ملحدین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی ایسی "کتاب” نہیں ہے جس سے وہ دہشت گردی کا جواز حاصل کر سکیں۔ تاہم، یہ ایک سادہ سی بات ہے کہ دہشت گردی کے جواز کے لیے کسی مقدس کتاب کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بیسویں صدی کی دو بڑی جنگوں کا جواز مسیحیوں نے کسی مذہبی کتاب سے نہیں تراشا تھا۔
دہشت گردی کرنے کے لیے روایتی معنوں میں کسی مذہبی صحیفے کی موجودگی ضروری نہیں ہے۔ شدت پسند ملحدین اپنے نظریات کا جواز سائنسی اور فکری دلائل سے حاصل کرتے ہیں۔ انتہاپسند ملحدین کی معروف کتاب ’’دی گاڈ ڈیلوژن The God Delusion‘‘ اور ان کے نمایاں سکالر رچرڈ ڈاکنز، جو مذہب پر سخت تنقید کرتے ہیں، اکثر ان کے خیالات کا مرکز بنتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کرایگ سٹیفن ہکس کو دہشت گردی پر اکسانے والا ڈاکنز یا اس کی یہ کتاب ہو۔
یہ صرف ایک دعویٰ نہیں ہے بلکہ متعدد مغربی مفکرین نے بھی ڈاکنز کے طریقہ کار کو "متشدد دہریت” کا نام دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مذہب کی ہر شکل کی مخالفت کرتے ہیں اور ایسے تمام اصولوں کی نفی کرتے ہیں جو مذہب کو عملی طور پر ممکن بناتے ہیں اور اس کی انفرادی یا اجتماعی بنیادوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ کیرن آرمسٹرانگ نے اپنی کتاب ’’خدا کا مقدمہ‘‘ میں جامع انداز میں بیان کیا ہے کہ:
"ڈاکنز ایک مخصوص تخفیفی میلان کی ترجمانی کرتے ہیں جو غیر معمولی طور پر مذہبی شدت پسندوں سے متشابہ ہے اور دونوں ایک دوسرے کو ’’بدی کا نمونہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں فکری رجحانات غیر ضروری تسہیل اور تعمیم کی بناء پر اپنی اپنی جگہ کچھ ناگزیر قضایا قائم کرتے ہیں جن سے اخذ کردہ نتائج آخر کار ایک دوسرے کے بدترین اور بدشکل مظاہر کو نمایا ں کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ امر کسی حیرانی کا باعث نہیں کہ مصنف کرسٹوفر ہچنز اور ابن وراق وغیرہ کی تنقیدی تحریروں کے اطلاق سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مذہب کے متعلق ایک روادار، متحمل اور مبنی براحترام زاویہ ءنگاہ بھی شدید قابل مذمت ہے کیونکہ مذہب کی کوئی بھی شکل مذہبی شدت پسندی کا جواز فراہم کرتی ہے۔”
(Karen Armstrong, The Case for God, Anchor Reprint Edition, 2010)
یہ وہی متشدد ملحد سکالرز ہیں جن کی وجہ سے مغربی ممالک میں الحاد، رجعت پسند مذہبیت کا متبادل بن چکا ہے۔ کبھی شارلی ہیبڈو کا واقعہ سامنے آتا ہے تو کبھی حالیہ چیپل ہل کا واقعہ۔ مسلمانوں کی مساجد اور قبروں کی مسماری، مسلمان لڑکیوں کے حجاب کو نوچنا، یہ سب آزاد اور الحادی آئیڈیالوجی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے الحادی دہشت گردوں اور قدامت پسند معاشروں کے مذہبی دہشت گردوں میں فرق ختم ہو چکا ہے۔