سوال
ہمارے گاؤں میں دو افراد کے درمیان مسجد کی امامت اور اس کی پیداوار پر تنازعہ ہے جس کی وجہ سے بہت اختلاف اور فساد پیدا ہوگیا ہے۔ گاؤں والے اس مسئلے کے حل کے لیے ایک نئی مسجد بنوانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ایک شخص کو اس مسجد کا امام مقرر کیا جا سکے اور اس کی آمدنی کا وہی مستحق ہو۔ کیا اس نیت سے دوسری مسجد بنانا جائز ہے؟ اور اس مسجد کو مسجد کہنا کیسا ہے؟
جواب
دوسری مسجد کو فتنہ و فساد اور اختلاف کو دور کرنے کی نیت سے بنانا شرعاً جائز ہے، اور ایسی مسجد کو "مسجد ضرار” نہیں کہا جائے گا۔ مسجد ضرار وہ ہوتی ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو نقصان پہنچانا یا مومنین کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا ہو، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
﴿وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾
(التوبة:۱۰۷)
’’اور جنہوں نے ایک مسجد بنائی، مخالفت اور کفر کی بنیاد پر اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لیے۔‘‘
لیکن اس معاملے میں نیت فتنہ و فساد کو ختم کرنے اور اختلافات دور کرنے کی ہے، لہٰذا یہ مسجد کسی بھی صورت میں مسجد ضرار نہیں ہوگی۔ بلکہ اگر نیت درست ہو، یعنی اصلاح اور امن و سکون کا مقصد ہو، تو اس میں اجر و ثواب ملے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من بنی مسجد للّٰہ نبی اللّٰہ لہ بیتا فی الجنة» (متفق علیہ)
’’جو اللہ کے لیے مسجد بناتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے۔‘‘
اگر نیت صالح ہو تو ایک سے زیادہ مساجد بنوانے میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مساجد کے بارے میں عمومی اجازت دی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محلہ جات میں مسجدیں بنانے کا حکم دیا اور انہیں صاف ستھرا اور خوشبودار رکھنے کی تاکید کی۔
مسجد ضرار کی تاریخی مثال
مدینہ منورہ میں منافقین نے شرپسند ابو عامر الفاسق کے کہنے پر مسجد قباء کے مقابل ایک مسجد تعمیر کی جس کے ذریعے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اور ان میں تفرقہ ڈالنا مقصود تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے ان کے ناپاک مقاصد کا علم ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد کو منہدم کرنے کا حکم دیا۔
موجودہ صورتحال میں حکم
اگر آج کسی محلے میں موجودہ مسجد کے باوجود ایک نئی مسجد انہی ناپاک مقاصد (یعنی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے یا تفرقہ ڈالنے) کے لیے بنائی جاتی ہے، تو وہ مسجد ضرار کے حکم میں شامل ہوگی اور اسے گرا دینا لازم ہوگا۔ لیکن اگر:
➊ موجودہ مسجد تنگ ہو اور اس میں تمام افراد کی گنجائش نہ ہو،
➋ یا معذور افراد کو آمدورفت میں مشکل پیش آتی ہو،
➌ یا بارش یا دیگر قدرتی رکاوٹوں کے باعث مسجد تک پہنچنا مشکل ہو،
تو ان صورتوں میں نئی مسجد بنانا جائز ہے۔