نظام کو نظرانداز کرنا: ایک سنگین غلطی
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ نظام کو پرابلم کے طور پر دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے خیال میں شاید یہ نظام خود بخود بہتر ہوجائے گا، یا یہ کم اہمیت کا حامل ہے، یا فی الحال کسی اور مسئلے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ یہ سوچ حقیقت میں اس نظام کی طاقت کو سمجھنے میں ناکامی ہے اور اس کی اہمیت کو بہت کم اندازہ لگانے کے مترادف ہے۔
مثال: بچے کی توجہ کا مسئلہ
اس بات کو آسان مثال سے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک بچہ اپنی ماں یا باپ کی بات سننے کے بجائے ٹی وی پر چلنے والے کارٹون یا اشتہارات کی طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
- ماں باپ کا تعلق: ایک "ذات” سے "ذات” کا تعلق ہے۔
- ٹی وی کا تعلق: "ایک ذات” سے نہیں، بلکہ لاکھوں ذہین دماغوں کے باہمی ربط سے قائم ایک ادارے کا تعلق ہے۔
ٹی وی، دراصل، ایک ایسا ادارہ ہے جس میں مختلف ماہرین شامل ہوتے ہیں:
- پروڈکشن ہاؤسز کے افراد
- ماڈلز، فنکار، اور لکھاری
- اشتہاری کمپنیاں اور مارکیٹنگ ماہرین
- یونیورسٹیوں کے پروفیسرز
یہ سب مل کر اپنی مہارت اور ذہانت سے ایسے پروگرام یا اشتہارات بناتے ہیں جو بچوں کو اپنی طرف راغب کریں۔ اس کے مقابلے میں ایک فرد (جیسے والدین) ان لاکھوں دماغوں سے جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
انفرادی مقابلہ ناکافی کیوں؟
یہ واضح ہے کہ انفرادی سطح پر کی گئی جدوجہد اتنے طاقتور نظام کو شکست نہیں دے سکتی۔
- محبت کے دروس یا چند افراد کی اصلاح کے ذریعے نظام کے جبر کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
- نظام کا مقابلہ صرف نظام سے کیا جا سکتا ہے۔
- اکیلے فرد یا جماعت سے چند افراد کی اصلاح تو ممکن ہے، لیکن کروڑوں انسانوں کو موجودہ نظام کے دباؤ سے بچانا بہت مشکل ہے۔ یہ نظام، چاہے ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے، اپنے مخصوص راستے پر آگے بڑھتا رہتا ہے۔
نظام کی تبدیلی اور علمیت کا کردار
بموں سے نہیں، علم سے مقابلہ
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نظام کو صرف بموں یا طاقت کے ذریعے تباہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ نظام ایک "علمیت” پر قائم ہوتا ہے۔ علمیت کا مقابلہ ہمیشہ علمیت سے ہی ممکن ہے۔
تاریخی مثالیں: سیاسی غلبہ اور فکری چیلنجز
مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے دور میں:
- فکری چیلنجز کے مقابلے میں تھوڑی سی علمی کوشش بھی مؤثر ثابت ہوتی تھی۔
- لیکن مسلمانوں کی سیاسی مغلوبیت کے دور میں یہ مؤثر انداز میں نتیجہ خیز نہیں رہی۔
فتنہ انکارِ حدیث
- ماضی میں معتزلہ کا فکری چیلنج آج کے تنویری ڈسکورس سے زیادہ پیچیدہ تھا۔
- اس دور میں اس فتنے کو ختم کرنے میں ریاستی پشت پناہی کا بڑا کردار تھا۔
- آج کے دور میں بے مثال علمی کام ہونے کے باوجود فتنے کا اثر زائل نہ ہو سکا۔
احمد جاوید صاحب کے مطابق، ہر دور کی علمیات کا خارجی جبر انسان کی داخلی دنیا کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔
مسلمانوں کی مغلوبیت اور جبر کی صورت حال
جبر کی دو ممکنہ صورتیں
مسلمانوں کی سیاسی مغلوبیت نے ہمیں دو راستوں میں سے ایک اختیار کرنے پر مجبور کیا:
- دین کو ویسا ہی پیش کیا جائے جیسا وہ ہے، جس میں جدید انسان سے نفسانی خواہشات کی قربانی کا مطالبہ کیا جائے۔
- دین کو جدید انسان کی خواہشات کے مطابق ڈھال کر پیش کیا جائے، جو بالآخر دین کی مسخ شدہ صورت ہوگی۔
دین پر چلنے کی مشکل
دین پر عمل کرنے کی موجودہ حالت کو حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے:
"ایک وقت آئے گا کہ دین پر چلنے والا ایسے ہوگا، جیسے انگارے کو ہاتھ میں پکڑنے والا۔”
یہ جبر ایک ایسی کیفیت پیدا کرتا ہے جس میں سلیم فطرت انسان بے چین ہو جاتا ہے اور اللہ کی نصرت کے طلبگار ہوتے ہیں:
"متی نصر اللہ؟”