نبیﷺ کے فیصلہ پر ناخوشی کیوجہ سے حضرت عمر رض کا گردن اڑانا
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

ضمرہ سے مروی ہے کہ دو آدمیوں نے اپنا جھگڑا نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے حق والے کے حق میں فیصلہ کر دیا تو جس کے خلاف فیصلہ ہوا اس نے کہا مجھے یہ فیصلہ قبول نہیں، اس کے ساتھ والے نے کہا تو کیا چاہتا ہے، اس نے کہا میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم فیصلہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کرائیں۔ وہ دونوں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے تو جس کے حق میں فیصلہ ہوا تھا اس نے کہا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی فیصلہ کرایا ہے اور آپ نے میرے حق میں فیصلہ کیا تھا یہ سن کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم دونوں اس فیصلے کو قبول کرو جو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مگر جس کے خلاف فیصلہ ہوا تھا اس نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کرائیں گے۔ وہ دونوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے تو جس کے حق میں فیصلہ ہوا تھا اس نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کروایا آپ نے میرے حق میں فیصلہ کیا ہے۔ مگر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کیا یہ بات اسی طرح ہے۔ تو اس نے بھی اس کی تصدیق کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر میں چلے گئے واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں تلوار تھی آتے ہی اس شخص کا سر تن سے جدا کر دیا جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا تو اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
« فلا وربك لايومنون ……. » [النساء، آيت :65]

تحقیق الحدیث :

اسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [الدر المنشور 322/2 تفسير ابن ابي حاتم 994/3]
یہ واقعہ کئی سندوں سے مروی ہے مگر اس کی تمام سندیں ضعیف ہیں۔ ایک سند میں عبداللہ بن لہیعہ راوی ضعیف ہے اور اس کے ساتھ یہ مرسل بھی ہے۔
اس کی دوسری سند بھی مرسل (ضعیف) ہے کیونکہ ضمرہ کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملا قات ثابت نہیں۔
تیسری سند جو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہے اس میں کلبی متروک ہے اور باذام ابو صالح کا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سماع ثابت نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: