مولویوں پر الزام اور عوام کا کردار
بدقسمتی سے معاشرتی مسائل کا الزام جن مولویوں پر لگایا جاتا ہے، وہ دراصل انہی لوگوں کی مرضی سے منتخب کردہ ہوتے ہیں۔ لوگ خود ہی انہیں اپنی مسجد کا امام اور خطیب مقرر کرتے ہیں اور تنخواہ بھی دیتے ہیں۔ ہم خود (چاہے جان بوجھ کر یا لاپروائی میں) غیرمناسب افراد کو اپنی قسمت، عزت، ایمان، اور مال و دولت کے ساتھ کھیلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، پھر بعد میں شکوہ بھی کرتے ہیں۔
عام روایات اور مسائل
عمومی طور پر یہ ہوتا ہے کہ مسجد کے ساتھ مدرسہ کے نام پر چندہ اکٹھا کرنے کے لیے چند ہزار روپے تنخواہ پر ایک قاری کو مقرر کر دیا جاتا ہے۔ نہ مسجد کی انتظامیہ اور نہ ہی اپنے بچوں کو اس مولوی کے پاس بھیجنے والے والدین یہ تحقیق کرتے ہیں کہ آیا وہ واقعی قاری ہے، کسی اچھے مدرسے سے فارغ التحصیل ہے، اس کا کردار کیسا ہے، کہیں جرائم پیشہ تو نہیں؟ وہ کہاں سے آیا ہے؟ مسجد کمیٹی کو صرف ایک داڑھی والے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو اچھی تلاوت کرسکے اور اس کے بدلے میں اسے شہر میں رہنے کا ٹھکانہ مل جاتا ہے۔ یہیں سے بدقسمتی کا آغاز ہوتا ہے جب والدین اپنے بچوں کو نیک نیتی کے ساتھ قرآن پڑھانے کے لیے اس کے پاس بٹھا دیتے ہیں۔
حل کی تجاویز
- اداروں کا بہتر انتظام: محلے کے لوگوں اور اچھے مدارس کے معلمین کے تعاون سے ادارے چلانے چاہئیں اور مدرسہ کے کام کو دینی فریضہ سمجھ کر باہمی مشاورت سے انجام دینا چاہیے۔
- آئمہ کی مناسب تنخواہیں: مساجد میں موجود مدارس کے آئمہ کی تنخواہیں اچھی رکھی جائیں اور دینی تعلیم کے لیے بہترین عالم یا قاری کا انتخاب کیا جائے، جس کے لیے اچھے مدارس سے رابطہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری پر ایسے شخص کو بھیجیں جو دل سے قرآن کا حامل ہو، خوفِ خدا رکھتا ہو، اور بچوں کی دینی تربیت جانتا ہو۔
- آئمہ کے لیے معیار: مساجد کے آئمہ کے لیے عالم یا مفتی ہونا ضروری قرار دیا جائے۔ صرف حافظ کو امام بنا دینا، جیسا کہ عموماً ہوتا ہے، بالکل درست نہیں۔
- شادی شدہ ہونا شرط: محلے کی مسجد کے امام اور مدرس کے لیے شادی شدہ ہونا بھی ایک شرط ہونا چاہیے کیونکہ انہیں زیادہ تر نوعمر بچوں کی تربیت کرنی ہوتی ہے اور شیطان سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔
- اصلاحی بیانات: امام کے لیے یہ بھی ضروری ہو کہ وہ کسی شیخ سے بیعت ہو اور مسجد میں ہفتہ وار اصلاحی بیانات کا سلسلہ جاری رکھ سکے۔
- والدین کی ذمہ داری: والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مدرسہ میں داخل کرنے سے پہلے یہ تحقیق کریں کہ آیا ادارہ رجسٹرڈ ہے یا کسی مدرسہ بورڈ سے الحاق شدہ ہے۔
- اساتذہ کا کردار: اساتذہ کے اخلاق، تعلیمی پس منظر، اور ان کے رہن سہن کا جائزہ لینا چاہیے۔
- دنیاوی تعلیم کی طرح تحقیق: دنیاوی تعلیم کے لیے تو والدین دوستوں سے مشورہ کرتے ہیں کہ کس اسکول میں داخلہ دلایا جائے اور پھر پوری تحقیق کے بعد اسکول کا انتخاب کرتے ہیں، لیکن دینی تعلیم کے معاملے میں لاپروائی برتتے ہیں اور بچوں کو محلے کی مسجد کے نیم تعلیم یافتہ مولوی کے پاس بٹھا دیتے ہیں اور پھر شکوہ کرتے ہیں۔
- دینی تعلیم کے لیے تحقیق: دینی تعلیم کے لیے مدرسہ اور استاد کے انتخاب میں بھی مناسب تحقیق کی جائے۔ یہ فتنہ کا دور ہے اور اندھے اعتماد کی روش کو ترک کرنا ہوگا۔
عمومی کوتاہیوں کے اثرات
ان اجتماعی کوتاہیوں کی وجہ سے کسی مسجد میں کبھی کبھار ناخوشگوار واقعات بھی ہو جاتے ہیں، لیکن ان واقعات کی آڑ میں بعض لوگ اپنا ایجنڈہ آگے بڑھانے کا موقع پا لیتے ہیں۔ وہ اپنے تعصب کی بنیاد پر یہ تاثر دیتے ہیں کہ یہ مدارس کا روزمرہ کا معمول ہے۔ مثلاً لاہور میں ایک واقعہ پیش آیا جس میں ایک بچے کو زیادتی کے بعد مسجد کی چھت پر پھانسی دی گئی، تو تمام سیکولر اور لبرل پیجز نے علماء اور مدارس پر تنقید شروع کردی۔ کئی لوگوں نے مسجد اور مدارس بند کرنے کی باتیں کیں۔ مگر جب حقیقت سامنے آئی کہ یہ فعل ایک حجام نے کیا تھا، تو کسی نے معذرت کرنا تک گوارا نہیں کی۔
انصاف کا تقاضا
اگر یہ واقعہ کسی مولوی کا عمل بھی ہوتا، تو بھی اس کا ملبہ تمام مدارس پر ڈالنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ جب کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی غیر اخلاقی حرکات ہوتی ہیں، تو کیا ان اداروں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے؟ جعلی ڈاکٹروں کے کارنامے سب کے سامنے ہیں، لیکن کسی فٹ پاتھ پر بیٹھے جراح کے غلط علاج کی وجہ سے کبھی میڈیکل کالج بند کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔
تقابلی جائزہ اور اصلاح کی ضرورت
حقیقت یہ ہے کہ ایسے واقعات سے کوئی بھی معاشرہ مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ وہ یورپ جسے ہمارے سیکولر افراد ایک مثالی حیثیت دیتے ہیں، وہاں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے چرچ کے پادری تک ان میں ملوث پائے جاتے ہیں، لیکن وہاں چرچ کو جلانے کا مطالبہ نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ لوگ سدباب کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں اور والدین کو ضروری معلومات فراہم کرتے ہیں۔
دانشمندی کی ضرورت
ہماری قوم، خصوصاً مغرب پرست نقادوں کو بھی چاہیے کہ اعتراض اور تنقید کے بجائے اصلاح کی عملی کوششیں کریں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔