نجد اور عراق: صحیح احادیث کی روشنی میں
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

نجد سے متعلق غلط فہمیاں اور اصل حقیقت

نجد سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ نجد عراق کے بارے میں وارد صحیح احادیث کو غلط تشریح کر کے حجاز کے نجد پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وجہ سے شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی اصلاحی تحریک کو فتنے سے جوڑا جاتا ہے۔ اس مضمون میں احادیث اور علماء کے اقوال کی روشنی میں اصل حقیقت پیش کی جائے گی۔

مضمون کا خاکہ

◄ نجد کے پُرفتن ہونے کے بارے میں صحیح احادیث کا ذکر۔
◄ ان احادیث کی وضاحت دیگر صحیح احادیث کی روشنی میں۔
◄ مشہور فقہاء، محدثین اور علماء کے اقوال کی بنیاد پر تحقیق کی تصدیق۔

پہلا حصہ: صحیح احادیث کا ذکر

پہلے وہ احادیث پیش کی جاتی ہیں جو محدثین کے اصول کے مطابق صحیح ہیں اور نجد کی وضاحت کرتی ہیں۔

حدیث نمبر 1

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اَللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا”
صحابہ کرام نے عرض کی: "یا رسول اللہ! ہمارے نجد کے لیے بھی دعا کیجیے؟” نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ شام اور یمن کے لیے دعا کی، اور جب تیسری مرتبہ صحابہ نے پھر سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہیں سے طلوع ہو گا۔”
(مسند احمد: 118/2، صحیح بخاری: 7094، سنن ترمذی: 3953)

حدیث نمبر 2

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف رُخ کر کے فرمایا:
”آگاہ رہو، فتنہ یہاں سے رونما ہو گا، یہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(صحیح بخاری: 7093، صحیح مسلم: 2905)

حدیث نمبر 3

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”فتنہ یہاں سے ابھرے گا، یہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(صحیح بخاری: 7092، صحیح مسلم: 2905)

حدیث نمبر 4

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:
”خبردار! فتنے یہاں سے رونما ہوں گے، اور شیطان کا سینگ یہیں سے طلوع ہو گا۔”
(صحیح بخاری: 3279، مؤطا امام مالک: 975/2)

حدیث نمبر 5

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کفر کا سرچشمہ مشرق کی جانب ہے۔”
(صحیح بخاری: 3301، صحیح مسلم: 52)

دوسرا حصہ: صحیح احادیث کی وضاحت

ان احادیث میں "نجد” اور "مشرق” کا کیا مطلب ہے؟ اسے مزید احادیث سے واضح کیا جائے گا۔

حدیث نمبر 1

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ اپنے مبارک ہاتھ سے عراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے: خبردار، فتنہ یہاں سے نکلے گا اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(مسند احمد: 143/2)

حدیث نمبر 2

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عراق کے لیے دعا کرنے کی درخواست کی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف التفات نہ کیا اور فرمایا:
”وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے، اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(مسند شامیین: 1276، تاریخ ابن عساکر: 131/1)

حدیث نمبر 3

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اے اللہ! ہمارے صاع اور مد میں برکت دے۔ ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! ہمارے عراق کے لیے بھی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو زلزلوں اور فتنوں کی سرزمین ہے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(المعجم الکبیر للطبرانی: 384/12)

علماء کی وضاحت

علماء کی تشریحات کے مطابق "نجد” سے مراد عراق ہے، جو مدینہ کے مشرق میں واقع ہے۔

لغوی وضاحت

◄ ابن منظور افریقی: "تہامہ سے عراق تک بلند زمین کو نجد کہتے ہیں۔”
(لسان العرب: 413/3)
◄ ابن اثیر: "نجد حجاز کے باہر عراق کے نزدیک بلند زمین کا نام ہے۔”
(النہایہ: 19/5)
◄ علامہ خطابی: "مدینہ والوں کا نجد عراق اور اس کے نواحی علاقے ہیں۔ یہ مدینہ کے مشرق میں واقع ہے۔”
(إعلام الحدیث: 1274/2)

دیگر علماء کی تشریحات

◄ ابن عبد البر: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشرق کی طرف اشارہ اس لیے تھا کہ وہاں سے بڑے فتنے اٹھے، جیسے قتل عثمان، جنگ جمل، اور صفین۔ یہ سب مشرق کی طرف سے ہوا۔”
(الاستذکار: 519/8)
◄ ابن حجر عسقلانی: "فتنوں کا آغاز عراق سے ہوا، اور یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی بتا دی تھی۔”
(فتح الباری: 13/13)
◄ امام اندلس: "عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت، جنگ جمل اور صفین کے فتنے عراق کی طرف سے اٹھے۔”
(الاستذکار: 519/8)
◄ علامہ عینی: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشرق کی طرف اشارہ فتنے کی نشاندہی کرتا ہے، جس میں جنگ جمل اور خوارج کا ظہور بھی شامل ہے۔”
(عمدۃ القاری: 200/24)

خلاصہ

صحیح احادیث اور علماء کے اقوال کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ احادیث میں مذکور "نجد” سے مراد عراق ہے، نہ کہ حجاز کا نجد۔ اس لیے شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی اصلاحی تحریک کو ان احادیث کے تحت فتنہ کہنا علمی اور دینی اعتبار سے درست نہیں۔

دعا:

اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے