نمازِ کسوف پڑھنے کا طریقہ کیا ہے
نمازِ کسوف ایسی نماز کو کہتے ہیں جسے سورج یا چاند گہن کے وقت پڑھا جاتا ہے۔ اس کے لیے عربی گرائمر میں مختلف ابواب استعمال ہوتے ہیں مثلاً كَسَف ( ضرب ) ، تَكَسَّفَ ( تفعّل ) ، إِنْكَسَفَ ( إنفعال ) ان سب کا معنی ”آفتاب یا ماہتاب کا گہن زدہ ہونا ہے۔“ اور خسوف بھی اسی معنی میں مستعمل ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک سورج گہن کے لیے لفظ كسوف اور چاند گہن کے لیے لفظ خسوف استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔
[القاموس المحيط: ص/764 ، المنجد: ص/ 751 ، الصحاح: 1421/4 ، فتح البارى: 234/3 ، سبل السلام: 689/2]
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شمس و قمر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان کو گہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا:
فإذا رأيتموهما فادعوا الله وصلوا حتى تنكشف
”چنانچه جب تم انہیں اس حالت میں دیکھو تو اللہ تعالٰی سے دعا کرو اور نماز پڑھو حتٰی کہ سورج گہن کھل جائے ۔“
[بخاري: 1043 ، كتاب الجمعة: باب الصلاة فى كسوف الشمس ، مسلم: 915]
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
فإذا رأيتموهما فافزعوا إلى الصلاة
”جب تم انہیں دیکھو تو فوراََ نماز کی طرف لپکو۔“
[بخاري: 1046 ، كتاب الجمعة: باب خطبة الإمام فى الكسوف ، مسلم: 901 ، مؤطا: 186/1 ، أبو داود: 1177 ، ترمذي: 558 ، نسائي: 132/3 ، ابن ماجة: 1263]
(شوکانیؒ ) ظاہر تو وجوب ہی معلوم ہوتا ہے لیکن اگر اس نماز کے عدم وجوب پر اجماع والی بات درست ہو تو وہ وجوب کو ختم کر دے گی ورنہ نہیں ۔
[السيل الجرار: 323/1]
(البانیؒ) ایسے کسی اجماع کا دعوی درست نہیں لٰہذا وجوب کا قول ہی برحق ہے۔
[التعليقات الرضية على الروضة الندية: 410/1 ، تمام المنة: ص/ 264]
(ابو عوانہؒ) انہوں نے یہ باب قائم کیا ہے کہ بيان وجوب صلاة الكسوف ”نماز کسوف کے وجوب کا بیان ۔“
[في صحيحه: 366/2]
(ابو حنیفہؒ) یہ نماز ادا کرنا واجب ہے۔
[بدائع الصنائع: 280/1]
(جمہور ) یہ سنت مؤکدہ ہے۔
[سبل السلام: 690/2]
(راجح) جمہور کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔
اس کے طریقے میں وارد زیادہ صحیح روایت یہ ہے کہ اس کی دو رکعتیں ہیں اور ہر رکعت میں دو رکوع ہیں
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج گہن ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف ادا فرمائی ، اس میں سورۃ بقرہ کی تلاوت کے برابر قیام کیا ، پھر رکوع بھی بہت لمبا کیا ، پھر رکوع سے کھڑے ہوئے تو قیام بھی طویل کیا مگر پہلے سے کم ، پھر دوبارہ لمبا رکوع کیا لیکن پہلے رکوع سے کم ، پھر سجدہ ریز ہوئے، پھر لمبا قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے کچھ کم تھا ، پھر ایک لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا ، پھر اپنا سر اٹھایا اور ایک لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا ، اور دوبارہ لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا ، پھر سجدہ کیا ، پھر جب سلام پھیرا تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو وعظ بھی کیا ۔
[بخاري: 1052 ، كتاب الجمعة: باب صلاة الكسوف جماعة ، مسلم: 907 ، مؤطا: 18631 ، أبو داود: 1181 ، نسائي: 146/3]
تین چار اور پانچ رکوع بھی منقول ہیں
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عہد رسالت میں سورج گہن زدہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دو رکعتوں میں ) چھ رکوع اور چار سجدے کیے۔
[مسلم: 904 ، كتاب الكسوف: باب ما عرض على النبى فى صلاة الكسوف ، أبو داود: 1178 ، شرح معاني الآثار: 328/1 ، بيهقي: 325/3 ، أبو عوانة: 371/2]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دو رکعتوں میں ) آٹھ رکوع اور چار سجدے کیے۔
[مسلم: 909 ، كتاب الكسوف: باب ذكر من قال إنه ركع ثمان ركعات ، أبو داود: 1183 ، نسائي: 129/3]
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں طویل قیام کے بعد پانچ رکوع اور دو سجدے کیسے پھر اسی طرح دوسری رکعت میں کیا ۔
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 251 ، كتاب الصلاة: باب من قال أربع ركعات ، أبو داود: 1182 ، حاكم: 333/1 ، بيهقي: 329/3 ، شيخ محمد صجی حلاق نے اسے ضعيف كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 260/3 ، اس كي سند ميں ابو جعفر رازي (عيٰسي بن عبدالله بن ماهان) راوي ميں مقال هے۔ ميزان الاعتدال: 385/5]
نمازی ہر دو رکوعوں کے درمیان قراءت کرے، اور ہر رکعت میں ایک رکوع بھی (روایات میں ) مذکور ہے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف پڑھائی:
فقراً ثم ركع ثم قرأثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم سجد
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت کی ، پھر رکوع کیا ، پھر قراءت کی پھر رکوع کیا ، پھر قراءت کی ، پھر رکوع کیا ، پھر سجدہ کر لیا ۔ “
[مسلم: 909 ، كتاب الكسوف: باب ذكر من قال إنه ركع ثمان ركعات ، أبو داود: 1183 ، نسائي: 129/3 ، ابن خزيمة: 1385]
➊ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل روایت میں صرف ایک رکوع کا ذکر ہے۔
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 253 ، كتاب الصلاة: باب من قال أربع ركعات ، أبو داود: 1184 ، ضعيف ترمذي: 86 ، ضعيف ابن ماجة: 260 ، نسائي: 140/3 ، حاكم: 330/1 ، بيهقي: 335/3]
➋ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ایک رکوع کا بھی ذکر ہے۔
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 257 ، كتاب الصلاة: باب من قال يركع ركعتين ، أبو داود: 1194 ، شيخ البانيؒ فرماتے هيں كه دو ركوعوں كے ذكر كے ساته صحيح هے جيسا كه صحيحين ميں هے۔]
➌ حضرت عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں یہ لفظ ہیں:
قرأ سورتين وصلي ركعتين
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سورتوں کی قراءت کی اور دو رکعت نماز ادا کی۔“
[مسلم: 913 ، كتاب الكسوف: باب ذكر النداء بصلاة الكسوف]
مذکورہ حدیث کے الفاظ کے ساتھ بھی ایک رکوع کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے لیکن یہ الفاظ ایک رکوع کے اثبات کے لیے صریح نہیں ہیں۔
(البانیؒ) اسی کے قائل ہیں کہ ان الفاظ سے یہ وضاحت نہیں ہوتی ۔
[التعليقات الرضية على الروضة الندية: 412/1]
(ابن قیمؒ) تکرارِ رکوع والی حدیث سنداََ زیادہ صحیح ، علت و اضطراب سے سالم ، کبار صحابہ سے مروی اور زیادہ (علم) پر مشتمل ہے لٰہذا انہیں اختیار کرنا درست ہے۔
[إعلام الموقعين: 369/2]
◈ محققین نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ نمازِ کسوف کا واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صرف ایک ہی مرتبہ پیش آیا۔
(امیر صنعانیؒ) یہ تمام روایات ایک ہی واقعے کا بیان ہے۔
[سبل السلام: 696/2]
(ابن قیمؒ) کبار صحابہ تعدد و صحیح قرار نہیں دیتے ۔
[زاد المعاد: 453/1]
(شوکانیؒ) درست یہی ہے کہ نمازِ کسوف آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف ایک مرتبہ ہی ثابت ہے۔
[نيل الأوطار: 641/2]
(البانیؒ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک مرتبہ نماز کسوف پڑھائی۔
[تمام المنة: ص/ 263]
واضح رہے کہ اگر یہ ایک ہی قصہ ہے تو مختلف روایات میں سے کسی ایک کو ترجیح دی جائے گی اور بلا تردد دو رکوعوں والی روایت جو کہ صحیحین میں ہے زیادہ صحیح ہے۔
(ابن تیمیہؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[مجموع الفتاوى: 115/24]
(مالکؒ ، احمدؒ ، شافعی: ، بخاریؒ) دو رکوعوں والی روایت کو ہی ترجیح حاصل ہے۔
[كما فى زاد المعاد: 453/1]
(شوکانیؒ ) بلاشبہ دو رکوعوں والی احادیث زیادہ صحیح ہیں ۔
[نيل الأوطار: 635/2]
اس موقع پر دعا ، تکبیر ، صدقہ اور استغفار کرنا مستحب ہے
➊ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ نماز کسوف ادا کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فإذا رأيتموهما فادعوا الله وصلوا حتى ينجلي
”جب تم ان دونوں (یعنی سورج گہن یا چاند گہن ) کو دیکھ تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور نماز پڑھو تا وقتیکہ وہ ظاہر ہو جائے۔“
[بخاري: 1060 ، كتاب الجمعة: باب الدعاء فى الخسوف ، مسلم: 915]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت میں ہے کہ :
فإذا رأيتم ذلك فاذكروا الله وكبروا وصلوا وتصدقوا
”جب تم سورج گہن دیکھ تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو ، تکبیریں کہو ، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔“
[بخارى: 1044 ، كتاب الكسوف: باب الصدقة فى الكسوف ، مسلم: 901 ، مؤطا: 186/1 ، أبو داود: 1177 ، ترمذي: 58 نسائي: 132/3 ، ابن ماجة: 1263]
➌ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ :
إذا رأيتم شيئا من ذلك فافزعوا إلى ذكر الله ودعاءه و استغفاره
”جب تم اس (یعنی آفتاب و ماہتاب گہن ) سے کچھ بھی دیکھو تو فوراََ اللہ کا ذکر ، اس سے دعا اور استغفار شروع کر دو ۔ “
[بخاري: 1059 ، كتاب الجمعة: باب الذكر فى الكسوف ، مسلم: 912 ، شرح السنة: 1131]