نبیﷺ کے آثار سے تبرک کے بارے میں سلف کا موقف
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے آثارِ مبارکہ سے تبرک حاصل کرنا صرف صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے زمانے تک محدود رہا۔ آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد، یہ آثار دنیا سے ناپید ہو چکے ہیں اور ان کا وجود باقی نہیں رہا۔ بعض لوگوں نے نبی اکرم سے منسوب جھوٹے آثار گھڑ لیے ہیں جن کا کوئی معتبر ثبوت یا سند موجود نہیں۔ ایسی دروغ گوئی پر نبی کریم کی حدیث کا اطلاق ہوتا ہے: "جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے۔” (صحیح البخاری: 107، صحیح مسلم: 3)

جس طرح نبی کے کسی قول، فعل یا سکوت کو آپ کی طرف منسوب کرنے میں بہت احتیاط ضروری ہے، اسی طرح کسی جھوٹے اثر مثلاً نعلین، بال، جبہ یا پگڑی کو نبی کی طرف منسوب کرنا بھی اسی وعید میں شامل ہے۔ ان خودساختہ تبرکات کو فروغ دینے والے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔

اگر کوئی شخص چودہ سو سال بعد نبی کے تبرکات کا دعویٰ کرتا ہے، تو اسے اپنے دعوے کی مضبوط سند پیش کرنی چاہیے۔ محض زبانی دعویٰ کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ یہ نعلین یا بال نبی کے ہیں، تو کیا صرف اس بات پر ان کی تعظیم کی جائے یا اس دعوے کی صحیح سند بھی طلب کی جائے؟ اگر وہ سند فراہم نہ کرے تو یہ نبی کی طرف جھوٹ منسوب کرنے کے مترادف ہے۔

یہ درست ہے کہ اگر کوئی چیز نبی سے منسوب ثابت ہو جائے تو اس کی برکت کا انکار کرنا سراسر گمراہی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ نبی کے معاملے کو اتنا معمولی سمجھتے ہیں کہ اگر ان سے دلیل کا مطالبہ کیا جائے تو فوراً گستاخی کا فتویٰ دے دیتے ہیں۔

آثار نبویہ کے ناپید ہونے کی حقیقت واضح ہے۔ رسول اللہ کا منبر 654 ہجری میں جل گیا تھا، اور حضرت یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا جنازہ نبی کی چارپائی پر اٹھایا گیا تھا، جس کا بعد میں کوئی سراغ نہیں ملا۔ حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کے پاس نبی کی چھڑی مبارک تھی، جو ان کے ساتھ دفن کر دی گئی۔ (مسند احمد: 486/3)

اسی طرح نبی کی انگوٹھی جس پر "محمد رسول اللہ” کندہ تھا، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم تک پہنچی، مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے کنویں میں گر گئی اور دوبارہ نہ مل سکی۔ (صحیح البخاری: 5866، 5879)

بیعت رضوان والے درخت کا معاملہ بھی قابل ذکر ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم اگلے سال وہاں آئے تو کوئی بھی اس درخت کی نشاندہی نہ کر سکا۔ اللہ کی رحمت سے وہ درخت لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تاکہ اس کی تعظیم نہ کی جائے اور کوئی اس کو نفع و نقصان کا مالک نہ سمجھ لے۔ (صحیح البخاری: 2958)

علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ کے مطابق، نبی کے آثار سے تبرک حاصل کرنا درست ہے لیکن اس کا ثبوت مستند روایات سے ہونا چاہیے۔ غیر ثابت شدہ آثار کو نبی کی طرف منسوب کرنا ایسا ہی ہے جیسے بے سند حدیث پر عمل کرنا، جو سخت وعید کا باعث ہے۔ (مجموع الفتاوی: 175/3، 176)

بریلوی عالم، مفتی محمد شریف الحق امجدی نے بھی لکھا ہے کہ کسی مسجد میں رکھی کسی چیز کا نبی سے منسوب ہونا، بغیر ثبوت کے، قبول نہیں کیا جا سکتا۔ (فتاویٰ شارح بخاری: 479/1)

موجودہ آثار اور اہل علم کی آراء

شیخ الاسلام، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی نعلین نبی کریم کی طرف منسوب ہو، تب بھی اس کا احترام اس وقت کیا جا سکتا ہے جب اس کی نسبت نبی سے ثابت ہو۔ لیکن اگر اس کی صحت کا علم نہ ہو یا یہ ثابت ہو کہ وہ جھوٹے ہیں، جیسے بعض جھوٹے لوگ پتھر میں نبی کے قدموں کا نشان بنا کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، تو ان کی تعظیم کیسے جائز ہو سکتی ہے؟ (اقتضاء الصراط المستقیم: 337/2)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ (673-748ھ) فرماتے ہیں کہ نبی کریم کے آثار اگر کسی مستند سند کے ساتھ ثابت ہو جائیں، جیسے بال، جوتے کے تسمے یا برتن کا ٹکڑا جس میں آپ نے پانی پیا ہو، اور کوئی امیر شخص ان آثار کے حصول کے لیے بڑی رقم خرچ کر دے تو اسے فضول خرچی یا بے وقوفی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (سیر اعلام النبلاء: 42/4)

یہ واضح ہے کہ علمائے کرام نبی کے تبرکات کے معاملے میں سند کی صحت کو بنیادی شرط قرار دیتے ہیں، جبکہ جاہل لوگ بغیر ثبوت کے دعوے کرتے ہیں۔

علامہ البانی رحمہ اللہ (1322-1420ھ) لکھتے ہیں کہ ہم نبی کریم کے آثار سے تبرک لینے کے جواز کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس کے لیے کچھ شرائط ہیں، جیسے صحیح اسلامی ایمان ہونا۔ نیز تبرک کے لیے نبی کے اصل آثار کا ہونا ضروری ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی کے بال، لباس اور دیگر آثار دنیا سے ختم ہو چکے ہیں اور اب ان کا ثبوت پیش کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے ہمارے زمانے میں تبرک کا معاملہ محض نظریاتی ہے اور اس پر زیادہ بات کرنا غیر ضروری ہے۔ (التوسل و اقسامہ: 144)

بریلوی موقف

احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں کہ تبرکات کے لیے سند کی کوئی ضرورت نہیں، اور ان کی تحقیق و تنقیح سے باز رہنا محرومی اور کم نصیبی ہے۔ ان کے مطابق، صرف نبی کے نام سے کسی شے کا معروف ہونا ہی کافی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ: 412/21)

احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں یہ مشہور ہونا کہ یہ نبی کے تبرکات ہیں، کافی ہے اور اس کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں۔ (جاء الحق: 376/1)

تاہم، اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ نبی کی طرف کسی بھی چیز کو منسوب کرنا دلیل اور ثبوت کا متقاضی ہے۔ نبی کی طرف جھوٹ منسوب کرنا حدیث کے مطابق جہنم میں جانے کا باعث ہے۔ (صحیح البخاری: 1291، صحیح مسلم: 3)

تبرکات کا نکاح سے موازنہ

احمد یار خان نعیمی نے یہ بھی کہا ہے کہ نکاح اور تبرکات کے ثبوت میں صرف شہرت ہی کافی ہے، جیسا کہ نکاح کے گواہوں کے بغیر بھی لوگ مانتے ہیں کہ یہ شخص فلاں کا بیٹا ہے۔ (جاء الحق: 378/1)

اس پر علمائے کرام کا موقف ہے کہ نبی کریم کی طرف کسی چیز کی نسبت کو عام دعوؤں کے ساتھ ملانا درست نہیں۔ نکاح اور ولدیت کا ثبوت شریعت میں گواہوں سے ملتا ہے، جبکہ تبرکات کے معاملے میں ثبوت کی عدم موجودگی کے باعث جھوٹے دعوے کرنا ناقابل قبول ہے۔

جھوٹے نقشِ پا کا قصہ

حالیہ دنوں میں ایک واقعہ پیش آیا جس میں ضلع چکوال کے موضع ’’دھرابی‘‘ میں ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ نبی کریم نے اس کے گھر میں تشریف لائی اور آپ کے قدم مبارک کا نشان اس کے گھر میں باقی رہ گیا ہے۔ اس دعوے پر قبوری لوگ قافلوں کی صورت میں وہاں پہنچنے لگے، مگر جلد ہی اس جھوٹ کا پردہ فاش ہو گیا۔ ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ تبرکات کا معاملہ دین اور عقیدہ کا حصہ ہے، اور اسے جھوٹے لوگوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ہمیں اللہ کا خوف اور قیامت کے دن جواب دہی کا احساس ہمیشہ مدِنظر رکھنا چاہیے، ورنہ یہ جھوٹے دعوے قیامت کے دن وبال بن جائیں گے۔

تبرکات نبویہ کی تشبیہ

نبی کے آثار سے تبرک حاصل کرنا حق ہے، لیکن اسے صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے طریقے کے مطابق حاصل کیا جانا چاہیے۔ آج کل بعض لوگوں نے دین میں غلو کرتے ہوئے نبی کے تبرکات کی شبیہات تیار کی ہیں، جیسے کہ نعلینِ کریمین کی مصنوعی تصاویر جو جھنڈیوں پر بنائی جاتی ہیں۔

سب سے پہلے تو جن نعلین کی نسبت نبی کی طرف کی گئی ہے، وہ ثابت نہیں ہیں۔ دوسرا، ان مصنوعی تصاویر اور شبیہات سے تبرک حاصل کرنا بدعت ہے۔ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے دور میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی، لہذا یہ ایک نئی ایجاد ہے۔

نبی سے محبت کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کے آثار کی فرضی تصاویر بنا کر ان کی وہی تعظیم کی جائے جو اصلی تبرکات کی نہیں کی جاتی۔ یہ شبیہات ایک منکر کام ہیں اور شرک کا راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہیں۔ اگر کوئی ان غالیوں سے دلیل مانگے تو اسے گستاخ قرار دے دیا جاتا ہے، اور اگر کوئی ان جھوٹی تصاویر کو ختم کر دے تو اسے بھی گستاخِ رسول کہہ کر ہنگامہ برپا کر دیا جاتا ہے۔

یہ لوگ حقائق کو پسِ پشت ڈال کر فرضی تصاویر کے پیچھے لوگوں کو لگانا چاہتے ہیں۔

آثار نبویہ کی شبیہات اور اسلاف

احمد رضا خان بریلوی نے لکھا کہ تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں نبی کی نعلین مبارک کی تصویر اور مزارِ اقدس کا نقشہ رائج تھا اور علماء و صالحین ان کی تعظیم کرتے تھے۔ (فتاویٰ رضویہ: 456/2) لیکن یہ بات بالکل غلط اور جھوٹ ہے، اور اس کا ثبوت قیامت تک نہیں دیا جا سکتا۔ سلف صالحین پر اس طرح کا جھوٹ باندھنا انتہائی قابل مذمت ہے۔

نعلین کی شبیہ پر ایک دلیل کا جائزہ

بعض لوگ نعلین کی شبیہ کے جواز پر ایک روایت پیش کرتے ہیں جو حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کی ہے، جس میں ایک شخص نے نبی کے نعلین کی شبیہ تیار کرنے کا ذکر کیا ہے۔ لیکن اس روایت کے تمام راوی مجہول ہیں اور ان کی توثیق موجود نہیں، لہذا یہ ایک جھوٹا سلسلہ ہے جو بعض غالیوں نے دین میں داخل کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ تھی ان لوگوں کی کل دلیل، جو نبی کی نعلین کی شبیہات بنانے کے حق میں دی جاتی ہے، جس کا آپ نے جائزہ دیکھ لیا ہے۔

قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ

نبی کریم کی قبر مبارک یا حجرہ عائشہ کی شبیہ بنا کر اس کی تعظیم کرنا ایک قبیح بدعت ہے، اور اس عمل کی ابتدا کس نے کی، اس کا کوئی تاریخی حوالہ موجود نہیں ہے۔ کسی مستند مسلمان عالم سے اس کا جواز ثابت نہیں۔ اس کے باوجود احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں: "روضہ مبارکہ کا نقشہ بنانا جائز ہے اور اس پر اجماع ہے۔” (فتاویٰ رضویہ: 439/21) لیکن یہ دعویٰ بالکل جھوٹا ہے۔ نہ صرف اجماع کا کوئی وجود نہیں، بلکہ اس کا جواز بھی کسی سچے عقیدہ رکھنے والے مسلمان سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

قبر نبوی سے تبرک اور سلف صالحین کا نظریہ

نبی کریم کی قبر مبارک کو مبارک ضرور سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں آپ مدفون ہیں، لیکن یہ تبرکات میں شمار نہیں ہوتی۔ صحابہ کرام اور خیرالقرون کے کسی بھی شخص نے قبر نبوی سے تبرک لینے کا جواز پیش نہیں کیا۔ بعض لوگ بلا ثبوت قبر سے تبرک لینے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے کہ قاضی ابو الحسن سبکی نے کہا کہ نیک فوت شدگان کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے، تو انبیاء کی قبروں سے کیوں نہیں؟ (شفاء السقام، ص: 312)

تاہم، دین اسلام میں یا سلف صالحین کے زمانے میں کسی بھی قبر سے تبرک لینے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ انبیاء کرام کی قبروں سے تبرک کا کوئی جواز نہیں، اور یہ دین میں ایک نئی بات ہے۔ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین سے ایسا کوئی عمل ثابت نہیں ہے۔

قبر نبوی سے تبرک لینے کا مسئلہ

نبی کریم کی قبر کو عام مسلمانوں کی قبروں کے برابر سمجھنے کا الزام صرف بد گمانی پر مبنی ہے۔ کوئی سچا مسلمان یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ نبی کی قبر اور ایک عام مسلمان کی قبر برابر ہیں؟ ہاں، یہ بات درست ہے کہ نبی کی قبر مبارک ہے، لیکن تبرک کے لیے نہیں۔ اس بات میں کسی قسم کی جہالت یا بے ادبی شامل نہیں۔

نقشِ نعلین سے تبرک

نبی کریم کے نعلین سے تبرک لینا جائز ہے، لیکن وہی نعلین جو حقیقتاً آپ کے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس نبی کے نعلین محفوظ تھے، اور انہوں نے ان کا تبرک لیا تھا۔ (صحیح بخاری: 3107) لیکن بعد میں یہ نعلین کس کے پاس گئے، اس کا کوئی معتبر حوالہ نہیں ملتا۔

آج کل بعض لوگ نعلین کی شبیہات بنا کر ان سے تبرک حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، جو بالکل غلط اور خودساختہ ہے۔ یہ لوگ فرضی نقشے بنا کر جھوٹے فوائد بتاتے ہیں، جیسے کہ یہ نقشے رکھنے سے لشکر فتح یاب ہو گا، قافلہ محفوظ رہے گا، اور حادثات سے بچاؤ ہو گا۔ یہ تمام باتیں بے بنیاد ہیں اور دین میں داخل کی گئی من گھڑت بدعات ہیں۔

منسوب تبرکات کی زیارت

آج کل نبی کریم کی طرف منسوب جھوٹے تبرکات کی زیارت کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان کی زیارت کے لیے مخصوص مہینے، تاریخیں اور مواقع کا اعلان ہوتا ہے اور لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے اشتہارات چھاپے جاتے ہیں۔ ان جھوٹے تبرکات کو بوسہ دیا جاتا ہے، انہیں جسموں پر ملا جاتا ہے اور ان سے خیر و برکت اور اجر و ثواب کی امید رکھی جاتی ہے۔

اس عمل میں کئی اخلاقی اور شرعی خرابیاں بھی موجود ہیں۔ مرد و زن کا اختلاط، بے حیائی اور بے پردگی عام ہوتی ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے ہوتے ہیں، تصاویر کھینچی جاتی ہیں، اور دین کے نام پر بے غیرتی اور عریانی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ عورتیں بن ٹھن کر نیم برہنہ حالت میں گھروں سے نکلتی ہیں، جو کہ اسلامی اصولوں کے صریح خلاف ہے۔

برصغیر کے حنفی عالم عبدالحی لکھنوی کا بیان

عبدالحی لکھنوی نے اس مسئلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ نبی کے موئے مبارک کی زیارت کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کے لیے خاص تاریخیں مقرر کرتے ہیں، وہ بدعات اور غیر شرعی کاموں کے پابند ہیں۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے موئے مبارک کا پانی بغیر کسی خاص تقریب کے مریضوں کے لیے بھیجا، نہ کوئی مجلس منعقد کی، نہ کوئی تاریخ مقرر کی اور نہ ہی قرآن خوانی کا اہتمام کیا۔ اس کے برعکس، آج کے لوگ زیارت کے لیے مخصوص تاریخیں اور مہینے مقرر کر کے بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں۔ (مجموع الفتاویٰ: 177/3)

منبر رسول سے تبرک

نبی کریم کا منبر مبارک تھا کیونکہ اسے نبی کے جسد مبارک کا لمس نصیب ہوا تھا۔ بعض صحابہ کرام جب مسجد خالی ہوتی تو منبر کو مس کرتے اور دعا کرتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: 120/4) لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ تبرکات صرف نبی کریم کے منبر تک محدود تھے، کسی اور بزرگ یا نیک شخص کے منبر یا بیٹھنے کی جگہ کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔

قرب رسول میں دفن ہونے کی خواہش

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خواہش تھی کہ انہیں اپنے حجرہ میں نبی اور اپنے والد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ دفن کیا جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی مقام پر دفن ہونے کی اجازت مانگی اور انہیں اجازت مل گئی۔ تاہم، یہ خواہش حصول تبرک کی غرض سے نہیں بلکہ شرف و عزت کے لیے تھی، کیونکہ نبی اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ دفن ہونے کا شرف ایک بہت بڑی عزت تھی۔ (صحیح بخاری: 1392)

نقشِ نعلین سے تبرک

نعلین مبارک کا نقشہ بنانا اور اس سے تبرک حاصل کرنا بھی ایک بدعت ہے۔ نعلین مبارک سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ تھے، لیکن ان کے بعد یہ نعلین کہاں گئے، اس کا کوئی معتبر حوالہ نہیں ملتا۔ آج کل جو لوگ نعلین کا نقشہ بنا کر اسے نبی کریم کی نعلین سے منسوب کرتے ہیں، یہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ یہ عمل دین میں مداخلت اور نئی بدعات کا شامل کرنا ہے، جو کہ قطعی طور پر غیر شرعی ہے۔

①سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک روایت

بعض لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنی غسل اور دفن کی وصیت کی۔ روایت کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم کے حجرے سے اجازت طلب کی اور دروازہ کھل گیا، جس سے یہ ظاہر کیا گیا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نبی کے قریب دفن کرنے کی اجازت ملی۔

روایت کی تحقیق

یہ روایت جھوٹی اور باطل ہے۔ اس کے بعد خود حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اس پر تبصرہ کیا ہے:

حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ منکر روایت ہے، اور اس کے راوی ابو طاہر موسیٰ بن محمد بن عطا مقدسی اور عبدالجلیل مجہول ہیں۔” (تاریخ دمشق: 436/30)

حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "اس روایت کی سند میں ابو طاہر موسیٰ بن محمد بن عطا مقدسی جھوٹا ہے اور عبدالجلیل مجہول ہے۔” (الخصائص الکبریٰ: 492/2)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ابو طاہر موسیٰ بن محمد بن عطا مقدسی جھوٹا اور عبدالجلیل مجہول ہے۔” (لسان المیزان: 391/3) نیز فرماتے ہیں: "یہ روایت باطل ہے۔” (لسان المیزان: 391/3)

حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اسے "انتہائی کمزور” قرار دیا ہے۔ (الخصائص الکبریٰ: 492/2)

✔ حدیث سیّدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ

سیّدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے اپنی وفات سے پانچ دن پہلے فرمایا:

"میں اللہ کے نزدیک اس بات سے بری ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے، جس طرح اس نے ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا تھا۔ اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا، تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیل بناتا۔ خبردار! تم سے پہلے لوگوں نے اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا، تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔”(صحیح مسلم: 532)

✿تبرکات کے حوالے سے مقامات کا تبرک

بعض لوگ نبی کریم کے نماز پڑھنے یا قیام کرنے والی جگہوں سے تبرک حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ ان جگہوں سے تبرک حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اس کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔ صحابہ کرام بھی صرف نبی کی اتباع میں بعض مقامات پر نماز ادا کرتے تھے، جیسے کہ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا مخصوص ستون کے سامنے نماز پڑھنا، کیونکہ نبی وہاں نماز ادا کیا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری: 502)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حوالے سے فرماتے ہیں کہ وہ جگہیں جہاں نبی کریم نماز پڑھتے تھے یا دعا کرتے تھے، وہاں پر نماز پڑھنا سنت ہے اور ان مقامات کی اتباع کرنا درست ہے۔ لیکن جہاں نبی نے محض اتفاقاً نماز پڑھی ہو، وہاں تبرک کے لیے نماز پڑھنا سنت نہیں، بلکہ صرف اتباع کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔ (اقتضاء الصراط المستقیم: 276/2)

② سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب ایک روایت

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم کی اتباع میں وہی اعمال کیے جو آپ نے ادا کیے تھے، مثلاً وہ انہی مقامات پر نماز ادا کرتے جہاں نبی نے نماز پڑھی تھی، اور انہوں نے اس عمل کو تبرک کے لیے نہیں بلکہ صرف اتباعِ سنت کے لیے کیا۔ ان کا مقصود نبی کریم کی پیروی اور آپ کی اقتداء تھی، نہ کہ تبرک حاصل کرنا۔ (صحیح بخاری: 506)

✔روایت کا علمی و تحقیقی جائزہ

یہ روایت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے، جس میں نبی کریم نے ایک درخت کے نیچے ستر نبیوں کی ولادت کا ذکر کیا ہے۔ تاہم، اس روایت کی سند اور اس کے راویوں کی تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ روایت ضعیف اور منکر ہے۔

سند اور راویوں کی تحقیق

◈محمد بن عمران انصاری:

مجہول راوی ہے۔ امام ابن حبان نے اسے توثیق دی ہے (الثقات: 411/7)، لیکن دیگر محدثین نے اسے غیر معتبر قرار دیا ہے۔

حافظ ذہبی فرماتے ہیں: "اس کا اور اس کے باپ کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔” (میزان الاعتدال: 672/3)

حافظ ابن حجر نے بھی اسے مجہول قرار دیا ہے۔ (تقریب التہذیب: 6198)

◈عمران انصاری:

محمد بن عمران کا باپ بھی مجہول ہے۔

حافظ ابن عبدالبر فرماتے ہیں: "میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے؟” (التمھید: 64/13)

حافظ ذہبی نے اسے بھی مجہول اور روایت کو منکر قرار دیا ہے۔ (میزان الاعتدال: 245/3)

دیگر اسناد کا جائزہ

❀مسند ابی یعلیٰ کی سند:

اس سند میں ابو معاویہ اور سلیمان بن مہران دونوں مدلس ہیں، اور سماع کی تصریح نہیں کی گئی۔

عبداللہ بن ذکوان نے سیدنا عبداللہ بن عمر کا زمانہ نہیں پایا، جس سے یہ سند منقطع بھی ہے۔

❀اخبار مکہ للفاکہی کی سند:

اس میں سفیان بن عیینہ اور محمد بن عجلان دونوں مدلس ہیں اور سماع کی تصریح نہیں کی گئی۔

مزید یہ کہ اس سند میں ایک مبہم شخص بھی شامل ہے، جس سے سند مزید مشکوک ہو جاتی ہے۔

③حدیث سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ

سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق، انہوں نے نبی کریم سے درخواست کی کہ آپ ان کے گھر آ کر ایک مخصوص جگہ نماز ادا کریں تاکہ وہ اس جگہ کو اپنے لیے مصلیٰ بنا سکیں۔ نبی کریم نے اس درخواست کو قبول کیا اور وہاں جا کر نماز ادا فرمائی۔ (صحیح بخاری: 1186)

اس روایت کا تبرک کے حوالے سے جائزہ

اس روایت سے بعض لوگ تبرک کا مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اس روایت میں تبرک کا کوئی ذکر نہیں۔ صحابی کی خواہش یہ تھی کہ نبی کریم ان کے گھر ایک جگہ پر نماز پڑھیں تاکہ وہ اس جگہ کو مستقل نماز کی جگہ بنا سکیں۔ اس سے تبرک کا استنباط کرنا درست نہیں، کیونکہ اس کا مقصد نبی کے قدموں سے برکت لینا نہیں تھا بلکہ ایک نماز کی جگہ متعین کرنا تھا۔

④سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے منقول روایت

سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے منقول روایت میں نبی کریم کے سفر معراج کا ذکر ہے، جس میں جبریل علیہ السلام نے نبی کو مختلف مقامات پر نماز پڑھوائی۔ ان مقامات میں یثرب (مدینہ)، مدین (شجرۂ موسیٰ)، اور بیت لحم شامل تھے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: 282/7)

اس روایت کا تبرک کے حوالے سے تجزیہ

نبی کریم کو مقام کا علم نہ ہونا: نبی کریم نے ان مقامات پر نماز ادا کرتے وقت نہیں جانا کہ یہ کون سی جگہیں ہیں۔ جبریل علیہ السلام نے بعد میں ان مقامات کی نشاندہی کی۔ اگر تبرک کا مقصد ہوتا، تو نبی کو پہلے سے ان مقامات کا علم ہوتا اور تبرک کی نیت سے وہاں نماز ادا کی جاتی۔

یثرب کی حالت: یثرب (مدینہ) اس وقت بیماریوں کی جگہ تھی، اور اس وقت اسے برکت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ ہجرت کے بعد نبی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مدینہ کو بابرکت بنایا، لہذا اس وقت وہاں نماز پڑھنے کو تبرک سے جوڑنا درست نہیں۔

تبرک کا غلط مفہوم: نبی خود سب سے بابرکت شخصیت تھے، اور ان مقامات پر نماز پڑھنا نبی کے لیے تبرک حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں تھا، بلکہ یہ مقامات بعد میں جبریل علیہ السلام کے بتانے سے متبرک معلوم ہوئے۔

⑤سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک روایت

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم کو جب معراج کی رات بیت المقدس لے جایا گیا، تو جبریل علیہ السلام آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قبر اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے ولادت پر لے گئے، جہاں آپ نے دو رکعتیں نماز ادا کیں۔ (المجروحین لابن حبان: 197/1)

تبصرہ

یہ روایت من گھڑت (موضوع) ہے، اور اس کے راوی بکر بن زیاد باہلی پر بہت سخت جرح کی گئی ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس روایت کو من گھڑت قرار دیا ہے اور بکر بن زیاد کو "دجال شیخ” کہا ہے، جو جھوٹی حدیثیں گھڑتا تھا۔ حافظ ابن الجوزی، حافظ ابن تیمیہ، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے۔ لہٰذا، یہ روایت علمی اور تحقیقی طور پر ناقابل اعتماد ہے۔

شد الرحال کی حدیث: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’تین مساجد کے علاوہ کسی بھی جگہ کی طرف رخت سفر نہ باندھا جائے: مسجد حرام، میری یہ مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد اقصیٰ۔‘‘ (موطّا امام مالک: 108/1)

یہ حدیث صحیح ہے اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اس کی تصحیح کی ہے۔

اس حدیث میں واضح ممانعت موجود ہے کہ تین مخصوص مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ کو خاص دینی یا تبرکاتی مقصد کے لیے زیارت کا مرکز بنانا جائز نہیں۔ سیدنا بصرہ بن ابو بصرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما نے بھی کوہِ طور پر نماز کے لیے جانے کو منع کیا اور رسول اللہ کی حدیث پیش کی۔

⑥سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت کا جائزہ

ایک موقع پر نبی کریم نے مسجد احزاب میں تین دن تک دعا کی، اور بدھ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان دعا قبول ہوئی۔ اس کے بعد سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ جب بھی کسی اہم مسئلے کا سامنا کرتے، تو وہ اسی وقت دعا کرتے اور انہیں قبولیت کے آثار نظر آتے تھے۔ (الأدب المفرد للبخاري: 704)

تبصرہ

یہ روایت تبرک سے متعلق نہیں ہے، بلکہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے صرف اس وقت کی اہمیت کو جانا تھا جب دعا قبول ہوئی تھی۔ اس میں جگہ یا مقام سے تبرک کا کوئی تصور نہیں۔

مضمون کا خلاصہ

اس پورے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ تبرکات اور زیارات کا مسئلہ دین اور عقیدہ کے معاملات میں انتہائی حساس اور محتاط رویہ کا متقاضی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں تبرکات کا استعمال ان کے حقیقی آثار سے کیا جاتا تھا، جو تواتر اور صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں۔

تاہم، موجودہ دور میں بہت سے جھوٹے اور خود ساختہ تبرکات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صالحین کی طرف منسوب کر کے ان سے فیض حاصل کرنے کی روایتیں عام ہیں، جو دینی حقائق کے بجائے بدعت اور جاہلانہ روایات پر مبنی ہیں۔

علماء کرام نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ ایسے تبرکات جو سند کے بغیر ہوں یا جھوٹ پر مبنی ہوں، ان کی تعظیم اور زیارت کرنا غیر شرعی اور دین میں غلو کی ایک صورت ہے۔ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قبروں کو مساجد بنانے اور ان سے تبرک لینے سے منع کیا، اور اسلاف نے بھی اس کی کوئی مثال نہیں چھوڑی۔

آج کل جو لوگ جھوٹے تبرکات کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، وہ دین میں بدعت کو فروغ دے رہے ہیں۔ اصل تبرک وہی ہے جو قرآن و سنت اور سلف صالحین کے اعمال سے ثابت ہو، اور اس میں کسی بھی خود ساختہ یا غیر مستند تبرک کو شامل کرنا دین کی اصل تعلیمات سے انحراف کے مترادف ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے