اعتراض 1: کوڑا پھینکنے والی عورت اور گستاخی کی سزا
بعض افراد دلیل دیتے ہیں کہ حضور ﷺ نے مدینہ میں ایک عورت کو سزا نہیں دی جو آپ ﷺ پر کچرا پھینکتی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر عملی گستاخ کو معاف کیا گیا تو قولی گستاخ کو سزا دینا کیسے جائز ہے؟ مزید یہ دلیل دی جاتی ہے کہ آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور ابو لہب جیسے دشمنان اسلام کو بھی معاف کیا۔
جواب:
یہ دلیل سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے مکی اور مدنی دور میں فرق کو سمجھنا ضروری ہے:
مکی دور:
◈ یہ دین کا ابتدائی مرحلہ تھا، جب مسلمانوں کے پاس کوئی سیاسی یا فوجی طاقت نہ تھی۔ اس وقت درگزر اور صبر کا حکم تھا۔
◈ اس کی واضح مثال طائف میں آپ ﷺ پر کیے گئے مظالم ہیں جن کے باوجود آپ نے ان لوگوں کے لیے بددعا کے بجائے ہدایت کی دعا کی۔
مدنی دور:
◈ مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد شریعت کے قوانین نافذ ہو چکے تھے۔
◈ اس دور میں گستاخ رسول ﷺ کے لیے سزا واضح طور پر قتل تھی، کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے منصب کی توہین ہے، جو پورے دین اسلام کی بنیاد کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
مثال:
◈ کعب بن اشرف، ابو رافع، اور دیگر گستاخوں کے قتل کے واضح احکامات نبی کریم ﷺ نے دیے (تفصیل آگے آئے گی)۔
اعتراض 2: رحمت اللعالمین ﷺ کی معافی اور سزا کا تضاد
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں ذاتی مظالم معاف کیے، جیسے طائف میں پتھراؤ کے وقت، تو پھر توہین رسالت پر سزا کیوں دی جاتی ہے؟
جواب:
یہ اعتراض بھی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی ذاتی زندگی میں جو مظالم برداشت کیے، وہ آپ کے ذاتی اخلاق اور رحمت کا مظہر ہیں۔ لیکن جب بات رسالت اور دین کی عزت کی ہو تو یہاں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
ذاتی معاملات:
◈ جہاں آپ کو ذاتی طور پر اذیت دی گئی، جیسے طائف میں پتھراؤ یا مکہ میں دشمنوں کی سازشیں، وہاں آپ نے معاف کر دیا۔
منصبِ رسالت کی توہین:
◈ جب کسی نے آپ کے رسول ہونے پر حملہ کیا، آپ کی شان میں گستاخی کی، یا دین کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، تو آپ نے سخت سزا دی۔
قرآن مجید میں واضح حکم:
وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ
(سورۃ التوبہ: 12)
ترجمہ: "اور اگر وہ اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعن کریں، تو کفر کے سرداروں سے جنگ کرو۔”
مکی اور مدنی دور میں فرق
1. مکی دور: صبر اور درگزر
◈ مکہ میں مسلمانوں کے پاس طاقت نہیں تھی۔ اس دور میں گستاخوں کے خلاف کوئی عملی کارروائی ممکن نہیں تھی۔
قرآنی احکام:
قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ
(سورۃ الانعام: 33)
ترجمہ: "ہم جانتے ہیں کہ ان کی باتیں تمہیں غم دیتی ہیں۔”
صحابہ کا رویہ:
◈ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مکی دور میں نبی کریم ﷺ نے اللہ کے حکم پر گستاخوں کو معاف کیا، کیونکہ مسلمانوں کے پاس طاقت نہیں تھی۔
(صحیح بخاری: 5739)
2. مدنی دور: سزا کا نفاذ
◈ مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد نبی کریم ﷺ نے گستاخی کی سزا کے طور پر قتل کے احکامات جاری کیے۔
قرآنی احکام:
إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ
(سورۃ الحجر: 95)
ترجمہ: "ہم مذاق اڑانے والوں کے لیے تمہیں کافی ہیں۔”
گستاخی کے واقعات اور سزا
1. کعب بن اشرف کا قتل
◈ کعب بن اشرف یہودی شاعر تھا، جو نبی کریم ﷺ کی ہجو میں اشعار لکھتا اور گستاخی کرتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس کے قتل کا حکم دیا، اور صحابہ کرام نے اسے قتل کیا۔
(الصارم المسلول، ابن تیمیہ)
2. ابو رافع کا قتل
◈ ابو رافع بھی نبی کریم ﷺ کی توہین میں مشغول تھا۔ صحابہ نے مدینہ سے سفر کر کے اسے قتل کیا۔
(سیرت المصطفیٰ، مولانا ادریس کاندھلوی)
3. اسماء بنت مروان کا قتل
◈ یہ عورت نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کرتی اور آپ کی مخالفت میں اشعار کہتی تھی۔ ایک صحابی عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس قتل کی تعریف کی۔
(الصارم المسلول، ابن تیمیہ)
4. ابن خطل اور اس کی لونڈیاں
◈ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے ابن خطل اور اس کی دو لونڈیوں کے قتل کا حکم دیا، کیونکہ وہ آپ ﷺ کی گستاخی میں مصروف تھے۔
(سنن ابو داؤد: 2334)
خلافت راشدہ اور توہین رسالت
◈ خلفائے راشدین کے دور میں بھی گستاخان رسول ﷺ کو معاف نہیں کیا گیا۔
◈ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "نبی کریم ﷺ اپنی زندگی میں گستاخوں کو معاف کر سکتے تھے، لیکن امت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ گستاخی کو معاف کرے۔”
(الصارم المسلول)
اعتراضات کا خلاصہ اور وضاحت
◈ عبداللہ بن ابی کو معاف کرنا: یہ واقعہ ذاتی دشمنی کا تھا، جبکہ گستاخی رسول ﷺ کی سزا شریعت کا حکم ہے۔
◈ اسلامی ریاست کے قیام کے بعد کے واقعات کو نظر انداز کرنا: معترضین صرف مکی دور کی مثالیں دیتے ہیں، جبکہ شریعت کے احکام مدنی دور میں مکمل ہوئے۔
◈ آزادی اظہار کا بہانہ: دنیا بھر میں ہتک عزت کے قوانین موجود ہیں۔ ناموس رسالت ﷺ کا تحفظ مسلمانوں کے لیے سب سے اہم ہے، کیونکہ یہ دین کا مرکز ہے۔
اسلامی سماج کی پالیسی
◈ مسلم معاشرے میں ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت بنیادی قدر ہے۔
◈ گستاخی رسول ﷺ کو "آزادی اظہار” کے نام پر برداشت کرنا اسلامی تعلیمات اور تاریخ کے خلاف ہے۔