نمازِ عشاء ابتدائی وقت اور احادیث کی روشنی
تحریر: عمران ایوب لاہوری

نمازِ عشاء ابتدائی وقت اور احادیث کی روشنی

➊ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی جس روایت میں ہے کہ ایک سائل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اوقات نماز کے متعلق پوچھا اس میں ہے کہ پہلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے :
فاقام العشاء حين غاب الشفق
”نماز عشاء اس وقت پڑھائی جب شفق غائب ہوئی ۔“
[مسلم 614 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة : باب أوقات الصلوات الخمس ، نسائي 523 ، أبو داود 395]
➋ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی امامت والی حدیث میں پہلے دن عشاء کا یہ وقت مذکور ہے :
حين غاب الشفق
” جب شفق غائب ہوئی۔ “
[صحيح: صحيح ترمذي 127 ، نسائي 513]
➊ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وقت صلاة العشاء إلى نصف الليل
”عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک ہے۔“
[مسلم: 612 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة : باب أوقات الصلوات الخمس ، طيالسي 2249 ، أحمد 210/2 ، أبو داود 396 ، شرح معاني الآثار 150/1 ، بيهقى 366/1]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
و إن آخر وقتها العشاء حين ينتصف الليل
”بلاشبہ عشاء کا آخری وقت آدھی رات تک ہے ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي 129 ، كتاب الصلاة : باب ما جاء فى مواقيت الصلاة عن النبي ، الصحيحة 1696 ، ترمذي 151 ، احمد 232/2]
نماز عشاء کے آخری وقت میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(احمدؒ ، مالکؒ ، شافعیؒ) عشاء کا آخری وقت ایک تہائی رات تک ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی الله عنہ ، امام قاسمؒ اور حضرت عمربن عبد العزیزؒ کا بھی یہی موقف ہے۔
(ابو حنیفہؒ) عشاء کا آخری وقت آدھی رات تک ہے ۔
( جمہور طحاویؒ) عشاء کا آخری وقت طلوع فجر تک ہے۔
[تحفة الأحوذي 528/1 ، نيل الأوطار 469/1 ، عارضة الأحوذي 277/1]
(شوکانیؒ ) عشاء کا آخری اختیاری وقت آدھی رات تک ہے اور جائز و اضطراری وقت فجر تک ہے۔
[نيل الأوطار 470/1]
(نوویؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[شرح مسلم 123/3]
(سید سابقؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[فقه السنة 92/1]
(ابن قدامهؒ) اختیاری وقت ایک تہائی رات تک اور وقت ضرورت فجر ثانی طلوع ہونے تک ہے ۔
[المغنى 28/1]
(راجح) حدیث کے واضح الفاظ نصف الليل تک ہی عشاء کا آخری وقت بیان کرتے ہیں۔
( حافظ ابن حجرؒ) عشاء کا وقت فجر تک لمبا ہونے کے متعلق میں نے کوئی واضح حدیث نہیں دیکھی۔
[تحفة الأحوذى 528/1]
( ابن عربیؒ) عشاء کا آخری وقت آدھی رات تک ہے۔
[عارضة الأحوذي 277/1]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) عشاء کا آخری وقت آدھی رات تک ہے ۔
[تحفة الأحوذى 529/1]
(صدیق حسن خانؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[الروضة الندية 202/1]
(البانیؒ) حق بات یہی ہے کہ عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے ۔
[تمام المنة ص/ 142]
جو لوگ عشاء کا وقت فجر تک بتلاتے ہیں ان کی دلیل یہ حدیث ہے :
ليس فى النوم تفريط إنما التفريط على من لــم يـصـل الصلاة حتى يحيى وقت الأخرى
”کوتاہی نیند میں نہیں ہے ( بلکہ ) صرف کوتاہی ایسے شخص پر ہے جس نے نماز ادا نہ کی حتی کہ دوسری نماز کا وقت آگیا ۔“
[مسلم: 681٬311 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة : باب قضاء الصلاة الفائتة واستحباب تعجيل قضائها ، أبو داود 441 ، أحمد 298/5 ، ترمذي 177 ، ابن ماجة 698]
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ یہ حدیث وقت کی تحدید وتعیین کے لیے نہیں ہے بلکہ اس میں صرف ایسے شخص کی نافرمانی کا ذکر ہے جو ایک نماز کو دوسری نماز تک لیٹ کرتا ہے۔
[تمام المنة ص: 141 ، المحلى 178/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے