ناپسندیدہ امام کی امامت اور مقتدیوں کا رویہ
فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1، ص 198

سوال

زید ایک مسجد کا متولی ہے اور اس نے ایک کم عمر اور غیر موزوں قرابت رکھنے والے عمرو کو امام مقرر کیا ہے، جبکہ امام صاحب سے جماعت کے لوگ ناراض ہیں۔ چونکہ متولی ایک رئیس آدمی ہے اور امام کی تنخواہ وغیرہ کا انتظام بھی کرتا ہے، اس لیے لوگ دل سے ناراض ہونے کے باوجود لحاظ میں نماز پڑھتے ہیں۔ کیا ایسی حالت میں امام کی تقرری اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا شرعی طور پر جائز ہے؟

الجواب

حدیث شریف میں آیا ہے:
"اِنْ سَرَّکُمْ اَنْ تُقْبَلَ صَلٰوتُکُمْ فَلْیؤمُّکُمْ خِیَارِکُمْ”
(طبرانی)
یعنی "اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری نمازیں قبول ہوں، تو اپنے امام اپنے سے بہتر بناؤ۔”

دوسری حدیث میں ہے:
"ثلاثة لا یجاوز صلٰوة اذا نھم”
تین افراد کی نماز ان کے کانوں کے برابر نہیں جاتی۔

ان میں سے ایک ہے
"امام قوم وھم لہ کارھون”
(ترمذی)
یعنی "وہ امام جس سے قوم ناراض ہو۔”

صورت حال کے مطابق متولی صاحب کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی ناراضگی کا کھلے الفاظ میں ادراک کریں اور امام کی تقرری پر دوبارہ غور کریں۔ متولی کا کام ظاہر پر عمل کرنا ہے، مگر نماز اور امامت کا معاملہ اخلاص اور لوگوں کی پسندیدگی کے ساتھ وابستہ ہے۔

واللہ اعلم
(۵ اگست ۱۹۳۸ء، فتاویٰ ثنائیہ جلد نمبر ۱ ص ۳۴۸)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے