صلاة استخاره:
جب کسی مسلم کو کوئی ضروری مسئلہ در پیش آئے اور اس کو کرنے یا نہ کرنے پر متذ بذب ہو تو اس کو استخارہ کرنا چاہیے۔ استخارہ کرنے کے بعد یہ ضروری نہیں کہ خواب میں ہی اشارہ ہو بلکہ اس کا دل جس امر پر مطمئن ہو وہ کرے۔
دعائے استخارہ:
اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك. وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم ، وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي فى ديني ومعاشي وعاقبة أمرى أو قال: عاجل أمرى وأجله، فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، اللهم وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر فى في ديني ومعاشي وعاقبة أمرى أو قال : عاجل أمرى واجله، فاصرفه عنى واصرفني عنه واقدر لي الخير حيث كان ثم ارضني به . (بخاری)
اے اللہ ! میں تجھ سے بھلائی طلب کرتا ہوں تیرے علم کے ذریعے سے، اور تجھ سے طاقت مانگتا ہوں تیری طاقت کے ذریعے ، اور تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے فضل عظیم کا ، اس لیے کہ تو طاقت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا اور تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو جاننے والا ہے تمام غیبوں کو، اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ بے شک یہ کام بہتر ہے میرے لیے میرے دین میں اور میرے معاش میں اور میرے انجام کار میں، تو تو اس کو میرے لیے مقدر کر دے اور اسے میرے لیے آسان فرما دے، پھر میرے لیے اس میں برکت ڈال دے اور اگر تو جانتا ہے کہ بے شک یہ کام میرے لیے برا ہے میرے دین میں اور میرے معاش میں اور میرے انجام کار میں، تو اس کو پھیر دے مجھ سے اور مجھ کو پھیر دے اس سے اور مقدر کر دے میرے لیے بھلائی جہاں بھی وہ ہو پھر مجھے راضی کر دے اس کے ساتھ۔
صلاۃ کسوف و خسوف (سورج گرہن یا چاند گرہن کے وقت ):
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور کعت صلاة باجماعت پڑھی۔
① آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ البقرہ کے برابر قرآن کی تلاوت کی۔
② پھر لمبا رکوع کیا۔
③ پھر لمبا قیام کیا یعنی لمبی قرات کی
④ پھر پہلے رکوع سے مختصر رکوع کیا۔
⑤ پھر دو سجدے کیے۔
⑥ پھر کھڑے ہو کر لمبا قیام کیا۔
⑦ پھر لمبا رکوع کیا۔
⑧ پھر کھڑے ہو کر تلاوت کی۔
⑨ پھر رکوع میں گئے۔
⑩ پھر دو سجدے کیے اور تشہد کے بعد سلام پھیرا۔
(یعنی دو رکعت میں صلاۃ کی ہر رکعت میں دو دو مرتبہ رکوع اور دودو مرتبہ قیام ) (صحیح بخاری : 1052)
صلاة استقاء:
بارش نہ ہونے یا قحط سالی کے موقع پر پڑھی جانے والی صلاۃ۔
✿ استسقاء کی صلاۃ دورکعت ہے۔
✿ امام اونچی آواز میں قرات کرے گا۔
✿ کھلے میدان یا عید گاہ میں پڑھی جائے گی۔
(بخاری، الکسوف: 1045)
✿ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاة استقاء کے علاوہ کسی دعا میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھائے ، ہاتھوں کو دراز کیا حتی کہ بغلیں دکھائی دیں۔
(بخاری، استقاء:1031)
✿ وقت طلوع آفتاب کے فورا بعد ہے۔
✿ پہلے امام دورکعت صلاۃ پڑھائے گا پھر قبلہ رخ ہو کر چادر الٹ کر یا ہاتھ الٹ کر دعا کرے گا۔
✿ اذان اور اقامت کے بغیر صلاة استسقاء پڑھائی جائے گی۔
(بخاری، استقاء)
✿ دو رکعت کے بعد خطبہ و دعامانگی جائے گی۔
صلاة اشراق یا صلاۃ اوابین:
ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہر آدمی پر لازم ہے کہ ہر جوڑ کے بدلے صدقہ و خیرات کرے۔ پس ہر تحمید صدقہ ہے، ہر تہلیل صدقہ ہے، اور ہر تکبیر صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے اور ان سب سے اشراق کی دورکعت صلاۃ کافی ہے۔
( صحیح مسلم ، صلاة المسافرین :720)
✿ اشراق کی تعداد چار رکعت بھی ہے اور آٹھ رکعت بھی ہے۔
✿ صلاة اشراق کا وقت طلوع آفتاب کے بعد ہے۔
صلاة اوابین:
زین بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام اہل قبا کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ ضحی کی صلاۃ پڑھ رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اوابین . ( یعنی وہ لوگ جو اللہ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے ہیں ) کی صلاۃ اس وقت ہوتی ہے جب سورج بلند ہونے پر اونٹنیوں کے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔ (صحیح مسلم) مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جانے والی نوافل جس کو صلاۃ الاوابین کہا گیا ہے
وہ ضعیف روایت ہے:
صلاة الأوابين اذا رمضت الفصال من الضحى. (صحیح مسلم)
اس کو صلاة اشراق بھی کہا جاتا ہے جو سورج نکلنے کے فورا بعد پڑھ لی جاتی ہے، ناصر الدین البانی نے اس کو حسن درجے کی روایت قرار دیا ہے، یہی صلاۃ اوا بین ہے نہ کہ مغرب کے بعد پڑھنے جانے والے نوافل کیونکہ مغرب کے بعد والی حدیث مرسل یعنی ضعیف ہے۔
میت اور موت سے متعلق فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم:
① لذتوں کو مٹانے والی چیز موت کو تم کثرت سے یاد کیا کرو۔ (نسائی، ترمذی)
② اپنے مرنے والوں کو لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کی تلقین کیا کرو۔ (مسلم)
③ جب کوئی مسلمان آدمی فوت ہوتا ہے اور اس کی صلاۃ جنازہ میں ایسے چالیس آدمی شریک ہوتے ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا، اللہ تعالیٰ ان کی اس میت کے حق میں سفارش ( دعائے مغفرت) قبول فرماتا ہے۔ (مسلم)
صلاة جنازہ کی دعا ئیں:
① سورہ فاتحہ ( پہلی نمیر)۔
② دعائے ابراہیمی ( درود شریف ) ( دوسری تکبیر)۔
③ تیسری تکبیر:
✿اللهم اغفر لحينا وميتنا، وصغيرنا وكبيرنا، وذكرنا وأنثانا، وشاهدنا وغائبنا، اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام، ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان، اللهم لا تحرمنا أجره، ولا تفتنا بعده
(رواه الترمذی)
اے اللہ ! بخش دے ہمارے زندوں اور ہمارے مردوں کو اور ہمارے حاضر اور ہمارے غائب (لوگوں) کو اور ہمارے چھوٹے اور ہمارے بڑے کو اور ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں کو ۔ اے اللہ ! جسے تو زندہ رکھے ہم میں سے تو زندہ رکھ اسے اسلام پر اور جسے تو فوت کرے ہم میں سے تو اسے موت دے ایمان پر ۔ اے اللہ ! ہمیں محروم نہ فرما، اس کے ثواب سے اور ہمیں آزمائش میں نہ ڈالنا اس کے بعد۔
اللهم اغفر له، وارحمه وعافه واعف عنه، واكرم نزله، ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد. ونقه من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس، وأبدله دارا خيرا من داره، وأهلا خيرا من أهله. (مسلم)
(چوتھی تکبیر کے بعد کچھ پڑھے بغیر سلام پھیر لیں)۔
اے اللہ ! اسے بخش دے اور اس پر رحم فرما اور اسے عافیت دے اور اس سے درگزر فرما اور عزت کے ساتھ فرما اس کی مہمانی اور اس کی قبر کو فراخ کر دے اور اسے دھو ڈال پانی، برف اور اولوں سے اور اسے پاک کر دے گناہوں سے جیسا کہ صاف کر دیا سفید کپڑا میل کچیل سے اور اسے بدلے میں دے بہتر گھر اس گھر سے اور گھر والے (جو ) بہتر ہوں اس کے گھر والوں سے۔
مشرک اور بدعتی کی صلاۃ جنازہ پڑھنے سے احتیاط کریں اس لیے کہ مشرک کی صلاۃ جنازہ پڑھنے سے اللہ رب العزت نے منع فرمایا ہے۔ حتی کہ آپ اس کے لیے دعائے مغفرت بھی نہیں کر سکتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے چچا ابو طالب کی موت پر فرمایا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ سے آپ کی مغفرت کی دعا کروں گا۔ جب تک کہ روک نہ دیا جاؤں۔ اس پر قرآن کی آیت نازل ہوئی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کے لیے درست نہیں کہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں، اگر چہ وہ قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں، جب کہ ان پر واضح ہو چکا ہے کہ وہ لوگ جہنمی ہیں ۔ (9-112)
اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ (ص:56)
(اے نبی ) آپ جسے پسند کریں ہدایت نہیں دے سکتے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کہ ان کو اپنی والدہ ماجدہ کے لیے دعائے مغفرت کی اجازت نہ مل سکی البتہ قبر کی زیارت کی اجازت مل گئی۔ اب کوئی نادان کہے کہ ابو طالب تو مشرک تھے۔ اس لیے ان کے لیے استغفار منع ہے۔ ابو طالب اور دوسرے مشرکین اپنے تیئں دین ابراہیمی علیہ السلام پر قائم تھے۔ عمرے کرتے تھے۔ طواف کرتے تھے، صلاۃ اور حج ادا کرتے تھے، حاجیوں کی خدمت کرتے تھے، صرف ان کا قصور لات و عزی اور منات کو اللہ کے پاس سفارشی اور وسیلہ بناتے تھے اور یہ لات و منات اور عزیٰ کوئی بت نہیں تھے۔ بلکہ اللہ کے نیک بندے تھے۔ ان کے مرنے کے بعد لوگوں نے ان کی تماثیل بنالیں۔ اسی طرح آج کا مسلمان مشرک بھی اپنے خود ساختہ معبودوں کو پکارتا اور ان کی نذرونیاز اور اللہ کے یہاں سفارشی بناتا ہے۔
مساجد کی آرائش:
✿ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ میں مسجد کی آرائش کروں۔
(ابوداؤد، بناء مساجد : 448)
✿ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں مسجد نبوی ﷺ کی دوبارہ تعمیر کر وائی اور فرمایا کہ میں مسجد کی تعمیر بارش سے بچاؤ کے لیے کر رہا ہوں اور مسجد کو رنگ دار کرنے سے منع فرمایا۔
(المحلی ابن حزم: 248)
✿ جب تم اپنی مساجد کی آرائش و زیبائش کرنے لگو اور اپنے مصحف ( قرآن ) کو مزین و مرصع کرنے لگو تو تم پر تباہی کا نزول شروع ہوگا۔
(المحلی ابن حزم: 248)
✿ علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب لوگ مسجدیں مزین کرنے لگیں گے تو ان کے اعمال خراب ہو جا ئیں گے۔
(المحلی ابن حزم: 248)
ولید بن عبد الملک نے مسجد کی آرائش کی بدعت ایجاد کی اور آج کے دور میں یہ برائی نیکی میں بدل گئی اور لوگ خوبصورت نقش و نگار والی مساجد بنواتے ہیں۔ اس سے دو طرح کے نقصانات ہیں:
① فضول خرچی واسراف کی وجہ سے گناہ کے زمرے میں آتی ہے۔ ایسی عالیشان مساجد حالانکہ اس سے پیسہ بچا کر جن علاقوں میں مساجد نہیں وہاں مساجد بنائی جاسکتی ہیں۔
② اپنا نام لکھوانا شہرت اور ریا کے زمرے میں بھی آسکتا ہے اور یہ انتہائی خطر ناک فعل ہے۔ اس لیے کہ ریا کاری شرک اصغر ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی لوگوں کا مساجد پر فخر کرنا ہے۔
(ابوداؤد: بناء مساجد: 449)
ممنوعہ صلاۃ کا بیان (اہل بدعت کی ایجاد)
پندرہویں شعبان (شب برات):
اس رات کو اہل بدعت نوافل پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں۔ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنے والی ابن ماجہ کی روایت کو محدثین نے سخت ضعیف کہا ہے۔
قضائے عمری:
یعنی آپ کی جو صلاۃ چھوٹ جائے ، یہ اہل بدعت کی ایجاد ہے، آپ صرف سونے یا بے ہوشی سے ہوش میں آنے کے بعد قضاء صلاۃ ادا کر سکتے ہیں۔
صلاة رغائب:
اہل بدعت اس صلاۃ کو ادا کرتے ہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ صلاۃ بدعت اور قابل کراہت ہے، اللہ تعالیٰ اس کے قائم اور ایجاد کرنے والے کو غارت کرے اور برباد کرے۔
صلاة تسبیح:
صلوۃ التسبیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، صلوۃ التسبیح کے بارے میں روایت کے بارے میں امام احمد فرماتے ہیں، صحیح نہیں ہے، امام احمد نے اس صلوۃ کو کر وہ قرار دیا، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اس صلوٰۃ کا ذکر تک نہیں کیا ہے اگر یہ اتنی ہی اہم عبادت ہوتی تو کسی ایک امام سے تو کم از کم ثابت ہوتی ، لہذا یہ بدعت ہے۔
رکعتوں کی تعداد:
اہل بدعت عشاء کی 17 رکعتیں پڑھتے ہیں، جو کسی ضعیف یا صحیح حدیث سے ثابت نہیں اور ہر صلاۃ میں نوافل بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ یہ نوافل کسی حدیث سے ثابت نہیں اور بیٹھ کر صلاۃ پڑھنے میں آدھا اجر کم ہو جاتا ہے اور کوے کی طرح ٹھونگیں مارتے ہیں۔ اس لیے کہ ستر و رکعت کے لیے زیادہ وقت درکار ہے۔
ہر صلاۃ سے پہلے اپنی اپنی زبانوں میں نیت کرتے ہیں۔
رفع الیدین کو بر افعل سمجھتے ہیں جب کہ ایک بہت بڑی احادیث کی تعداد ( تقریباً 210) سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔