یہ عام نمازوں کی طرح ہی ہے ان کے مخالف نہیں ہے
کیونکہ ایسی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ نماز جمعہ دیگر نمازوں سے ممتاز و الگ ہے اس لیے انعقادِ جمعہ کے لیے خود ساختہ شرائط یعنی مخصوص عدد ، مخصوص جگہ یا مخصوص امام کی تعیین کرنا یقینا ایک غیر شرعی عمل ہے اور دین میں بدعات و خرافات کے اضافے کا موجب ہے۔ ان مسائل کی مزید توضیح و تشریح کی غرض سے آئندہ ان کی قدرے تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔
◈ انعقاد جمعہ کے لیے مخصوص عدد:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
مضت السنة أن فى كل أربعين فصاعدا جمعة
”یہ سنت طریقہ جاری رہا ہے کہ چالیس یا اس سے کچھ اوپر تعداد پر جمعہ لازم ہے ۔“
[ضعيف: دارقطني: 3/2 – 4 ، يه حديث اس ليے ضعيف هے كيونكه اس كي سند ميں عبد العزيز بن عبد الرحمن راوي ضعيف هے۔ امام احمدؒ نے اس راوي كي احاديث كو جهوٹ كا پلنده اور من گهڑت قرار ديا هے۔ الكامل لابن عدي: 1927/5 ، امام نسائيؒ نے اس راوي كو غير ثقه كها هے۔ الضعفاء والمتروكين: ص 168 ، 415 ، امام دارقطنيؒ نے اسے منكر الحديث كها هے۔ الضعفاء والمتروكين له: ص/174 ، 315 ، امام ابن حبانؒ رقمطراز هيں كه اس سے حجت لينا جائز نهيں ۔ المجروحين: 138/2]
اگرچہ اس مسئلہ میں کوئی حدیث بھی صحیح نہیں ہے لیکن بہر حال علماء کا اختلاف اس میں بھی موجود ہے۔
(شافعیؒ) نماز جمعہ کے لیے چالیس آدمیوں کی موجودگی ضروری ہے۔ امام احمدؒ سے بھی ایک روایت یہی ہے اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ بھی یہی موقف رکھتے ہیں۔
(ابو حنیفہؒ) امام کے علاوہ مزید دو آدمیوں کا ہونا ضروری ہے۔
(مالکیہ) اقامتِ جمعہ کے لیے معتبر عدد بارہ (12) ہے۔
علاوہ ازیں مختلف علماء نے مختلف آراء پیش کی ہیں یعنی چار ، سات ، نو ، بارہ ، بیسں ، چالیس ، پچاس اور ستر آدمیوں کی تعداد جمعہ کے لیے ضروری ہے۔
[المجموع: 371/4 ، بدائع الصنائع: 268/1 ، المبسوط: 24/2 ، الهداية: 83/1 ، المغنى: 203/3 ، البحر الزخار الجامع لمذاهب الأمصار: 112 – 12 ، سبل السلام: 655/2]
(ابن تیمیہؒ ، ابن قیمؒ) امام کے علاوہ دو آدمیوں کا ہونا ضروری ہے ان کی دلیل یہ حدیث ہے : إذا كانوا ثلثة فليؤمهم أحدهم ”جب تین آدمی ہوں تو ان میں سے ایک امامت کرائے۔“ (حالانکہ یہ حدیث عام ہے اور نماز جمعہ خاص ہے۔ )
[التعليق على سبل السلام للشيخ عبدالله بسام: 654/2]
(راجح) نماز جمعہ کے لیے نمازیوں کی تعداد کے متعلق کوئی صحیح حدیث منقول نہیں اس لیے چونکہ دیگر نمازوں کی جماعت علي الاقل دو افراد سے منعقد ہو جاتی ہے تو نماز جمعہ کی جماعت کے لیے بھی کم از کم دو افراد ہی کافی ہیں۔
(شوکانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 512/2]
(امیر صنعانیؒ ) اس کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[سبل السلام: 655/2]
(ابن حزمؒ ) دو یا اس سے زائد افراد کے ساتھ جمعہ منعقد ہو جاتا ہے۔
[المحلى بالآثار: 251/3]
(صدیق حسن خانؒ) یہی موقف رکھتے ہیں۔
[الروضة الندية: 342/1 – 344]
◈ انعقاد جمعہ کے لیے مخصوص جگہ:
اسلام نے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے کسی خاص جگہ کی قید نہیں لگائی اس کے باوجود بعض حضرات کا کہنا ہے کہ نماز جمعہ صرف شہروں میں ہی ادا کی جائے گی حالانکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بات صریح حدیث کے خلاف ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ان کا اپنا عمل بھی اس کے مطابق نہیں بلکہ وہ خود گاؤں اور دیہاتوں میں موجود اپنی مساجد میں نماز جمعہ پڑھتے پڑھاتے ہیں۔
علاوہ ازیں مذکورہ مسئلہ کی وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل دلائل کافی ہیں:
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
إن أول جمعة جمعت ـ بعد جمعة فى مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم فى مسجد عبد القيس بحوائي من البحرين
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد پہلا جمعہ بنو عبد القیس کی مسجد میں ہوا جو ملک بحرین کے جواثاء مقام میں تھی۔“
سنن ابی داود میں یہ لفظ زائد ہیں:
بحواثـاء قرية من قرى البحرين
”جواثاء جو کہ بحرین کی بستیوں میں سے ایک بستی (گاؤں دیہات ) تھی۔“
[بخاري: 892 ، 4371 ، كتاب الجمعة: باب الجمعة فى القرى والمدن ، أبو داود: 1068 ، ابن خزيمة: 1725]
➋ امام بخاریؒ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے:
باب الجمعة فى القرى والمدن
”گاؤں اور شہروں (دونوں جگہ میں ) جمعہ درست ہے۔ “
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھ کر دریافت کیا کہ ہم بحرین میں جمعہ پڑھیں یا نہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ :
ان جمعوا حيث ما كنتم
”تم جہاں کہیں بھی ہو جمعہ پڑھ لیا کرو ۔“
[ضعيف: تمام المئة: ص/ 332 ، فتح البارى: 486/1]
➍ اسکندریہ اور مصر کے گرد و نواح کے رہائشی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان دونوں کے حکم سے جمعہ پڑھا کرتے تھے اور وہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بھی موجود تھی ۔“
[بيهقي: 178/3 ، التعليق المغنى على الدارقطني: 166/1]
➎ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما دیہاتوں میں جمعہ پڑھنے والوں کو کچھ ملامت نہیں فرماتے تھے۔
[عبد الرزاق: 5185 ، بيهقى: 178/3 ، فتح البارى: 486/1 ، التعليق المغنى على الدارقطني: 166/1]
➏ گاؤں میں جمعہ درست ہے اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ارشاد الٰہی ہے:
أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ
[الجمعة: 9]
”اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کی آذان دی جائے۔“
یہ آیت تمام ایمان والوں کے لیے عام ہے خواہ شہری ہوں یا دیہاتی۔
➐ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنو مالک کے گاؤں میں نماز جمعہ پڑھائی۔
[عون المعبود: 414/1]
اس مسئلے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(احناف) جمعہ صرف بڑے شہر کی جامع مسجد میں ہی پڑھا جاسکتا ہے۔
(جمہور) ہر جگہ نماز جمعہ پڑھنا درست ہے خواہ شہر ہو یا دیہات ۔
[الأم: 328/1 ، المجموع: 353/4 ، المبسوط: 2332 ، بدائع الصنائع: 259/1 ، الهداية: 82/1 ، الإختيار: 81/1]
(راجح) گذشته بیان کرده دلائل جمہور کے موقف کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[تفصيل كے ليے ملاحظه هو: نيل الأوطار: 514/2 ، الروضة الندية: 344/1 ، المحلى بالآثار: 254/3]
(ابن بازؒ) بستیوں اور شہروں دونوں جگہ میں جمعہ درست ہے۔
[الفتاوى الإسلامية: 399/1]
◈ انعقاد جمعہ کے لیے مخصوص امام:
جیسا کہ احناف حضرات کی طرف سے یہ شرط عائد کی جاتی ہے کہ ”نماز جمعہ صرف حاکم وقت یا جسے حاکم وقت حکم دے وہی شخص پڑھائے ۔“
[قدروي: ص/53 ، الدر المختار: 747/1 ، فتح القدير: 408/1 ، بدائع الصنائع: 259/1]
حالانکہ اسلام نے اپنی کوئی شرط مقرر نہیں کی ۔ یہی وجہ ہے کہ احناف کے علاوہ دیگر تمام علماء نے صحت جمعہ کے لیے ایسی کوئی شرط مقرر نہیں کی ۔ علاوہ ازیں جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ محصور تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز (جمعہ ) پڑھائی ، اس پر کسی نے تعجب نہیں کیا بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے از خود اسے درست قرار دیا ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 1298/2]