مکہ اور کعبہ کے وجود پر اعتراضات کا علمی تجزیہ

ملحدین کی جانب سے تاریخی غلط فہمیاں

آج کل چند ملحدین تاریخی روایات کو اپنی من مانی تشریح کے ذریعے غلط مفروضے قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خاص طور پر مکہ مکرمہ اور کعبہ کے وجود کو مشکوک بنا کر انہیں کسی اور جگہ، جیسے پترا، سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا انداز نہ صرف علمی بد دیانتی پر مبنی ہے بلکہ اپنے اعتراضات کو ثابت کرنے کے لیے تاریخی حوالوں کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔

مکہ کو "اُم القریٰ” کہنے پر اعتراض

ملحدین کا دعویٰ

ملحدین کا دعویٰ ہے کہ قرآن مکہ کو "اُم القریٰ” کہہ کر اسے تمام شہروں کی ماں اور دنیا کا قدیم ترین شہر قرار دے رہا ہے۔

حقیقت

قرآن نے مکہ کو "اُم القریٰ” اس لیے کہا کیونکہ یہ اللہ کے نزدیک ایک مقدس اور محترم شہر ہے۔ علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں:

"مکہ کو ام القریٰ اس لیے کہا گیا کہ یہ سب شہروں سے افضل ہے، کیونکہ یہ انبیاء علیہم السلام کا مقام رہا، نبی اکرم ﷺ اسی شہر میں پیدا ہوئے، اور یہاں اللہ کا گھر یعنی کعبہ موجود ہے، جس کی تعمیر عبادت کے لیے کی گئی۔”
(تفسیر ابن کثیر)

یہ واضح ہے کہ "اُم القریٰ” کا مطلب قدیم ترین شہر ہرگز نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ یہ اصطلاح مکہ کے قدیم ہونے کی دلیل ہے، تو یہ صرف ایک غلط فہمی اور علمی بد دیانتی ہے۔ جیسے قرآن نے شراب کو "اُم الخبائث” (برائیوں کی ماں) کہا، لیکن اس سے شراب کے قدیم ہونے کا ثبوت اخذ کرنا ایک بچگانہ حرکت ہوگی۔

قرآن میں خانہ کعبہ کا ذکر اور تاریخی استدلال

ملحدین کا دعویٰ

ایک ملحد نے سورہ آل عمران (آیت 96) پیش کی جس میں اللہ نے فرمایا:

"اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَّهُدًى لِـلْعٰلَمِيْنَ”

بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا، وہی ہے جو مکہ (بکہ) میں ہے، جو بابرکت ہے اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔

حقیقت

یہ آیت دنیا کے پہلے عبادت گاہ یعنی خانہ کعبہ کی بات کر رہی ہے، نہ کہ مکہ کے قدیم ترین ہونے کی۔ آیت میں کہیں بھی مکہ کے قدیم ترین شہر ہونے کی وضاحت نہیں کی گئی۔ خانہ کعبہ کی قدامت کی تصدیق ضرور ہے، لیکن اس سے شہر کے قدیم ہونے کا دعویٰ اخذ کرنا غیر منطقی ہے۔

مکہ کو زرعی شہر قرار دینے کا اعتراض

اعتراض

ملحدین نے ابن اسحاق اور طبری کی ایک روایت پیش کی جس میں حضرت عبداللہ (نبی اکرم ﷺ کے والد) کے متعلق ذکر ہے کہ جب وہ حضرت آمنہ کے پاس پہنچے تو ان کے کپڑوں پر مٹی لگی ہوئی تھی۔ اس سے ملحدین نے یہ نتیجہ نکالا کہ مکہ ایک زرعی شہر تھا، حالانکہ مکہ زرعی شہر نہیں ہو سکتا۔

حقیقت

روایت میں مکہ کی زرعی حیثیت کا کوئی ذکر نہیں۔ "مزرعہ” کا مطلب ہر وہ جگہ ہے جہاں کھجور کے چند درخت یا گھاس اگائی گئی ہو، اور خطۂ عرب میں ایسے چھوٹے چھوٹے باغات عام تھے۔
ملحدین کی یہ بات کہ مکہ میں بڑے کھیت تھے، ایک غلط فہمی ہے۔ چھوٹے سے باغ میں بھی کام کرنے سے کپڑوں پر مٹی لگ سکتی ہے، اور اس کے لیے کسی بڑے زرعی علاقے کی ضرورت نہیں۔

مکہ کے راستے اور دروں پر اعتراض

اعتراض

ملحدین کا کہنا ہے کہ مکہ کے داخلی راستے پہاڑوں کے درّوں کی صورت میں ہونے چاہیے تھے، لیکن موجودہ مکہ میں ایسے درے نہیں ہیں۔

حقیقت

"درہ” وہ راستہ ہے جو دو پہاڑوں کے درمیان سے گزرتا ہے، اور مکہ کے ایسے کئی راستے موجود ہیں۔
صحیح بخاری کی روایت:

نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے وقت "کداء” (مکہ کے بالائی راستے) سے داخل ہوئے۔
(صحیح بخاری، کتاب المغازی)

مکہ کے راستے پہاڑوں اور وادیوں کے ساتھ ہیں، اور قدیم زمانے میں ان راستوں کا استعمال عام تھا۔ ملحدین کی جانب سے یہ اعتراض کہ مکہ میں درے نہیں ہیں، ان کی آرکیالوجیکل علم کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔

مکہ کے تجارتی مرکز ہونے پر اعتراض

اعتراض

ملحدین نے کہا کہ مکہ جیسے پہاڑی علاقے میں رہنے والے لوگ کیا کھاتے تھے، اور ان کا ذریعہ معاش کیا تھا، جب کہ مکہ میں زراعت نہیں ہوتی۔

حقیقت

مکہ کے لوگ بنیادی طور پر تاجر تھے۔ وہ دوسرے ممالک سے خوراک اور سامان تجارت لاتے، اپنے جانوروں جیسے اونٹ، بکریاں اور دودھ کو فروخت کرتے، اور تجارت کے ذریعے اپنا معاش چلاتے۔
دنیا کے کئی مشہور شہر، جیسے وینس، زراعت کے بغیر صرف تجارت کی بنیاد پر ترقی کر چکے ہیں۔
ملحدین کا اعتراض صرف ایک کمزور مفروضہ ہے، جس کی کوئی بنیاد نہیں۔

پٹالومی کے نقشے اور مکروبہ کا ذکر

اعتراض

ملحدین کہتے ہیں کہ قدیم جغرافیہ دان پٹالومی نے مکہ کا ذکر نہیں کیا بلکہ "مکروبہ” نامی کسی اور شہر کا ذکر کیا ہے۔

حقیقت

مکروبہ کے بارے میں کئی مورخین کی رائے ہے کہ یہ دراصل مکہ کا ہی ذکر ہے، اور اس کا مطلب "خدا کا گھر” ہے۔

"Makoraba means Lord’s Makkah or Allah’s Makkah.”

پٹالومی کے نقشے میں جگہوں کی ترتیب میں کئی غلطیاں موجود ہیں، کیونکہ وہ معلومات قافلوں سے سن کر مرتب کی گئی تھیں۔
مکروبہ کو پہاڑوں سے باہر دکھانا اور مکہ کو اندر وادی میں ہونا صرف نقشے کی ترتیب کی غلطی ہے، نہ کہ مکہ کے وجود کی نفی۔

نتیجہ

ملحدین کے اعتراضات علمی بد دیانتی، کمزور دلائل، اور تاریخی حقائق کی توڑ مروڑ پر مبنی ہیں۔ مکہ اور کعبہ کا وجود نہ صرف قرآن و سنت بلکہ غیر مسلم مورخین کی گواہی سے بھی ثابت ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے