سوال
جنازے کی تکبیر یا نماز کی رکعات کے رہ جانے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ جو امام کے ساتھ ملے، وہ اس کی پہلی رکعت ہے۔ لیکن حدیث "ما أدرکتم فصلوا وما فاتکم فأتموا” کے حوالے سے وضاحت مطلوب ہے۔
جواب از فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
فقہاء کا اختلاف:
اس مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف موجود ہے۔ ان کے تین بنیادی نقطہ نظر ہیں:
- امام کے ساتھ پائی جانے والی نماز پہلی رکعات شمار ہوگی:
- مقتدی کے لیے امام کے ساتھ ادا کی گئی رکعات پہلی رکعات شمار ہوں گی، خواہ امام کی ترتیب سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔
- مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص امام کی آخری رکعات میں شامل ہو تو وہ اپنی چھوٹی ہوئی رکعات بعد میں ادا کرے گا، لیکن امام کے ساتھ شامل ہونے والی رکعات کو پہلی مانے گا۔
- امام کے ساتھ والی رکعات مقتدی کی ترتیب کے مطابق مکمل ہوں گی:
- مقتدی امام کے ساتھ جو رکعات پائے گا، وہ اس کے لیے امام کی ترتیب کے مطابق ہوں گی۔
- چھوٹی ہوئی رکعات کو سلام کے بعد مکمل کرے گا۔
- فوت ہونے والی رکعات پہلی شمار ہوں گی:
- خاص طور پر مغرب کی نماز میں، مقتدی دو رکعات کے بعد تشہد میں بیٹھے گا تاکہ نماز کی ہیئت برقرار رہے اور دو رکعات کے بعد تشہد کے حکم پر بھی عمل ہو۔
حدیث کا مطلب:
حدیث "ما أدرکتم فصلوا وما فاتکم فأتموا” کا مطلب یہ ہے:
- جو رکعات امام کے ساتھ مل جائیں، انہیں ادا کر لو۔
- جو رکعات رہ جائیں، انہیں امام کے سلام کے بعد پورا کر لو۔
مسئلے کی پیچیدگی:
- حدیث کے الفاظ اور مختلف تفہیمات کی وجہ سے اس معاملے میں اختلاف پیدا ہوا ہے۔
- اس اختلاف کا زیادہ تر سامنا مغرب کی نماز میں ہوتا ہے، کیونکہ اس میں دو رکعات کے بعد تشہد کی ضرورت ہوتی ہے۔
عمل کی رہنمائی:
- اس مسئلے میں وسعت اختیار کرتے ہوئے دونوں طریقوں پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
- ان شاء اللہ، دونوں صورتوں میں خیر ہے۔
نتیجہ:
- یہ اختلاف علمی اور فہم کا معاملہ ہے۔ جو طریقہ کسی کے لیے زیادہ واضح ہو، وہ اس پر عمل کر سکتا ہے۔