سوال :
کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنات کی طرف بھی مبعوث ہیں؟
جواب :
یہ مسلمانوں کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن و انس کی طرف مبعوث ہوئے اور جن بھی شریعت محمدیہ کے پابند ہیں۔
اجماع امت :
◈ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463ھ) لکھتے ہیں :
ولا يختلفون أن محمدا صلى الله عليه وسلم رسول إلى الإنس والجن نذير وبشير، هذا مما فضل به على الأنبياء أنه بعث إلى الخلق كافة؛ الجن والإنس، وغيره لم يرسل إلا بلسان قومه صلى الله عليه وسلم، ودليل ذلك ما نطق به القرآن من دعائهم إلى الإيمان بقوله فى مواضع من كتابه: يا معشر الجن والإنس.
”اس بات میں مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں اور جنوں کی طرف بشیر و نذیر بنا کر معبوث فرمائے گئے ہیں. یہ ایسی خصوصیت ہے، جس کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے انبیاء پر فضیلت حاصل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مخلوقات یعنی جنوں اور انسانوں کی طرف معبوث فرمایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ باقی انبیا اپنی قوموں کی زبان ہی میں معبوث فرمائے گئے . اس کی دلیل قرآن کریم کے کئی مقامات پر ایمان کی طرف دعوت دینے کے لیے استعمال کیے ہوئے یہ الفاظ ہیں : يا معشر الجن والانس ”اے جنو اور انسانو !“۔“ [ التمهيد لما فى المؤطإ من المعاني والأسانيد : 117/11 ]
◈ شیخ الاسلام، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں :
و محمد صلى الله عليه وسلم مبعوث الي الثقلين باتفاق المسلمين.
”مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنوں اور انسانوں کی طرف معبوث کیے گئے ہیں.“ [الفرقان بين أولياء الرحمٰن و أولياء الشيطان : 192 ]
قرآن کریم :
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ ﴿﴾ قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ ﴿﴾ يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّـهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
”(اے نبی !) جب ہم نے آپ کی طرف قرآن کریم سننے کے لئے جنوں کی ایک جماعت بھیجی. جب وہ اس کو حاضر ہوئے، تو انہوں نے کہا : خاموش ہو جاؤ، جب تلاوت ہو چکی، تو وہ اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن کر لوٹے . انہوں نے کہا : اے ہماری قوم ! ہم نے وہ کتاب سنی ہے، جو موسیٰ پر نازل ہوئی ہے، وہ پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور حق بات اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اے ہماری قوم ! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی دعوت قبول کر لو اور اس پر ایمان لے آؤ، اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔ اور تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے گا۔“
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ (384-458ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
فبان بقولهم : ﴿يا قومنا اجيبوا داعى الله﴾ أنهم عرفوا أنه مبعوث إليهم، وسمعوا دعوته إياهم، والذين لم يحضروا من جملتهم، فلذلك قالوا: ﴿يا قومنا اجيبوا داعى الله وآمنوا به﴾ ، فقالوا : آمنا به.
”جنوں کی اس بات کہ اے ہماری قوم اللہ کے داعی کی دعوت قبول کر لو، سے واضح ہوتا ہے کہ جنوں کو معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کی طرف بھی مبعوث ہوئے۔ جو جن وہاں آئے اور جو نہیں آئے تھے، سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو سنا۔ اسی لیے انہوں نے کہا تھا : اے ہماری قوم اللہ کے داعی کی دعوت قبول کر کے اس پر ایمان لے آؤ۔ تب جنوں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں.“ [شعب الإيمان : 67/3 ]
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (701-774ھ) فرماتے ہیں :
فيه دلالة على أنه تعالى أرسل محمدا صلوات الله وسلامه عليه إلى الثقلين الإنس والجن حيث دعاهم إلى الله، وقرأ عليهم السورة التى فيها خطاب الفريقين، وتكليفهم ووعدهم ووعيدهم، وهى سورة الرحمن؛ ولهذا قال : ﴿اجيبوا داعى الله وآمنوا به .﴾
”اس آیت میں یہ وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں اور جنوں دونوں مخلوقات کی طرف معبوث فرمایا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اللہ کی طرف بلایا اور ان پر وہ سورت، یعنی سورہ رحمٰن تلاوت کی، جس میں انسانوں اور جنوں دونوں کو خطاب کیا گیا ہے اور ان دونوں سے نعمتوں کا وعدہ اور عذابوں کی وعید کی گئی ہے . اسی لیے جنوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کے داعی کی آواز پر لبیک کہو.“ [ تفسير ابن كثير : 588/5 ]
✿ ایک اور مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا ﴿﴾ يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا
”(اے نبی ! ) فرما دیجئیے : میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن کریم سنا، تو کہنے لگے : ہم نے عجیب قرآن سنا ہے، جو ہدایت کی طرف راہنمائی کرتا ہے، چنانچہ ہم اس پر ایمان لے آے ہیں۔ ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی ہرگز شریک نہیں کریں گے۔“
✿ ایک اور مقام پر فرمایا :
وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ [6-الأنعام:19]
”میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے، تاکہ تمہیں بھی ڈراؤں اور ان لوگوں کو بھی جن تک یہ پہنچے گا۔ “
قرآنِ کریم چونکہ جنوں تک بھی پہنچا ہے، لہٰذا وہ بھی اس کے مخاطبین ہیں اور اس پر عمل کے پابند ہیں۔
✿ فرمانِ الہٰی ہے :
سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلَانِ [55-الرحمن:31]
”اے جنو اور انسانو ! عنقریب ہم تمہارے لیے فیصلہ کریں گے۔“
✿ ایک مقام پر یوں ارشاد ہوا :
يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ [6-الأنعام:130]
”اے جنو اور انسانوں کی جماعت ! کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟“
◈ علامہ احمد قسطلانی (851-923ھ) لکھتے ہیں :
والدليل على ذلك قبل الإجماع الكتاب والسنة، قال تعالىٰ : ﴿لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا﴾ [الفرقان 25 : 1] ، وقد أجمع المفسرون على دخول الجن فى هذه الآية، وهو مدلول لفظها، فلا يخرج عنه الا بدليل .
”امت کا اجماع ہونے سے پہلے کتاب و سنت اس بات پر دلیل تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا﴾ [الفرقان 25 : 1]
(تاکہ یہ نبی سارے جہانوں کے لیے ڈرانے والا بن جائے)۔ مفسرین کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ جن بھی اس آیت میں شامل ہیں. یہ آیت کریمہ کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے۔ جنوں کو اس آیت سے کسی دلیل کے ساتھ ہی خارج کیا جا سکتا ہے۔“ [المواهب اللدنية بالمنح المحمدية 353/2 ]
سنت
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
فقلت : ما بال العظم والروثة؟ قال : هما من طعام الجن، وإنه أتاني وفد جن نصيبين، ونعم الجن، فسألوني الزاد، فدعوت الله لهم أن لا يمروا بعظم، ولا بروثة إلا وجدوا عليها طعاما .
’’میں نے عرض کیا : ( اللہ کے رسول ! ) ہڈی اور گوبر کا کیا معاملہ ہے (کہ اس سے استنجا سے روکا گیا ہے ؟)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ دونوں چیزیں جنوں کا کھانا ہیں۔ نصیبین بستی کے جنوں کا ایک وفد میرے پاس آیا تھا، یہ بہت ہی اچھے جن تھے۔ انہوں نے مجھ سے کھانا مانگا، تو میں نے ان کے لئے اللہ تعالیٰ
سے دُعا کی کہ وہ جس ہڈی یا گوبر کے پاس سے گزریں، اس پر وہ کھانا پائیں۔ “ [صحيح البخاري : 3860 ]
الحاصل :
جنات شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکلّف ہیں. لہٰذا معتزلہ کا یہ کہنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کی طرف مبعوث نہیں ہوئے۔ قرآن و حدیث اور اجماع مسلمین کی تکذیب صریح کفر ہے۔