک کہتے تھے۔

(الجزء الثانی من کتاب صلوٰۃ العیدین مخطوط مصور ص 22ب وسندہ حسن)

اس روایت کی سند حسن ہے اور حافظ ابن حجر نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔ (دیکھئے فتح الباری 2/ 446 تحت ح 952)

3- صفوان بن عمرو السکسکی (ثقہ) سے روایت ہے کہ:

میں نے عبداللہ بن بسر المازنی (رضی اللہ عنہ) خالد بن معدان (رحمہ اللہ) راشد بن سعد (رحمہ اللہ) عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر (رحمہ اللہ) اور عبدالرحمٰن بن عائذ (رحمہ اللہ) وغیرہم شیوخ کو دیکھا وہ عید میں ایک دوسرے کو تقبل اللہ منا و منک کہتے تھے۔

(تاریخ دمشق لابن عساکر 26/ 106، ترجمہ: صفوان بن عمرو، وسندہ حسن)

4- علی بن ثابت الجزری رحمہ اللہ (صدوق حسن الحدیث) نے کہا:

میں نے (امام) مالک بن انس (رحمہ اللہ) سے عید کے دن لوگوں کے ’’تقبل اللہ منا و منک‘‘ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: ہمارے ہاں (مدینے میں) اسی پر عمل جاری ہے، ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔

(کتاب الثقات لابن حبان ج 9 ص 90 وسندہ حسن)

5- امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:

مجھے عید کے دن یونس بن عبید ملے تو کہا: ’’تقبل اللہ منا و منک‘‘۔

(کتاب الدعاء للطبرانی ج 2 ص 1234 ح 929 وسندہ حسن)

اس روایت کے راوی حسن بن علی المعمری اُن روایات میں صدوق حسن الحدیث تھے، جن میں اُن پر انکار نہیں کیا گیا تھا اور اس روایت میں بھی اُن پر انکار ثابت نہیں ہے۔ نیز دیکھئے لسان المیزان بحاشیتی (ج 2 ص 414۔415)

6- طحاوی نے اپنے استاذوں اور معاصرین بکار بن قتیبہ، امام مزنی، یونس بن عبدالاعلیٰ اور ابو جعفر بن ابی عمران کے بارے میں کہا کہ جب انھیں عید کی مبارکباد دی جاتی تو وہ اسی طرح جواب دیتے تھے۔ (مختصر اختلاف العلماء ج 4 ص 385)

ان آثار سے معلوم ہوا کہ عید کے دن ایک دوسرے کو ’’تقبل اللہ منا و منک‘‘ کہنا (اور مبارکباد دینا) جائز ہے

.جو آدمی عید الفطر کی نماز میں شریک نہ ہوسکے وہ کیا کریں

جو آدمی لیٹ ہوجائے تو وہ عید الفطر کی چار رکعات ادا کرے گا
جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے جو آدمی نماز عید میں لیٹ ہوجائے تو وہ چار رکعات پڑھے اور جو امام کے ساتھ نماز عید میں شامل ہوجائیے چاہیے تشہد میں ھی ہو تو وہ امام کے ساتھ سلام کے بعد اٹھے اور دو رکعت پڑھ لے
مصنف ابن أبی شیبۃ حدیث (٥٧٩٨)-(٥٧٩٩)حسن

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!