نماز جنازہ کے فورا بعد دعا
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

نماز جنازہ کے فورا بعد دعا
سوال : جیسا کہ ہمارے ہاں مروج ہے نماز جنازہ کے فوراً بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیتے ہیں اس کا ثبوت قرآن و حدیث سے ملتا ہے یا یہ خود ساختہ بدعت ہے؟
جواب : نمازِ جنازہ ادا کرنے کا جو طریقہ کتبِ احادیث میں ملتا ہے اس میں میت کے لیے دعا کرنے کے دو مواقع کا ذکر ہے۔ ایک دعا نمازِ جنازہ کے اندر اور دوسری دعا قبر میں میت کو دفن کرنے کے بعد۔ نمازِ جنازہ کے بعد وہیں بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر دعا کرنے کا جو رواج بریلوی یا بعض دیوبندی حضرات میں پایا جاتا ہے اس کا ثبوت نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم ہی سے۔ قرآن مجید سے اشارۃً میت کے لیے دعا کے دو مواقع معلوم ہوتے ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق عبداللہ بن ابی کی نمازِ جنازہ ادا کی تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی :
« ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلٰى أَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهِ﴾ » [التوبة : 84]
”اے پیغمبر ! ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کی نمازِ جنازہ کبھی ادا نہ کرنا اور نہ ان کی قبر پر کھڑے ہی ہونا۔“
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خیر القرون میں نمازِ جنازہ ادا کرنے اور دفن کے بعد قبر پر دعا کرنے کا طریقہ ضرور موجود تھا اور ان سے اللہ تعالیٰ نے منافقین کے حق میں آیت کے اندر صریحاً ممانعت کر دی ہے۔
اگر تیسری دعا کا وجود ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس سے بھی ضرور روک دیتے۔ نمازِ جنازہ کے بعد دعا کرنے سے تو فقہائے احناف نے بھی منع کیا ہے، جیسا کہ سید الحمودی رقمطراز ہیں :
«لا يقوم بالدعاء بعد صلاة الجنازة لانه يشبه الزيادة فى صلاة الجنازة» [كشف الرمز على الكنز131]
”نمازِ جنازہ کے بعد دعا نہ کرو، اس لیے کہ یہ نمازِ جنازہ میں زیادتی کے مشابہ ہے۔“

نمازِ جنازہ سے فراغت کے فورًا بعد دعا کروانے کے قائل حضرات کی دلیل یہ حدیث ہے :

«اذا صليتم على الميت فاخلصوا له الدعاء» [» أبوداؤد، كتاب الجنائز : باب الدعاء للميت 3199]
انہوں نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے : ”جب تم میت پر نمازِ جنازہ پڑھ چکو تو اس کے لیے خالص دعا کرو۔“

حالانکہ اس کا ترجمہ یہ ہے : ”جب تم نمازِ جنازہ پڑھو تو اس کے لیے خالص دعا کرو۔“ پہلا ترجمہ تو حدیث کی روح کے خلاف ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ تعلیم دینا چاہتے ہیں کہ جب میت پر نمازِ جنازہ ادا کی جائے تو نہایت اخلاص کے ساتھ میت کے لیے دعا کی جائے۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جنازہ تو بغیر اخلاص کے ساتھ پڑھ لو اور بعد میں اخلاص کے ساتھ دعا کرو۔
جس اصول کے تحت یہ ترجمہ کیا گیا ہے اگر تسلیم کر لیا جائے تو مندرجہ ذیل آیت اور حدیث کے مفہوم کو کیا یہ صحیح سمجھیں گے۔ قرآن میں ہے :
« ﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ﴾ »
”پھر جب تم قرآن پڑھو تو اللہ کی پناہ مانگو۔“
اگر ان حضرات کا ترجمہ کیا جائے تو یوں ہو گا : ”جب تم قرآن پڑھ لو تو اللہ تعالیٰ سے شیطان مردود کی پناہ مانگو۔“ کیا یہ اسے صحیح تسلیم کریں گے اور پھر اس پر عمل کریں گے۔ اور ایک حدیث میں ہے :
« وإذا لبستم وإذا توضأتم فابدءوا بأيامنكم » [أبوداؤد، كتاب اللباس : باب فى الاتنعال 4141]
”جب تم لباس پہنو اور وضو کرو تو دائیں طرف سے شروع کرو۔“
اگر ان کی منطق تسلیم کر لی جائے تو ترجمہ یوں ہو گا : ”جب تم لباس پہن لو اور وضو کر لو تو پھر دائیں جانب سے شروع کرو۔“
معلوم ہوا کہ ان حضرات کا مذکورہ حدیث سے استدلال بالکل بے بنیاد ہے۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ نمازِ جنازہ کے فوراً بعد کوئی دعا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ دین میں ایک ایجاد ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: