موسم گرما میں نماز ظہر ذرا تاخیر سے ادا کرنا :
مستحب ہے، جمہور علماء کا یہی موقف ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
إذا اشتد الحر فأبردوا بالصلاة فإن شدة الحر من فيح جهنم
” جب گرمی کی شدت ہو تو ٹھنڈے وقت میں نماز پڑھو ( یعنی ذرا ٹھنڈا وقت ہونے تک انتظار کر لو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے سانس کی لپیٹ سے پیدا ہوتی ہے۔)“
[بخاري: 534 ، 533 ، كتاب مواقيت الصلاة : باب الإبراد بالظهر فى شدة الحر ، مسلم 615 ، أبو داود 402 ، ترمذي 157 ، نسائي 284/1 ، ابن ماحة 677 ، حميدى 942 ، أبو عوانة 346/1 ، ابن خزيمة 329 ، ابن حبان 1497]
علاوہ انہیں نماز ظہر کو کتنا مؤخر کیا جا سکتا ہے اس کا کچھ اندازہ مندرجہ ذیل حدیث سے ہوتا ہے:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان قدر صلاة رسول الله الظهر فى الصيف ثلاثة أقدام إلى خمسة أقدام وفى الشتاء خمسة أقدام إلى سبعة أقدام
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ظہر کا اندازہ یہ ہوتا تھا کہ، گرمیوں میں انسان کا سایہ تین قدموں سے لے کر پانچ قدموں تک کے مابین ہوتا تھا اور موسم سرما میں پانچ سے سات قدموں تک کے مابین ہوتا تھا ۔
[صحيح: صحيح أبو داود 387 ، كتاب الصلاة: باب وقت صلاة الظهر ، أبو داود 400 ، نسائي 503]
اور اس کا آخری وقت زوال کے سائے کے علاوہ ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہو جانے تک ہے اور یہی عصر کا ابتدائی وقت ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج ڈھلنے کے بعد نماز پڑھائی :
وكان الفيئ قدر الشراك
” (زوال) فی تسمے کے برابر تھا۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر پڑھائی :
حين كان الغيئ قدر الشراك وظل الرجل
”جس وقت ( زوال فی کا) سایہ تسمے اور آدمی کے سائے کے برابر تھا۔“
[صحيح: صحيح نسائي 510 ، كتاب الصلاة : باب آخر وقت المغرب ، نسائي 525]
حضرت جبرئیل علیہ السلام کی امامت والی حدیث میں ہے کہ :
فصلي بي الظهر فى اليوم الثاني حين صار ظل كل شيئ مثله
” (نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ) حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دوسرے روز مجھے نماز ظہر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہو گیا ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي 127 ، صحيح أبو داود 416 ، المشكاة 583]
(جمہور ) اس کے قائل ہیں۔
(ابوحنیفہؒ) ظہر کا آخری وقت وہ ہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے دومثل ہو جائے۔ ( واضح رہے کہ امام ابوحنیفہؒ کی اس رائے کو خود علمائے احناف نے بھی قبول نہیں کیا اور نہ ہی کسی مرفوع حدیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ )
[المغنى: 370/1 ، الأم 153/1 ، حلية العلماء فى معرفة مذاهب الفقهاء 29/2 ، المهذب 51/1 ، فتح القدير 151/1 ، مغني المحتاج 121/1 ، اللباب 59/1 ، الدر المختار 331/1 ، القوانين الفقهية ص/43]
(راجح) جمہور کا موقف رائج ہے۔ گذشتہ صحیح حدیث اس کا ثبوت ہے۔
[ تفصيل كے ليے ملاحظه هو: نيل الأوطار 438/1 ، الفقه الإسلامي وأدلته 66531 ، تحفة الأحوذي 489/1 ، السيل الحرار 183/1]
➊ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی امامت والی حدیث میں ہے کہ :
وصلي العصر فى اليوم الأول حين صار ظل كل شئ مثله
” ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ) حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مجھے پہلے دن نماز عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہو گیا۔“
[صحيح: صحيح ترمذي 127]
➋ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وقت صلاة الظهر مالم يحضر العصر
”نماز ظہر کا وقت نماز عصر کے آغاز تک رہتا ہے۔“
[مسلم 612 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب أوقات الصلوات الخمس ، طيالسي 2249 ، أحمد 210/2 ، أبو داود 396 ، شرح معاني الآثار 150/1 ، أبو عوانة 371/1]
اور یہ بات معروف ہے کہ ظہر کا وقت ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہو جانے تک ہی ہے۔
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز عصر پڑھائی تو بن سلمہ قبلے کا ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہم اونٹ نحر کرنا چاہتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں شرکت کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت قبول فرمائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم چلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کو دیکھا کہ اسے ابھی نحرنہیں کیا گیا، پھر اسے نحر کیا گیا، پھر کاٹا گیا، پھر اس سے کچھ پکایا گیا، پھر ہم نے اسے غروب آفتاب سے پہلے کھایا ۔
[مسلم 624 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة : باب استحباب التكبير بالعصر، دار قطني 255/1 , ابن حبان 1516]
اگر عصر کا ابتدائی وقت دومثل سائے سے شروع ہوتا تو یقیناً یہ تمام کام تا وقت مغرب کر لینا ناممکن تھا۔
➍ حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نماز عصر ایسے وقت میں ادا فرماتے کہ :
ويرجع أحدنا إلى رحله فى أقصى المدينة والشمس حية
”ہم میں سے کوئی ایک مدینہ کی آخری حدود تک چلا جاتا پھر بھی آفتاب زنده و روشن ہوتا ۔“ [بخارى: 547 ، كتاب مواقيت الصلاة : باب وقت العصر، مسلم 236 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة : باب استحباب التكبير بالصبح فى أول وقتها]
اور اس کا آخری وقت سورج کے سفید و روشن رہنے تک ہے۔
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وقت صلاة العصر ما لم تصفر الشمس
”نماز عصر کا آخری وقت سورج کی رنگت زرد ہو جانے تک رہتا ہے۔“
[مسلم: 612 ، كتاب المساجد ، أبو عوانة 371/1 ، طيالسي 2249]
➋ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی امامت والی حدیث میں ہے کہ :
صلى العصر فى اليوم الثاني عند مصبر ظل الشيئ مثليه
”حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دوسرے دن نماز عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو گیا۔“
[صحيح : صحيح ترمذي 128 ، 127]
واضح رہے کہ گذشتہ دونوں روایات میں تعارض نہیں ہے بلکہ جب سایہ دو مثل ہوتا ہے تو اس کے بعد سورج زرد ہونا بھی شروع ہو جاتا ہے۔
[الروضة الندية 200/1]
اور جس روایت میں ہے من أدرك من العصر ركعة قبل أن تغرب الشمس فقد أدرك العصر ”جس نے نماز عصر کی ایک رکعت غروب آفتاب سے پہلے حاصل کر لی تو اس نے مکمل نماز حاصل کر لی ۔“
[مسلم 958 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة : باب من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك تلك الصلاة ، ترمذى 171 ، نسائي 511 ، أبو داود 759 ، ابن ماجة 112 ، أحمد 6918]
وہ بھی گذشتہ حدیث کے مخالف نہیں ہے کیونکہ اس میں محض اضطراری وقت بیان کیا گیا ہے یعنی اگر چہ یہ وقت پسندیدہ تو نہیں لیکن کفایت کر جاتا ہے۔
(جمہور) عصر کا آخری وقت غروب آفتاب ہے۔
(ابو حنیفہؒ) یہ وقت سورج زرد ہونے تک ہے۔
(شافعیؒ) پسندیده و بہترین وقت ہر چیز کا سایہ دو مثل ہونے تک یا سورج کے زرد ہونے تک ہے اور آخری وقت غروب آفتاب تک ہے ۔
[نيل الأوطار 443/1 ، المهذب 52/1 ، كشاف القناع 290/1 ، شرح فتح القدير 152/1 ، الفقه الإسلام وأدلته 666/1]
(نوویؒ) ہمارے نزدیک عصر کے پانچ اوقات ہیں۔
➊ فضیلت کا وقت : اور وہ پہلا وقت ہے۔
➋ اختیاری وقت : دومثل سایہ ہونے تک ہے۔
➌ وقت جواز : سورج زرد ہونے تک ہے۔
➍ مکروہ وقت : زرد ہونے سے غروب آفتاب تک ہے۔
➎ وقت عذر : وہ ظہر کا وقت ہے. ( یعنی جو شخص سفر و غیرہ کے لیے ظہر وعصر کو جمع کرنا چاہے)۔
[شرح مسلم للنووى 124/3]
(راجع) عصر کا وقت مغرب تک ہے البتہ افضل و پسندیدہ وقت سورج زرد ہونے تک یا دومثل سایہ ہونے تک ہے جیسا کہ گذشتہ احادیث میں اسی کی وضاحت ہے لہذا ان اوقات کے بعد مغرب تک بلا عذر نماز پڑھنا مکروہ مگر جائز ہے کیونکہ حدیث من أدرك ركعة من العصر …. سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ [تحفة الأحوذى 493/1 ، فقه السنة 89/1]