نبی کریم کی مسکینی کی دعا اور فقر سے پناہ کا مفہوم
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، ج1، ص181

سوال:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اے اللہ! مجھے حالت مسکینی میں زندہ رکھ، اور موت بھی مجھے حالت مسکینی میں دے، اور (قیامت کے دن) مساکین کی جماعت میں میرا حشر فرما۔”

دوسری طرف ایک اور حدیث میں آیا ہے:

"اے اللہ! میں کفر، فقر اور عذابِ قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔”

ان دونوں اقوال میں تطبیق کیسے دی جا سکتی ہے؟ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر سے پناہ مانگنا متعدد احادیث میں وارد ہے۔ تو کیا پہلی حدیث صحیح ہے؟

الجواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی حدیث کی تحقیق:

ہاں، یہ حدیث صحیح ہے اور متعدد محدثین نے اس کی تصحیح کی ہے۔

◄ امام ترمذی (2/60)، ابن ماجہ (2/4126)، امام ضیاء مقدسی (المختار)، اور عبداللہ بن حمید نے اسے روایت کیا ہے۔
◄ الارواء (حدیث 861) اور السلسلۃ الصحیحۃ (1/555، حدیث 308) میں بھی یہ حدیث مذکور ہے۔
◄ یہ حدیث حضرت ابو سعید خدری، انس بن مالک، عباد بن صامت اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔

امام ابن جوزی کا اعتراض اور اس کا جواب:

امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے اسے "الموضوعات” (موضوع احادیث کی کتاب) میں شمار کرکے زیادتی کی ہے، لیکن امام ابن حجر عسقلانی اور دیگر محدثین نے ان کی اس رائے کو رد کیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں "مسکینی” کا مفہوم:

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں مسکینی سے مراد وہ مسکینی نہیں لی جو فقر اور تنگدستی کی طرف اشارہ کرتی ہے، بلکہ یہاں تواضع اور انکساری مراد ہے۔”
(التلخیص الحبیر، ص 275)

امام ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس وضاحت کو قبول کیا ہے اور فرمایا:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر اور محتاجی کی دعا نہیں کی، بلکہ تواضع، انکساری اور اللہ پر بھروسے والی زندگی کی دعا کی ہے۔”

بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ:
"مسکینی سے مراد یہ نہیں کہ مجھے فقیر اور محتاج بنا دے، بلکہ اس سے مراد عاجزی، فروتنی اور انکساری کی صفت ہے۔”

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر سے پناہ مانگنے کا مفہوم:

مال کا ہونا یا نہ ہونا حقیقی غنا یا فقر کا معیار نہیں ہے۔

حقیقی غنا (مالداری) وہی ہے جو نفس میں ہو، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"غنی وہ نہیں جو زیادہ مال رکھے، بلکہ حقیقی غنی وہ ہے جو دل کا غنی ہو۔”
(صحیح بخاری، حدیث 6446، صحیح مسلم، حدیث 1051)

بہت سے فقیر اور محتاج لوگ بھی متکبر ہوتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول:
"وعائل مستکبر”
"یعنی ایک فقیر اور ضرورت مند شخص جو متکبر ہو”
(صحیح مسلم، حدیث 107، کتاب الإیمان)

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فقر خودبخود عاجزی پیدا نہیں کرتا۔

بعض اہل علم نے کہا ہے:
"مسکینی کی دعا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مال سے بے رغبتی اور دنیاوی مال و دولت کے پیچھے نہ بھاگنے کی دعا تھی، کیونکہ زیادہ مال انسان کو حد کمال سے دور لے جاتا ہے۔”
(مرقاۃ المفاتیح 10/11)

نتیجہ:

◄ "مسکینی” سے مراد تواضع، انکساری اور عاجزی ہے، نہ کہ غربت اور محتاجی۔
◄ "فقر سے پناہ مانگنے” کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی غربت سے محفوظ رکھے جو انسان کو کفر اور دین سے دور لے جائے۔
◄ دونوں احادیث میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔

واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1