مولوی، حلوے کا طعنہ اور لبرلز کی علمی منافقت

لبرلز کا اعتراض

لبرل اور سیکولر حلقوں کی طرف سے مولویوں پر اکثر یہ اعتراض سننے کو ملتا ہے کہ یہ لوگ دینی خدمات کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور یہ کہ ان کی تمام سرگرمیاں اپنے معاشی مفادات، یعنی "حلوے مانڈے” کے گرد گھومتی ہیں۔ وہ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ مولوی حضرات عوام کو اختلافات میں الجھا کر اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں اور فتویٰ بازی کی بنیاد پر اپنا دینی کاروبار چلاتے ہیں۔

سوال: سائنس اور جدید علم کی نوعیت

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن لبرلز اور سیکولرز نے سائنس کو "حقیقی علم” قرار دے کر اس کی برتری کا دعویٰ کیا ہے، ان کے اپنے علم کی نوعیت کیا ہے؟ مولویوں پر حلوے مانڈے کا الزام لگانے والوں کا یہ مفروضہ ہوتا ہے کہ سائنس کی دنیا بے لوث خدمتِ خلق اور انسانیت کی فلاح کے جذبے سے معمور ہوتی ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سائنسی علوم کا پورا ڈھانچہ خرید و فروخت کے اصول پر قائم ہے۔ وہی علم تخلیق کیا جاتا ہے جسے بیچا جا سکے، اور وہی علم خریدا جاتا ہے جو ذاتی لذت اور نفع کے لیے کارآمد ہو۔

مثال: میڈیکل سائنس اور فارماسیوٹیکل کمپنیاں

مثال کے طور پر، میڈیکل سائنس میں فارماسیوٹیکل کمپنیاں اور ہسپتال اپنے مفادات کے لیے عوام کی صحت سے کھیلتے ہیں۔ انجینئرنگ کے مختلف شعبوں میں کرپشن اور مفادات کے کھیل دیکھے جا سکتے ہیں۔ جنگی ہتھیار بنانے والی کمپنیاں اپنے نفع کے لیے حکومتوں پر دباؤ ڈال کر مہلک ہتھیاروں کی فروخت کرتی ہیں۔ سوشل سائنسز اور این جی اوز اپنے نظریاتی یا مالی مفادات کے لیے تحقیقاتی نتائج میں ہیرا پھیری کرتی ہیں تاکہ پالیسی ساز اداروں اور عالمی ڈونرز کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

حقیقت اور الزامات کا تجزیہ

یہ سب حقائق ان لوگوں سے مخفی نہیں ہیں جو سائنسی علوم اور جدید اداروں کی فطرت سے واقف ہیں۔ اس پس منظر میں، یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ جن کے اپنے علمی نظام کا دارومدار بھی "حلوے مانڈے” پر ہے، وہ مولوی حضرات پر ایسے الزامات لگاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مولویوں کے پاس واقعی اتنا زیادہ حلوہ ہوتا، تو یہ لبرلز اپنے بچوں کو دھڑا دھڑ مولوی کیوں نہیں بنا رہے؟ وہ مولوی کے ہر اختلاف کو حلوے اور ذاتی مفاد کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، لیکن سائنسی حلقوں میں ہونے والے اختلافات کو "علمی بحث” سمجھتے ہیں۔

الزام کی وجوہات

مولویوں پر حلوے مانڈے کا الزام عائد کرنے کی دو بڑی وجوہات ہیں: پہلی، اپنے نظام کی حقیقت سے ناواقفیت؛ دوسری، مولویوں کی علمیت کو اپنے مادی نقطہ نظر سے دیکھنا۔ وہ سوچتے ہیں کہ علم کے کسی میدان میں بغیر ذاتی مفاد کے زندگی بسر کرنا ممکن نہیں ہے، اور اسی تعجب کی بنا پر وہ مولویوں پر بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں۔

خلاصہ

➊ لبرلز مولویوں پر الزامات عائد کرتے ہیں کہ وہ اپنے مفادات کے لیے دینی خدمات انجام دیتے ہیں۔
➋ لبرلز کا یہ مفروضہ ہوتا ہے کہ سائنسی علم بے لوث اور خدمتِ خلق کے لیے ہے، حالانکہ حقیقت میں سائنسی نظام بھی خرید و فروخت اور ذاتی مفادات پر مبنی ہے۔
➌ سائنس اور دیگر جدید اداروں میں بھی ذاتی مفادات، کرپشن اور ہتھیاروں کی تجارت جیسی برائیاں پائی جاتی ہیں۔
➍ لبرلز مولویوں کو حلوے مانڈے کا طعنہ دیتے ہیں، حالانکہ ان کا اپنا علمی نظام بھی اسی بنیاد پر قائم ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1