اعتراض: محمد ﷺ کی علمیت اور یہود و نصاریٰ کی تعلیمات سے آگاہی
ایک ملحد نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا ہے کہ اگر محمد ﷺ ناخواندہ تھے، تو کیا وہ یہودی اور عیسائی عقائد اور روایات سے واقف نہیں ہو سکتے تھے، کیونکہ آپ ﷺ کے ارد گرد یہودی قبائل آباد تھے اور عیسائیوں کے معابد موجود تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعتراض کرنے والا تصور کرتا ہے کہ آپ ﷺ نے یہ قصے سن کر انہیں قرآن میں شامل کیا۔
جواب:
- تضاد: یہی ملحد اپنی بات کے خلاف خود ہی اپنی دلیل میں یہ بھی کہتا ہے کہ یہود محمد ﷺ سے اپنی کتاب کو چھپاتے تھے تاکہ آپ کی رسالت کی بشارت کی تصدیق نہ ہو سکے۔
- مثال: صلح حدیبیہ کا واقعہ جس میں رسول اللہ ﷺ کے "رسول اللہ” لکھا ہونے کا مٹانا مذکور ہے، لیکن "ابن عبداللہ” لکھ دینا کہیں مذکور نہیں۔ ملحد نے اس بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔
- ثبوت کا فقدان: ملحد صاحب اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکتے کہ آپ ﷺ نے یہودیوں سے سنا۔ اہل عرب میں یہودی مستند مواد تک رسائی نہیں رکھتے تھے، اور یہ قصے بعد میں آثار قدیمہ کی دریافت سے سامنے آئے۔
ملکہ سبا اور حضرت سلیمان کا قصہ
ملحد نے اس قصے کو یہودی کتاب تارگوم ثانی استھر سے ماخوذ قرار دیا، جو سورۃ نمل میں تفصیل سے آیا ہے۔
جواب:
- ماخذ کی عدم دستیابی: ملحد اس بات کا ثبوت نہیں دے سکتا کہ آپ ﷺ نے یہ قصے یہودیوں سے سن کر قرآن میں شامل کیے۔
- قرآنی بیانات کی حقانیت: قرآن مجید نے کہیں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ نئے دین کی تعلیمات ہیں، بلکہ سابقہ ادیان کا تسلسل ہے اور اسلام نے سابقہ مذاہب میں شامل خرافات کا رد کیا ہے۔
- علماء کا ایمان لانا: یہودی علماء جیسے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اور آپ ﷺ کی صداقت پر ایمان لائے۔ اگر یہ قصہ واقعی یہودی ماخذ سے لیا گیا ہوتا تو یہودی علما اعتراض اٹھا سکتے تھے۔
قصہ ہاروت و ماروت
ملحد کا کہنا ہے کہ یہ قصہ بھی یہودی کتاب تالمود سے اخذ شدہ ہے۔
جواب:
- تالمود کا مقام: تالمود بنیادی طور پر شریعت کی تشریح اور فقہ و احکام کی کتاب ہے، قصے کہانیوں کی نہیں۔
- تحقیقات کے نتائج: اہل عرب میں یہودی مواد کی رسائی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اور یہ مواد آثار قدیمہ کی دریافت کے ذریعے سامنے آیا ہے۔
پیغمبر ﷺ اور بنی اسرائیل کی کہانیاں
ملحد نے یہ حدیث بیان کی کہ "نبی ﷺ بنی اسرائیل کی حدیثیں سناتے سناتے صبح کر دیتے تھے”، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آپ ﷺ بنی اسرائیل کے قصوں سے واقف ہو چکے تھے۔
جواب:
- روایت کی غیر موجودگی: یہ روایت ذخیرہ احادیث میں موجود نہیں ہے۔ بلاسند و متن و حوالہ ایک حدیث لکھ کر اس سے خود ساختہ نتیجہ اخذ کرنا دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے۔
- الفاظ "امی” کا مطلب: ملحد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ "امی” اصطلاح یہودیوں کی ہے، جبکہ یہود کے ہاں ایسی کوئی اصطلاح موجود نہیں۔
قصہ ہابیل و قابیل
ملحد کا دعویٰ ہے کہ یہودی روایتوں میں مذکور یہ قصہ قرآن میں موجود قصے سے مشابہ ہے۔
جواب:
- بائبل میں موجودگی: یہ قصہ بائبل کی کتاب پیدائش میں بھی موجود ہے، لیکن اس میں متعدد پیچیدگیاں ہیں جو قرآنی بیان میں نہیں۔
- تاریخی حقائق: قرآن مجید نے اصل واقعہ درست بیان کیا اور تورات کے غلط بیانی کو درست کیا۔
دیگر اعتراضات پر تبصرے
ملحد نے قرآن پر یہ الزام لگایا کہ اس میں بائبل کے قصے اور شریعت سے لیے گئے واقعات شامل ہیں، جیسے:
- کائنات کی تخلیق: بائبل کے برخلاف، قرآن میں تخلیق کے دن ایام کی صورت میں بیان ہوئے ہیں، جو طویل عرصے پر مشتمل ہو سکتے ہیں۔
- سورج، چاند اور زمین کی تخلیق: بائبل کے بیانات میں تضادات پائے جاتے ہیں، جبکہ قرآن کریم میں ایسا کوئی تضاد نہیں۔
- حضرت آدمؑ کی تخلیق: بائبل کی بنیاد پر حضرت آدمؑ کا زمانہ 5800 سال پہلے بتایا گیا ہے، جبکہ آثار قدیمہ کے مطابق انسان کی موجودگی ہزاروں سال پہلے کی ہے۔
- طوفان نوح: بائبل کے مطابق طوفان نوح تمام زمین کو برباد کر گیا تھا، لیکن آثار قدیمہ کے شواہد اس کی تائید نہیں کرتے۔ قرآن میں ایسے دعوے کا ذکر نہیں۔
موافقات عمر اور اعتراضات
ملحد نے موافقات عمر کے بارے میں بھی شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ یہ آیات حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خود وضع کی تھیں۔
جواب:
- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عظمت: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت ایک غیر معمولی عبقری کی تھی، جس کی تائید خود رسول اللہ ﷺ نے کی۔
- آیات کی شان نزول: موافقات عمر کہلانے والی آیات ان کے حق کے اظہار کا ثبوت ہیں اور اسلامی تاریخ میں ان کی اہمیت مسلم ہے۔
- ملحد کی کہانی نویسی: ملحد کے الزامات لٹریری بلنڈر سے زیادہ کچھ نہیں، بلکہ یہ صرف خیالات ہیں جو تاریخی اور منطقی شواہد سے عاری ہیں۔
ملحد کے اعتراضات پر اس تبصرے کا مقصد یہی ہے کہ اس نے اسلام، قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کی ناکام کوشش کی ہے۔