سوال:
مرقاۃ المفاتیح (4/42) میں جو حدیث بیان کی گئی ہے، اور جسے امام احمد، طبرانی، ابن ابی الدنیا، مروزی، اور ابن مندہ رحمہم اللہ نے بھی روایت کیا ہے، وہ کہاں تک صحیح ہے؟ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
"ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میت اسے پہچانتی ہے جو اسے اٹھاتا ہے، کفن دیتا ہے اور تدفین میں شریک ہوتا ہے۔”
کیا یہ حدیث صحیح ہے اور اس کا مطلب کیا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ولا حولا ولا قوة إلا بالله۔
ہاں، اس حدیث کو امام احمد رحمہ اللہ نے "المسند” (3/3) میں روایت کیا ہے۔
حدیث کی سند:
امام احمد فرماتے ہیں:
"حدیث ہم سے بیان کی ابوعامر نے، وہ کہتے ہیں حدیث ہم سے بیان کی عبداللہ بن حسن الحارثی نے، وہ کہتے ہیں حدیث ہم سے بیان کی سعد بن عمر بن سلیم نے، وہ کہتے ہیں میں نے سنا ہم میں سے کسی آدمی سے، عبدالمک کہتے ہیں کہ میں اس کا نام بھول گیا ہوں، لیکن اس کا نام معاویہ یا ابن معاویہ ہے، وہ حدیث بیان کرتا تھا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے۔”
یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی مجہول ہے۔
◈ عبدالمک خود کہتے ہیں کہ "میں اس راوی کا نام بھول گیا ہوں۔”
◈ نامعلوم راوی (معاویہ یا ابن معاویہ) کا تعین نہیں ہو سکا، اور اس کی وثاقت بھی ثابت نہیں۔
◈ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "ضعیف الجامع الصغیر” (حدیث: 1794) میں ذکر کیا اور اسے ضعیف قرار دیا۔
میت کے حالات اور اس سے متعلق احادیث
یہ حدیث میت کے برزخی احوال سے متعلق ہے، اور اس سے مردوں کے غیب جاننے یا دعا سننے کے جواز پر استدلال کرنا جائز نہیں، جیسا کہ بعض لوگ غلط طور پر کرتے ہیں۔
صحیح حدیث میں میت کے متعلق کیا آیا ہے؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جب میت کو قبر کی طرف لے جایا جاتا ہے، اگر وہ نیک ہوتی ہے تو کہتی ہے: مجھے جلدی لے چلو، اور اگر وہ بدکار ہوتی ہے تو کہتی ہے: ہائے افسوس! تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ اور اس کی آواز کو تمام مخلوقات سنتی ہیں سوائے انسان کے، اگر انسان اسے سن لے تو بے ہوش ہو جائے۔”
(صحیح بخاری: 1338، صحیح مسلم: 2870، مشکوٰۃ: 1/44)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ:
✔ برزخی دنیا کے کچھ معاملات ایسے ہیں جو ہم نہیں جان سکتے۔
✔ میت کا کچھ ادراک ہوتا ہے، لیکن وہ مکمل غیب دان نہیں ہوتی۔
✔ انسانوں کو ان آوازوں کو سننے کی طاقت نہیں دی گئی۔
مجمع الزوائد میں حدیث کا ذکر
میں نے "مجمع الزوائد” (3/21) میں اس حدیث کو دیکھا، اور ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اسے امام احمد اور طبرانی نے ‘الاوسط’ میں روایت کیا، لیکن اس میں ایک راوی ایسا ہے جس کا میں نے ترجمہ نہیں پایا۔”
جب کسی راوی کا ترجمہ نہ ملے، تو ایسی حدیث ضعیف شمار کی جاتی ہے۔
نتیجہ
یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں ایک نامعلوم راوی ہے۔
مردوں کے غیب جاننے یا دعا سننے پر اس حدیث سے دلیل لینا جائز نہیں۔
برزخی احوال سے متعلق مستند احادیث موجود ہیں، جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بیان کی گئی ہیں۔
عقائد میں صرف صحیح احادیث سے استدلال کیا جانا چاہیے، ضعیف روایات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب