متعدد صحیح روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ نفل پڑھنے والی کی اقتداء میں فرض پڑھنے والوں کی نماز صحیح ہے لیکن احناف (دیوبندی و بریلوی حضرات) صحیح احادیث کی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہوئے اس بات کی تقلین کرتے ہیں کہ نفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض نماز نہیں پڑھنی چاہیئے اس موقف کی تائید میں احناف جن دلائل کا سہارا لیتے ہیں ان کی تفصیل اور اس پر تبصرہ پیش خدمت ہے۔
دلیل نمبر ۱:
((عن أبی أمامۃ رضی اللّٰہ عنہ قال؛ قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ؛ الامام ضامن المؤذن مؤتمن))
"سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ، امام ضامن ہے اور مؤذّن امانت دار ہے ۔ ” (مسند احمد : ۲۶۰/۵، المعجم الکبیر للطبرانی : ۲۸۶/۸ ، ح : ۸۰۹۸ و سندہ صحیح)
تبصرہ:
۱٭ اس حدیثِ مبارکہ میں متنفل کی اقتداء میں مفترض کی نماز کے بطلان پر کوئی اشارہ تک نہیں ہے ، ہم نے جن روایات سے استدلال کیا ہے ، وہ اپنے مفہوم میں بالکل صریح ہیں، مشہور اور کبار محدثین اور بعض حنفی علماء نے بھی اس صراحت کا اقرار کیا ہے ، ایسی صریح روایات کے مقابلے میں مبہم روایات پیش کرکے استدلال کرنا ایک منصف مزاج آدمی کا کام نہیں ، الفاظ میں عبارت النص کے مقابلے میں اپنے تئیں اشارۃ النص یا دلالۃ النص پیش کرنا کھلی بے اصولی اور اصولِ استدلال سے نا وافقی کا کرشمہ ہے۔
۲٭ حدیث ِ معاذ اور حدیث ِ جابر وابی بکرۃ سے متنفل کی اقتداء میں مفترض کی نما ز کے جواز کا اقرار ائمہ و محدثین اور خود حنفی بزرگوں نے کیا ہے ، لیکن افسوس کہ اس حدیث سے یہ استدلال صرف متاخرین تقلید پرستوں کے ذہن میں آیا ہے ، حدیث سے مسائل استنباط کرنا محدثین کا کام ہے ، نہ کہ مقلدین کا۔
قارئین ! ذرا انصاف فرمائیں کہ بہت سے محدثین نے اس حدیث کو اپنی کتاب میں پیش کیا ہے ، لیکن یہ مسئلہ استنباط نہیں فرمایا، ملاحظہ فرمائیں:
سنن ترمذی (۲۰۷)، سنن ابی داود (۵۱۷) ، سنن کبریٰ بیہقی (۴۳۰/۱، ۱۲۷/۳، ۴۲۵/۱ ، ۴۲۶ ، ۴۳۱) ، صحیح ابن خزیمہ (۵۱۳۲،۵۱۳۱) الام الشافعی (۱۲۸/۱)، شرح السنۃ از حافظ بغوی (۲۸۰/۲)
نیز دیکھیں شرح مشکوۃ از ملا علی قاری حنفی (۴۲۷/۱)
ان میں سے کسی محدث نے بھی اس حدیث سے متنفل کی اقتداء میں مفترض کی نماز کے بطلان کا استدلال نہیں کیا، جبکہ ہماری دلیل حدیث معاذ اور حدیث جابر سے کثیر محدثین نے متنفل کی اقتداء میں مفترض کی نماز کا جواز ثابت کیا ہے ، جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں۔
جو لوگ اپنے آپ کو قرآن و سنت کے سمجھنے سے قاصر خیال کرکے تقلیدِ شخصی کو گلے کا طوق بنائے ہوئے ہیں، انہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ حدیث سے وہ مسئلہ اخذ کریں جو ان کے ائمہ مقتدمین نے بھی اخذ نہیں کیا؟
امام طحاوی حنفی نے بھی شرح معانی الآثار میں اس مسئلہ میں مذہبِ حنفی کو ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ، لیکن یہ روایت انہوں نے بھی پیش نہیں کی ، ظاہر ہے اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط نہیں ہوتا ، ورنہ امام طحاوی تو احادیث و آثار پر آج کے مقلدین سے بڑھ کر نظر رکھتے تھے۔
۳٭ سننِ دارقطنی (۱۲۱۴) میں اس حدیث کا معنی بھی بیان ہوا ہے کہ :
((الامام ضامن ، فما صنع فاصنعوا))
"امام ضامن ہے ، جو وہ کرے وہی تم کرو۔”
امام ابو حاتم فرماتے ہیں: ھٰذا تصحیح لمن قال بالقراءۃ خلف الامام.
"یہ روایت اس شخص کی بات کو صحیح قرار دیتی ہے جو امام کے پیچھے قراءت کا قائل ہے ۔”
(سنن دار قطنی: ۳۲۱/۱)
محدثین کی صراحت کے مطابق تو یہ روایت احناف کی دلیل بننے کے بجائے ، ان کے گلے کا طوق بن گئی ہے ، اب بھی اگر کوئی اصرار کرے، تو یہ ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔
۴٭ الامام ضامن کے الفاظ سے تضمین بمعنی امام و مقتدی کی نماز کی برابری یا امام کی فرض اور مقتدی کی نفل مراد لینا جہاں تصریحاتِ محدثین کے خلاف ہے، وہاں فقہ حنفی کے دوسرے اصولوں سے متنافض بھی ہے ۔
احناف اس مقام پر صرف اسی قیاسِ فاسد سے کام لیتے ہیں کہ دیکھیں رسولِ اکرم ﷺ نے امام کو ضامن کہا ہے اور آدمی کسی کا ضامن اسی وقت بنتا ہے جب وہ دوسرے پر حاوی ہوں ، یا کم از کم برابر ،کیونکہ ادنیٰ چیز اعلیٰ کو اپنے ضمن میں نہیں لے سکتی۔
بلاشبہ یہ قیاس صحیح و صریح نصوصِ حدیثیہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل و فاسد ہے ۔
لیں ! ذرا غور کرنے سے پتہ چلتاہے کہ احناف نے اس مسئلہ میں قائم کئے ہوئے خودساختہ اصولوں کی خود سے بہت سے مقامات پر مخالفت کررکھی ہے ، مثلاً ملاحظہ فرمائیں :
٭ غلام کی اقتداء میں آزاد کی نماز۔
٭ فاسق (گناہ پر دوام کرنے والے) کی اقتداء میں نیک آدمی کی نماز وغیرہ (دیکھیں قدوری : ص۲۹)
حالانکہ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ ان صورتوں میں بھی امام مفضول ہونے کی بنا پر "ضامن” نہ بن سکے۔
دلیل نمبر ۲:
جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
عن أنس رضی اللہ عنہ أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ؛ انما جعل الامام لیؤتم بہ ، فلا تختلفوا علیہ ، أخرجہ البخاریّ و مسلم (زیعلی). (سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے ، لہٰذا اس سے اختلاف مت کرو۔ اسے بخاری و مسلم نے بیان کیا ہے ، بحوالہ زیلعی) احتج بہ أصحابنا علی المنع من اقتداء المفترض بالمتنفل قالوا؛ واختلاف النیۃ داخل فی ذالک. (اس حدیث سے ہمارے حنفی حضرات نے دلیل لی ہے کہ نفل پڑھنے والے کی اقتدا میں فرض پڑھنے والے کی نماز منع ہے ، ان کا کہنا ہے کہ نیت کا اختلاف بھی اس ضمن میں داخل ہے ۔) (اعلاء السنن از ظفر أحمد تھانوی : ۱۳۵۵/۳۔۱۳۵۶)
تبصرہ:
۱٭ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں سیدنا انس کی روایت میں فلا تختلفوا علیہ کے الفاظ میں نہیں مل سکے ، بلکہ سیدنا ابوہریرۃ کی روایت میں یہ الفاظ موجود ہیں، لہٰذا تصحیح کی ضرورت ہے ۔
۲٭ حسبِ سابق اس روایت سے بھی احناف کا مدعا ہرگز ثابت نہیں ہوتا، بلکہ مکمل حدیث پڑھنے کے بعد بالکل برعکس صورت سامنے آتی ہے ، ملاحظہ فرمائیں:
((عن أنس بن مالک أنہ قال ؛ خرّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن فرس فجُحِش فصلّٰی لنا قاعدا فصلینا معہ قعوداً، فلما انصرف فقال ؛ انما جعل الامام لیؤتم بہ ، فاذا کبر فکبروا، واذا رکع فارکعوا، واذا رفع فارفعوا، واذا قال؛ سمع اللّٰہ لمن حمدہٗ، فقولوا ؛ ربنا ولک الحمد ، واذا سجد فاسجدوا ، وفی روایۃ ؛ فاذا صلّٰی قائماً فصلُّوا قیاماً، وفی روایۃ أخریٰ ؛ واذا صلّٰی قاعداً فصلُّو قعوداً أجمعون)).
"سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ گھوڑے سے گر گئے ، جس سے آپ زخمی ہوگئے ، آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی ، ہم نے بھی آپ کی اقتداء میں بیٹھ کر ہی نماز پڑھی جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا ؛ امام اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے ، لہٰذا جب تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو ، جب وہ رکوع کرے ، تو تم بھی رکوع کرو ، جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، جب سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہے، تو تم ربّنا ولک الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے ، تو تم سجدہ کرو۔ ”
ایک روایت میں فرمایا :
"جب امام کھڑا ہو کر نماز پڑھائے ، تو تم (بشرطِ صحت) کھڑے ہو کر نماز پڑھو ۔”
دوسرے روایت میں فرمایا : "جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب بیٹھ کر نماز ادا کرو۔” (صحیح بخاری : ۷۳۳-۷۳۲،صحیح مسلم : ۴۱۱)
واضح ہے کہ رسول اکر م ﷺ کے اس فرمانِ مبارک کا مطلب و مقصد صحابہ کو یہ آگاہ کرنا تھا کہ امام کی اقتداء کرنی چاہیے ، یعنی اگر وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھو اور اگر وہ بیٹھ کر پڑھے ، تو سب اس کی اقتداء کرتے ہوئے بیٹھ کر نماز ادا کرو، اسی طرح دوسرے ارکان میں بھی امام کی پیروی ضروری ہے ، لہٰذا اس سے متنفل کی اقتداء میں مفترض کی نماز کی ممانعت کا کوئی ثبوت نہیں ، صریح احادیث کے مقابلے میں اس طرح کے احتمال پیش کرنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔
فائدہ :
نبی اکرم ﷺ کے مرض الموت میں سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کا آپ کی اقتداء میں کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر دونوں طرح نماز پڑھنا بتاتا ہے کہ یہ امر منسوخ ہوچکا ہے یا وجوب کے لئے نہیں۔
۳٭ اس روایت کو کثیر تعداد میں ائمہ و محدثین نے اپنی کتب میں درج کیا ہے ، لیکن اس سے یہ استنباط صرف دیوبندیوں کے حصے میں آیا ہے ، ملاحظہ فرمائیں:
بخاری (۷۳۴) ، مسلم (۴۱۴)، ابن ماجہ (۸۶۴) ، نسائی (۸۳۲ ، ۱۲۰۰) ، ابو عوانہ (۱۱۰/۲) ، الدارمی (۲۸۶/۱) ، بیہقی (۷۹/۳) ، بغوی (۸۵۲) ، ابوداؤد (۶۰۴) ، ابن ابی شیبہ (۳۲۶/۲) ، احمد بن حنبل (۳۴۱/۲) ، حمیدی (۹۵۸) ، عبدالرزاق (۴۰۸۲)، ابن حبان (۲۱۰۷)، ابن خزیمہ (۱۶۱۳) رحمہم اللہ وغیرہم۔
ان میں سے کسی ایک محدث و امام نے بھی اس سے یہ مسئلہ نہیں سمجھا، محدثین کی اتنی بڑی تعدا دکے مقابلے میں تقلید پرستوں کی بات کا کیا اعتبار ہوگا؟ حدیث کا فہم محدثین کو ہے یا مقلدین کو؟
۴٭ فلا تختلفو ا سے نیت کا اختلاف مقصود نہیں ، بلکہ ظاہری اختلاف مقصود ہے ، جیساکہ اسی حدیث میں واضح الفاظ سے صراحت ہے کہ جب امام رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھا لو ،جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرلو ،نیت کے اختلاف کی ممانعت کا اشارہ بھی نہیں ملتا۔
۵٭ اگر اس سے مراد نیت کا اختلاف ہو ، تو مفترض امام کے پیچھے نفل پڑھنے والے مقتدی کی نماز بھی فاسد ہوگی حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ۔
رہا جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب کا یہ کہنا کہ:
واقتداء المتنفل بالمفترض لیس من الاختلاف علی الامام.
"متنفل اگر مفترض کی اقتداء کرے ، تو یہ امام سے اختلاف نہیں بنتا ۔” (اعلاء السنن : ۱۳۵۶/۳)
تو ہم کہتے ہیں کہ متنفل کی اقتداء میں مفترض کی نماز بھی امام سے اختلاف کی صورت نہیں ہے۔
مزید لکھتے ہیں: أو نقول ؛ انّ مفاد قولہ ؛ لا تختلفوا علیہ . المنع من ذالک أیضا و لکن جوّزناہ بنصّ آخر فی ذٰلک خاصّۃ.
"یا اس اعتراض کے جواب میں ہم یوں کہیں گے کہ لا تختلفوا علیہ سے مراد نیت کا اختلاف ہے اور اس اختلاف سے مفترض کی متنفل کے پیچھے نماز اور متنفل کی مفترض کے پیچھے نماز، دونوں شامل ہیں ، اس کے باوجود آپ نے دوسری نص کے پیشِ نظر مفترض کی اقتداء میں متنفل کی نماز خارج کرلی ہے تو ہم نے بھی بصراحتِ محدثین دوسری صریح و صحیح نصوص کے ذریعے متنفل کی اقتداء میں مفترض کی نمازکو بھی خارج کرلیا ہے ۔
اب نتیجہ وہی نکلا کہ اس روایت میں مذکورہ اختلاف سے مراد نیت کا اختلاف ہر گز نہیں ہے ، ورنہ تو درج ذیل صورتیں بھی اس اختلاف کی وجہ سے باطل ہوجائیں گی:
۱٭ مسافر کی مقیم کے پیچھے نماز۔
۲٭ مقیم کی مسافر کے پیچھے نماز۔
۳٭ مسبوق(جس کی کچھ رکعتیں رہ گئی ہوں) کی نماز وغیرہ
فائدہ:
قارئین کرام ! آپ نے مشاہدہ کیا ہے کہ ایک طرف تو صحیح و صریح احادیث ہیں ، رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓکاعمل ہے ، بہت بڑی تعدا د میں محدثین کی صراحت ہے اور بعض حنفی بزرگوں کا اعتراف بھی ہے ، جبکہ دوسری طرف صحیح تو کجا، کوئی صریح ضعیف دلیل بھی نہیں ، لیکن اس کےباوجود احناف حضرات اس پر ڈٹے ہوئے ہیں، نصوص میں طرح طرح کی تاویلات باطلہ کا ارتکاب کرکے تحریف معنوی کے مجرم بنتے ہیں اور محدثین کی فقاہت کا صریح انکار کرتے ہیں ، نیز اپنے آپ اور اندھے مقلدین کو طفل تسلی دینے کے لئے ایسی روایت پیش کرتے ہیں ،جن کامقصود سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا کیونکہ دلائل سے تو یہ بے چارے بالکل خالی ہیں اور بسااوقات ان کی زبان سے اللہ تعالیٰ حق بات نکلوا بھی دیتا ہے ، چنانچہ جناب انوارِ خورشید "فاضل” جامعہ اشرفیہ لاہور، تارِ عنکبوت سے بھی بے وقعت کتاب "غیر مقلدین امام بخاری کی عدالت میں” کے اندر لکھتے ہیں:
"جبکہ سرے سے ہمارا دعویٰ ہی نہیں ہے کہ ہر مسئلہ کی دلیل حدیث میں موجود ہے ۔” (ص:۵)
دیکھا آپ نے دیوبندی صاحب نے کتنے صریح الفاظ میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ فقہ حنفی کے ہر مسئلے کی دلیل حدیث میں موجود نہیں۔
ہمارا جناب سے سوال ہے کہ جب آپ کی مکمل فقہ حدیث سے ثابت ہی نہیں ہوتی تو پھر ان مسائل میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے حدیث میں تاویلاتِ بعیدہ اور لفظی و معنوی تحریف کا اقدام کیوں کرتے ہیں؟
صاف کہہ دیں کہ اس اس مسئلہ میں ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے !!!
قارئین کرام ! ہم نے احناف کی طرف سے متنفل کی اقتدا میں مفترض کی نماز کی ممانعت میں آج تک پیش کردہ تمام دلائل کا منصفانہ تجزیہ پیش کردیا ہے ، اب خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ
یہ حدیث کی موافقت ہے یا مخالفت؟