نبی کریم ﷺ کی رسالت اور کفار اہل کتاب کا معاملہ
تحریر: حامد کمال الدین، سہ ماہی ایقاظ

سوال کا تجزیہ:

یہ سوال دو بنیادی پہلوؤں پر مشتمل ہے:

  1. نبی کریم ﷺ کی رسالت پر ایمان نہ لانے والے کسی بھی یہودی، عیسائی، یا صابئ کا کافر اور جہنمی ہونا۔
  2. کفر کے معنیٰ اور اس کی مراد کیا ہے؟

ہم یہاں ان دونوں نکات پر الگ سے بات کریں گے تاکہ مسئلے کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔

1. نبی ﷺ پر ایمان نہ لانا:

اسلامی عقیدے کے مطابق، نبی آخر الزمان ﷺ کی بعثت کے بعد آپ پر ایمان لانا ہر انسان پر فرض ہے، خواہ وہ یہودی ہو، عیسائی ہو یا کوئی اور۔ قرآن کی واضح آیات میں یہ بات کہی گئی ہے کہ محمد ﷺ کو ماننا ہر اہلِ کتاب (یہودی و عیسائی) پر بھی فرض ہے۔ مثال کے طور پر، سورۃ البینہ کی آیت {إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ…} صاف طور پر بیان کرتی ہے کہ جو اہلِ کتاب محمد ﷺ کی رسالت کا انکار کرتے ہیں، وہ جہنمی ہیں۔

تضاد کی وضاحت: بعض لوگ سورۃ البقرہ کی آیت 62 کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ نبی ﷺ کے سننے کے باوجود ایک یہودی یا عیسائی، صرف اللہ پر ایمان اور آخرت کو ماننے کی بنیاد پر بخشش پا سکتا ہے۔ لیکن یہ نظریہ ایک واضح تضاد پیدا کرتا ہے جب ہم سورۃ البینہ اور دیگر آیات کو دیکھتے ہیں جہاں یہ واضح کیا گیا ہے کہ محمد ﷺ پر ایمان لانا ناگزیر ہے۔

یہاں ایک نقطہ غور طلب ہے: کفر کا معنیٰ صرف "تکبر” تک محدود نہیں کیا جا سکتا، بلکہ کفر کی مختلف اقسام ہیں جیسے کہ "کفرِ جحود”، "کفرِ شک”، اور "کفرِ اعراض”۔ لہٰذا، کسی بھی اہلِ کتاب کا محمد ﷺ پر ایمان نہ لانا اور آپ کی رسالت کو رد کرنا ان میں سے کسی بھی قسم کے کفر کا مرتکب ہونا ہے۔

2. کفر کا معنیٰ اور مراد:

کفر کی مختلف اقسام ہیں، جن میں سے چار اہم ہیں:

  • کفرِ استکبار: حق کے آگے تکبر کرنا۔
  • کفرِ جحود: حق کو جانتے ہوئے انکار کرنا۔
  • کفرِ شک: حق کے بارے میں شک رکھنا۔
  • کفرِ اعراض: حق سے مکمل طور پر اعراض کرنا۔

یہ کہنا کہ "کفر صرف تکبر کی صورت میں ہوتا ہے”، ایک محدود اور ناقص تعریف ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر وہ شخص جو دل سے کسی حقیقت کو نہ مانے (مثلاً اللہ کی ذات یا قیامت) کافر نہ ہوتا، حالانکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایسے افراد بھی کافر ہی ہوتے ہیں۔

تناقض سے نکلنے کا راستہ:

اس معاملے میں دو راستے ہیں:

  1. یا تو یہ مان لیا جائے کہ محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا اختیاری (optional) ہے، جو کہ واضح طور پر قرآن اور سنت کے خلاف ہے۔
  2. یا پھر یہ تسلیم کیا جائے کہ محمد ﷺ پر ایمان لانا ہر یہودی، عیسائی، یا کسی بھی شخص کے لیے فرض ہے اور جو شخص اس کا انکار کرتا ہے وہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق کافر اور دائمی جہنمی ہے۔

خلاصہ:

سورۃ البقرہ کی آیت 62 کو دیگر محکم آیات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے تاکہ کوئی تضاد پیدا نہ ہو۔

محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا کرۂ ارض پر بسنے والے ہر انسان کے لیے ضروری ہے، اور اس کا انکار کرنے والا قرآن کی رو سے دائمی جہنم کا مستحق ہے۔

کفر کی مختلف اقسام ہیں اور اسے صرف تکبر کے ساتھ مشروط کرنا درست نہیں۔

دین کی بنیادی تعلیمات میں، قرآن کے محکم احکام کو ہمیشہ متشابہات پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے