تمہید
یہ تحریر ایک لبرل ڈیموکریٹک نظام کے حمایتی کی طرف سے اسلامی نظام پر کیئے جانے والے اعتراضات کا جواب ہے۔ ان اعتراضات کو مختلف نکات کی شکل میں پیش کیا گیا ہے، جن کا مقصد اسلام کو بطور نظامِ زندگی ناکام اور لبرل ڈیموکریسی کو مثالی ثابت کرنا ہے۔ یہ اعتراضات عموماً نوجوانوں کو اسلامی نظام سے مایوس کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اس مضمون میں ان اعتراضات کا تجزیہ پیش کیا جائے گا اور ان کے جوابات دیے جائیں گے۔
➊ مغربی لبرل ڈیموکریسی کو اختیار کرنے کے فوائد؟
اعتراض:
مغربی لبرل ڈیموکریسی کو مغرب نے چار سو سال کی قربانیوں کے بعد اپنایا اور وہ آج امن و سکون سے رہ رہے ہیں۔ ان کے نظام کی لچک اور ترقی اسے کامیاب بناتی ہے جبکہ اسلامی نظام سخت، بے لچک اور ناقابلِ عمل ہے۔
جواب:
ہر نظام کا تعلق اس کی تہذیب، تاریخی پس منظر اور تمدنی سیاق سے ہوتا ہے۔ مغرب کا لبرل ڈیموکریٹک نظام ان کے مخصوص تاریخی تجربات (جیسے فیوڈل ازم اور کلیسائی استبداد) کا نتیجہ ہے۔ اسے مسلم معاشرے پر لاگو کرنا نہ صرف غیر منطقی بلکہ غیر عملی بھی ہے۔
مغربی ممالک میں لبرل ڈیموکریسی اور سرمایہ داری کا اتحاد درحقیقت طاقتور طبقے کے مفادات کے تابع ہے۔ یہ نظام نہ صرف معاشی عدم مساوات کو فروغ دیتا ہے بلکہ سماجی اور اخلاقی مسائل بھی پیدا کرتا ہے۔
اسلامی نظام کسی مخصوص زمانے یا حالات کے تابع نہیں بلکہ ایک جامع، عالمگیر اور فطری نظام ہے۔ یہ نہ صرف عقائد و عبادات کو منظم کرتا ہے بلکہ معیشت، معاشرت اور سیاست کے اصول بھی فراہم کرتا ہے۔
"إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ”
"بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔”
(سورہ آل عمران: 19)۔
➋ اسلامی نظام کی ناکامی؟
اعتراض:
اسلامی نظام اپنے ابتدائی دور میں ہی ناکام ہوگیا تھا کیونکہ خلفائے راشدین میں سے تین خلفاء کو قتل کیا گیا اور مسلمانوں میں اقتدار کے لیے قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
جواب:
اسلامی نظام کے ابتدائی دور کو ناکامی کہنا تاریخی حقائق کی غلط تشریح ہے۔ خلفائے راشدین کا دور اسلامی اصولوں پر مبنی کامیاب ترین دور تھا، جس میں عدل، مساوات اور اجتماعی فلاح کے اعلیٰ ترین نمونے پیش کیے گئے۔
خلفاء کے قتل کا سبب اسلامی نظام کی ناکامی نہیں بلکہ انسانی فطرت میں موجود شر اور اس وقت کے سماجی اور سیاسی حالات تھے۔ دنیا کی کسی بھی تہذیب یا نظام میں داخلی چپقلش اور سازشیں رہی ہیں۔
اگر اسلامی نظام ناکام ہوتا تو نہ ہی وہ تیرہ صدیوں تک دنیا کے مختلف خطوں پر غالب رہتا اور نہ ہی مسلم معاشروں میں آج تک اس کی واپسی کی خواہش موجود ہوتی۔
علامہ شبلی نعمانی، الفاروق، جلد 1، صفحہ 200۔
➌ اسلامی تاریخ قتل و غارت گری کی تاریخ؟
اعتراض:
اسلامی تاریخ کو قتل و غارت اور لوٹ مار کی تاریخ قرار دیا جاتا ہے، جیسا کہ حضور ﷺ کے بعد ہی سے یہ سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔
جواب:
اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے وقت تعصب اور جانبداری سے بچنا ضروری ہے۔ ہر تہذیب میں جنگیں اور کشمکش رہی ہیں، لیکن اسلامی تاریخ میں ان جنگوں کا مقصد عدل و انصاف قائم کرنا اور ظلم کا خاتمہ تھا۔
اسلامی تاریخ کے دیگر پہلوؤں کو نظرانداز کرنا ناانصافی ہے۔ مثلاً علم، تحقیق، سائنس، عدل و انصاف اور سماجی ترقی میں مسلمانوں کی خدمات غیر معمولی ہیں۔
مغرب کی تاریخ، جسے "قربانی” کہا جاتا ہے، درحقیقت ریڈ انڈینز کی نسل کشی، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے، اور استعماری طاقتوں کے ظلم پر مبنی ہے۔ یہ دوہرا معیار کیوں؟
ڈاکٹر حمید اللہ، خطباتِ بہاولپور، صفحہ 128۔
➍ اسلامی نظام ایک بے لچک نظام ہے؟
اعتراض:
اسلامی نظام سخت اور بے لچک ہے، جبکہ لبرل ڈیموکریسی حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیتی ہے۔
جواب:
اسلامی نظام ایک فطری نظام ہے، جو بنیادی اصول فراہم کرتا ہے اور جزوی معاملات میں اجتہاد کی گنجائش دیتا ہے۔ اس کی لچک کا اندازہ فقہ اسلامی کے مختلف مکاتبِ فکر سے لگایا جا سکتا ہے۔
مغربی لبرل ڈیموکریسی بھی بے لچک ہے۔ اس کی تمام تر لچک سرمایہ دارانہ مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ اسلامی نظام کے اندر موجود اجتہادی گنجائش اسے حالات کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت دیتی ہے۔
اسلام میں عرف اور عادت کو بھی قانون سازی کے لیے بنیاد بنایا گیا ہے، بشرطیکہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہوں۔
امام شاطبی، الموافقات، جلد 2، صفحہ 90۔
➎ اسلامی نظام صرف خیالی منصوبہ ہے؟
اعتراض:
اسلامی نظام ایک خیالی منصوبہ ہے، جبکہ مغربی نظام حقیقت میں نافذ اور کامیاب ہے۔
جواب:
اسلامی نظام نہ صرف ایک حقیقت ہے بلکہ تاریخ میں اس نے ثابت کیا ہے کہ یہ معاشرتی عدل، معاشی مساوات اور اخلاقی بلندی کو فروغ دینے کا بہترین ذریعہ ہے۔
اگر اسلامی نظام خیالی منصوبہ ہوتا تو صدیوں تک مسلم تہذیب دنیا کی سب سے طاقتور اور مہذب تہذیب نہ رہتی۔
موجودہ دور میں مغربی نظام کی کمزوریاں (معاشی بحران، اخلاقی زوال، خاندانی نظام کی تباہی) اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ انسانیت کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی، اسلام کا نظامِ زندگی، صفحہ 15۔
خلاصہ کلام
مغربی لبرل ڈیموکریسی، جو سرمایہ داری کے زیرِ اثر ہے، انسانی فطرت اور مساوات کے اصولوں سے متصادم ہے۔ یہ نظام ایک خاص تاریخی تناظر میں کامیاب ہوا، لیکن اسے عالمی سطح پر نافذ کرنا ممکن نہیں۔
اسلامی نظام فطری، جامع اور لچکدار ہے، جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو منظم کرتا ہے۔ اس کی ناکامی کا دعویٰ تاریخی حقائق اور معروضی تجزیے کے خلاف ہے۔
اسلامی تاریخ کو قتل و غارت کی تاریخ کہنے والے مغرب کی اپنی خونریز تاریخ کو "قربانی” کہہ کر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
اسلامی نظام ایک حقیقت ہے، جو نہ صرف ماضی میں کامیاب رہا ہے بلکہ مستقبل میں بھی کامیابی کی صلاحیت رکھتا ہے۔