مغربی جمہوریت اور مسلم دنیا کے خلاف سازشیں

مغرب کی جمہوریت کے بارے میں دوہری پالیسی

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کے قیام سے پہلے ایک اہم نکتہ اٹھایا تھا کہ مغربی دنیا جمہوریت کی ایک نئی تشریح کرنے میں مصروف ہے۔ اردگان کے مطابق، اگرچہ اخوان المسلمون انتخابات جیت جائے گی، لیکن انہیں اقتدار نہیں دیا جائے گا۔ یہ پیشگوئی درست ثابت ہوئی، کیونکہ نہ صرف اخوان المسلمون کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا بلکہ عوامی احتجاج کو بھی شدید ظلم و جبر کے ذریعے دبایا گیا۔ اس کے برعکس، جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام نہاد عالمی پاسبان خاموش تماشائی بنے رہے۔

مغربی مفادات اور جمہوریت کا کھیل

  • جمہوریت ایک اصول نہیں بلکہ ہتھیار: مغربی ممالک کے لیے جمہوریت کوئی عالمی اصول یا فلسفہ نہیں بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کا ایک آلہ ہے۔ وہ اسے صرف وہاں استعمال کرتے ہیں جہاں ان کے استعماری اور سیاسی مفادات کو فائدہ پہنچے۔
  • مصر اور الجزائر کی مثالیں: مصر میں اخوان المسلمون اور الجزائر میں اسلامک فرنٹ جیسی جماعتوں کو کچل کر فوجی آمریت کو سہارا دینا مغرب کی دوغلی پالیسی کی واضح مثالیں ہیں۔

ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی پر مغربی ردعمل

حال ہی میں ترکی میں جمہوری حکومت کے خلاف فوجی بغاوت ناکام ہوئی۔ اس واقعے پر مغربی میڈیا کی خوشی پہلے بغاوت کی کامیابی پر ظاہر ہوئی، لیکن جب بغاوت ناکام ہوئی تو یہی خوشی غم و غصے میں بدل گئی۔ مغربی میڈیا اور مفکرین ترکی کو "غیر مہذب” بننے سے روکنے کی آخری کوشش ناکام ہونے پر نوحہ کناں نظر آئے۔

جمہوریت کی اصل حقیقت اور مغربی فلسفہ

جمہوریت کی تعریف اور اس کا مقصد

جمہوریت کی بنیادی تعریف مغربی لبرل سیکولر نظام کی بالادستی قائم کرنا ہے۔ تاہم، اس نظام کے اندر ایک بڑا تضاد موجود ہے، یعنی:

  • "ول آف آل” (اکثریتی رائے) بمقابلہ "جنرل ول” (آزادی اور سیکولر نظام): مغرب کو ہمیشہ خطرہ رہتا ہے کہ عوام کی اکثریت آزادی کے علاوہ کسی اور قدر کو ترجیح دے سکتی ہے، خاص طور پر ان خطوں میں جہاں مذہب پسند جماعتوں کا اثرورسوخ زیادہ ہو۔

مغربی جمہوری مفکرین کے تحفظات

مغربی جمہوری مفکرین کو یقین تھا کہ اگر عوام کو رائے دہی کا حق دیا جائے تو وہ آزادی (مغربی تعریف کے مطابق) کو ترجیح دیں گے۔ لیکن جب یہ مفروضہ غلط ثابت ہوا اور مذہب پسند جماعتوں نے جمہوری عمل کے ذریعے کامیابیاں حاصل کیں، تو مغربی ممالک نے جمہوریت کو بچانے کے لیے کچھ حکمت عملیاں وضع کیں۔

جمہوریت کے تحفظ کی حکمت عملیاں

مستقل حکمت عملیاں

  • نمائندہ جمہوریت کا نظام: براہِ راست جمہوریت کی بجائے نمائندہ جمہوریت کا طریقہ اپنانا تاکہ "ہیومن” (مغربی آزادی کے مخالف) لوگ پارلیمنٹ میں کم سے کم پہنچیں۔
  • نظام اقتدار کی تقسیم: اقتدار کو "مستقل ادارے” (عدلیہ، فوج، بیوروکریسی) اور "غیر مستقل ادارے” (پارلیمنٹ) میں تقسیم کرنا تاکہ اکثریتی رائے کے اثرات کو محدود کیا جا سکے۔
  • سول سوسائٹی اور لبرل تعلیمی نظام کا فروغ: جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے ایسے ادارے اور علوم پھیلانا جو عوام کو مذہبی جماعتوں کی دعوت سے دور رکھیں۔

ہنگامی حکمت عملیاں

  • فوجی بغاوت یا ڈکٹیٹرشپ کا سہارا: جمہوری حکومتوں کو ختم کرکے ایسے افراد کو اقتدار میں لانا جو مغربی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
  • قانونی اور فوجی جبر: اکثریتی رائے کے خلاف فیصلوں کو عدلیہ یا فوج کے ذریعے کالعدم قرار دینا۔
  • عالمی مداخلت: ضرورت پڑنے پر نیٹو افواج یا دیگر عالمی قوتوں کے ذریعے مداخلت کرنا اور عوامی حکومتوں کا خاتمہ کرنا۔
  • معاشی پابندیاں: غیر پسندیدہ حکومتوں پر پابندیاں عائد کرنا تاکہ عوام ان حکومتوں سے خود ہی بیزار ہو جائیں۔

ترکی، مصر اور مغرب کی بے چینی

اسلامی تنظیموں کی جمہوری کامیابیاں مغرب کو شدید بے چینی میں مبتلا کر رہی ہیں۔ ترکی میں صدر اردگان کی حکومت نے عدلیہ اور فوج جیسے مستقل اداروں میں مذہبی سوچ رکھنے والے افراد کو شامل کر کے مغربی مفکرین کو مزید پریشان کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اردگان کی جماعت کا کوئی خاص "ریڈیکل” ایجنڈا نہیں ہے، پھر بھی مغرب اس کی کامیابی کو برداشت نہیں کر پا رہا۔ اگر کوئی زیادہ مذہبی جماعت جمہوری طور پر اقتدار میں آ جائے تو مغربی طاقتیں اسے ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گی، جیسا کہ مصر میں اخوان المسلمون کے ساتھ ہوا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے