مغربی تہذیب اور مسلمانوں کی فکری گمراہی کا جائزہ
تحریر: شاہنواز فاروقی

مغربی تہذیب پر تنقید اور دل کا چور

مغربی تہذیب پر ہم جتنی بھی تنقید کر لیں، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں اس کے لیے ایک چور چھپا بیٹھا ہے۔ یہ چور ہمارے خیالات اور عمل میں اکثر نمایاں ہوتا ہے، مگر ہم میں سے بہت سے لوگ اسے چور کے بجائے ایک "پھیری والا” سمجھتے ہیں، جو گلی گلی آواز لگا رہا ہے۔ حالانکہ چور کی صدا "مال دے دو” ہوتی ہے، اور پھیری والے کی صدا "مال لے لو”۔ افسوس کہ بہت سے لوگ ان دونوں کی صدا میں فرق تک نہیں سمجھتے۔

مغربی تہذیب پر تنقید کی سطحیت

ہمارے مفکرین نے مغربی تہذیب پر بہت کچھ لکھا، لیکن عوام اور حتیٰ کہ سیاسی رہنماؤں کے ذہنوں میں اس تنقید کا صرف ظاہری اور سطحی پہلو ہی محفوظ رہا ہے۔ بنیادی تصورات پر تنقید یا تو یاد نہیں رہتی یا جان بوجھ کر نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ جو لوگ اس بنیادی تنقید سے واقف ہیں، وہ بھی مغرب کے طرزِ زندگی کو درست ثابت کرنے کے لیے جواز ڈھونڈتے رہتے ہیں۔

عام فرد کی رائے

کسی عام شخص سے پوچھیں تو وہ کہے گا کہ مغربی تہذیب بری ہے کیونکہ اس نے عریانی، فحاشی اور خاندانی نظام کی تباہی کو فروغ دیا ہے۔ اگر وہ شخص تھوڑا باشعور ہو تو جمہوریت پر بھی تنقید کرے گا اور علامہ اقبال کے اشعار سنائے گا۔ یہی ردعمل ہمیں دانشوروں، سیاسی رہنماؤں اور علمائے کرام میں بھی نظر آتا ہے، یعنی اس معاملے میں عوام اور خواص میں کوئی خاص فرق نہیں۔

ترقی یافتہ معاشرے میں مسلمان ہونے کی شرمندگی

خالد اسحاق صاحب کے ایک واقعے کا ذکر ہے، جس میں ایک مغربی وکیل نے اسلام کی تعریف کی لیکن مسلمان ہونے سے گریز کیا۔ وجہ یہ بتائی کہ مسلمان ہوتے ہی وہ ایک پسماندہ معاشرے کا حصہ بن جائے گا، جو اسے منظور نہیں تھا۔ یہ واقعہ ہمارے دانشوروں کی سوچ کا آئینہ دار ہے کہ مسلمانوں کو صرف اس لیے ترقی یافتہ ہونا چاہیے تاکہ لوگ اسلام قبول کرتے ہوئے شرمندگی محسوس نہ کریں۔

مغربی تہذیب کی فکری گمراہی

مغربی تہذیب کے ارتقاء میں ایک بڑا فکری مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ ہر چیز کو موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جانے لگا اور ماضی کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں مستقل اقدار ختم ہو گئیں، اور ہر شے کی اہمیت کا تعین وقتی حالات کے مطابق کیا جانے لگا۔

تہذیب کی بنیاد: تین بنیادی تصورات

ہر تہذیب تین بنیادی سوالات کے گرد گھومتی ہے:

حقیقتِ اولیٰ کا تصور: خدا کے وجود یا عدم وجود پر یقین۔
خدا، انسان اور کائنات کے تعلق کی نوعیت۔
انسان کی حقیقت اور اس کا مقصدِ حیات۔

ان سوالات کے جوابات کے بغیر کسی بھی تہذیبی رویے یا رجحان کو سمجھنا ممکن نہیں۔ مغرب نے ان سوالات کے جو جوابات دیے، وہ فکری انحطاط کی مثال ہیں۔

مغربی فکر کی ابتدا سے انجام تک

مغربی تہذیب کی ابتدا خدا کے انکار سے ہوئی اور انسان کو کائنات کا مرکز بنا دیا گیا۔ انسان پرستی (Humanism) سے بات فرد پرستی (Individualism) تک پہنچی، اور پھر عقل (Reason) کو حتمی اتھارٹی مانا گیا۔ لیکن جب عقل کی حدود واضح ہوئیں تو معاملہ جبلت پرستی اور بالآخر اضافیت (Relativism) تک پہنچ گیا۔ اس انجام کو فلاسفہ نے فکر کی ترقی کے بجائے فکر کی تباہی قرار دیا۔

اسلامی اور مغربی ترقی کا فرق

مغربی تہذیب کے برعکس، اسلامی معاشرے کی بنیاد ایمان اور اخلاق پر ہے۔ نبی اکرمؐ اور خلفائے راشدین کا معاشرہ سائنسی یا تیکنیکی ترقی پر نہیں بلکہ دین کی روشنی پر مبنی تھا۔ اس لیے اسلامی ترقی کا معیار مادی ترقی نہیں بلکہ ایمان اور اخلاقی اقدار ہیں۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہم سے سائنسی کامیابیوں کا نہیں بلکہ ہمارے اعمال اور اخلاق کا حساب لے گا۔

مغربی تجربے سے سیکھنے کی ضرورت

یہ کہنا غلط ہوگا کہ مغرب سے کچھ سیکھا نہیں جا سکتا۔ ہمیں مغرب سے ان کی غلطیوں سے سبق لینا چاہیے اور ان تجربات سے بچنا چاہیے جو خود مغرب کے لیے مشکلات کا سبب بنے۔ سقراط کا قول ہے: "میں نے دانش احمقوں سے سیکھی ہے۔” اگر ہم کوشش کریں تو مغرب کی حماقتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لیکن پہلے ہمیں اپنی حماقتوں سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے