مغربی تصورات سے پیدا ہونے والی دینی گمراہیاں

مغربی فکر کے بدلتے ہوئے ہتھکنڈے

ماضی میں مستشرقین، پادریوں اور مغربی مفکرین کی طرف سے اسلام اور مذہب پر کیے گئے اعتراضات واضح ہوتے تھے، جن کے جوابات دینا آسان تھا۔ لیکن اب مغربی دانشوروں نے ایک نیا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ وہ بظاہر مذہب کی تعریف کرتے ہیں مگر اس کا ایسا تصور پیش کرتے ہیں جو درحقیقت دین میں تحریف کے مترادف ہوتا ہے۔

یہ رویہ نہ صرف اسلام بلکہ دیگر مشرقی مذاہب کے ساتھ بھی اپنایا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ہندو معاشرہ مغرب کی طرف سے آنے والی تشریحات کو بغیر کسی تنقید کے قبول کرتا چلا گیا، یہاں تک کہ ان کے اپنے مصنفین نے بھی مغربی تعبیرات کو ہی "اصلی ویدانت” کہنا شروع کر دیا۔

مغربی ذہنیت کی تحریفات

یہ فکری گمراہیاں نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے دور سے پروان چڑھیں اور آج کے جدید مغربی خیالات میں مزید بگڑ چکی ہیں۔ مستشرقین اور مغربی مفکرین کی طرف سے پھیلائے گئے ان نظریات نے مسلم معاشروں میں بھی جگہ بنا لی ہے، جس کے بے شمار شواہد روزانہ اخباروں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔

فرانسیسی مسلمان عالم رینے گینوں (شیخ عبدالواحد یحییٰ) نے اپنی تصانیف میں مشرقی مذاہب کے مغربی تحریف شدہ بیانیے پر روشنی ڈالی ہے۔ انہی تحقیقات کی مدد سے ہم وہ مغربی افکار ترتیب دے سکتے ہیں جو اسلام کے مفہوم کو مسخ کرنے کا باعث بنے ہیں۔

مستشرقین کے مکارانہ حربے

بعض مستشرقین نے علماء کے پاس جا کر سوالات ایسے انداز میں رکھے کہ ان کے پس منظر کو مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہ ہو۔ بعد میں وہ علماء کے جوابات کو اپنے مفروضات کے حق میں استعمال کرنے لگے۔ مثال کے طور پر، فرانسیسی مستشرق ہنری کوربین نے ایران میں تصوف اور معقولات پر اتنا اثر و رسوخ قائم کر لیا کہ تصوف کی کتابوں کی اشاعت تک اس کے سپرد کر دی گئی۔

مغربی افکار سے پیدا ہونے والی گمراہیاں

ذیل میں ان گمراہیوں کی ایک جامع فہرست دی جا رہی ہے جو مغربی نظریات سے متاثر ہو کر دین میں داخل کی گئی ہیں:

1. مذہب کے بنیادی تصورات کو بگاڑنا

  • مذہب کے تین اجزاء (عقائد، عبادات، اخلاقیات) میں سے کسی ایک یا دو کو ترک کرنا۔
  • عقائد کو مذہب کا لازمی جز نہ سمجھنا اور اسلامی عقائد کو Dogma کہنا۔
  • عقائد میں وقتاً فوقتاً تبدیلی ممکن سمجھنا۔
  • عقائد کو جذباتی تسکین کا ذریعہ سمجھ کر ان میں صداقت تلاش نہ کرنا۔

2. عبادات اور اخلاقیات کا تحریف شدہ نظریہ

  • عبادات کو صرف رسوم کی حیثیت دینا۔
  • مذہب کو محض اخلاقیات یا معاشرتی بہبود تک محدود کر دینا۔
  • تصوف کو صرف اخلاقی تربیت کا ذریعہ سمجھنا۔
  • مذہب کو ایک سوشل انسٹی ٹیوشن کہنا اور معاشرتی تنظیم کا ذریعہ سمجھنا۔

3. دین اور دنیا کے تعلق کو غلط رنگ دینا

  • خارجی اور مادی ترقی کو ذہنی و روحانی ارتقاء کا ذریعہ سمجھنا۔
  • مذہب کا مقصد صرف دنیاوی فلاح (Social Welfare) قرار دینا۔
  • مذہب کو قومی خدمت اور سماجی بہتری تک محدود کرنا۔
  • دین کو فلسفہ یا محض وجدانی تجربہ کہنا۔

4. عقل پرستی اور سائنسی نظریات کی آمیزش

  • وحی کو غیر ضروری سمجھنا اور انسانی عقل کو عقائد میں ترمیم کا حقدار سمجھنا۔
  • دین کو قدیم اور ناپختہ انسانی ذہن کی پیداوار قرار دینا۔
  • دین کو انسانی تہذیب اور تمدن کی پیداوار سمجھنا اور اسے بدلتے حالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا۔
  • معجزات اور کرامات کی عقلی توجیہات پیش کرنا یا ان کا انکار کرنا۔
  • مذہب کو سائنس کے تابع کرنے کی کوشش کرنا۔

5. دین میں مساوات اور اشتراکیت کے مغربی تصورات داخل کرنا

  • اسلامی مساوات کے تصور کو مغربی جمہوریت اور اشتراکیت کے ساتھ خلط ملط کرنا۔
  • تصوف کو انسانی ہمدردی اور کمیونزم کا ابتدائی نمونہ قرار دینا۔

6. اسلامی تعلیمات کی غلط تشریحات

  • دین میں "سادگی” پیدا کرنے کے نام پر احکام میں تحریف کرنا۔
  • شریعت کو جدید حالات کے مطابق ناقابل عمل قرار دینا۔
  • ہر چیز کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھنا اور وحی کی برتری کو نظر انداز کرنا۔
  • مذہبی اصولوں میں "وسعتِ نظر” کے نام پر غلط عقائد کو بھی قبول کرنا۔

7. اسلامی تاریخ اور فلسفہ کو مغربی سانچے میں ڈھالنا

  • اسلامی علوم کو مغربی سائنسی اور فلسفیانہ اصولوں کے مطابق ڈھالنا۔
  • اسلامی فقہ کو انسانی قوانین کی طرح سمجھنا۔
  • اسلامی تصوف کو مغربی Mysticism کی طرز پر پیش کرنا اور اسے محض وجدانی کیفیات تک محدود کر دینا۔

8. جدیدیت اور الحاد کے نظریات

  • مغربی افکار کو معیار بنا کر دین میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔
  • مذہب اور دنیا کو مکمل طور پر الگ کرنا یا دین کو دنیا کے تابع کر دینا۔

نتیجہ

یہ تمام نظریات اسلام کے اصل پیغام کو مسخ کرنے اور مسلم ذہنیت کو مغربی سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں ہیں۔ ہمیں ان سے بچنے کے لیے اپنے دینی علوم کو مضبوط کرنا ہوگا اور مغربی فکر کے چالاک حربوں کو پہچاننا ہوگا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے