خلاصہ
- راجر بیکن جیسے مغربی سائنسدان عربی علوم کے شاگرد تھے۔
- مسلمانوں نے یونانی تصانیف کو محفوظ کر کے ان کے عربی تراجم کیے، جو بعد میں یورپ کی علمی ترقی کا سبب بنے۔
- عربی الفاظ مغربی زبانوں میں داخل ہوئے، لیکن اس سرقے کا ذکر مغربی مورخین نہیں کرتے۔
- کولمبس اور واسکو ڈی گاما کی بحری کامیابیاں اسلامی بحری علوم اور جہاز رانوں کی مدد سے ممکن ہوئیں۔
- احمد بن ماجد جیسے مسلمان بحری ماہرین نے یورپی جہاز رانوں کی رہنمائی کی۔
مغربی تاریخ کا دعویٰ اور اسلامی علوم کا اثر
اہلِ یورپ آج اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ دنیا کی حقیقی اور مستند تاریخ وہی ہے جو مغربی مفکرین نے تحریر کی ہے۔ تاہم، یہ دعویٰ کرنے والے مغربی دانشور ایک اہم حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں: مغرب کے بابائے سائنس راجر بیکن، جو مغربی فکر و علم کا ایک بڑا ستون مانا جاتا ہے، خود عربوں کا شاگرد تھا۔ وہ اپنے شاگردوں کو نصیحت کیا کرتا تھا کہ اگر صحیح علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو عربی زبان سیکھو۔
یونانی علوم کا احیاء اور مسلمانوں کا کردار
مغربی مورخین یونانیوں کو علوم کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ان کی تحریریں کئی صدیوں تک اسکندریہ، ایتھنز، اور قسطنطنیہ کے کھنڈرات میں دفن پڑی رہیں۔ مسلمانوں نے انہیں نکالا، ان کے عربی تراجم کیے اور یہ تراجم بعد میں یورپ تک پہنچے، جس نے نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے دور میں مغربی دانشوروں کے لیے مشعلِ راہ کا کام کیا۔
اسلامی تہذیب کے اثرات اور مغربی زبانیں
آج بھی اگر تاریخ کے طالب علم غور کریں تو انہیں اسلامی تہذیب کے اثرات مغربی دنیا پر نمایاں طور پر نظر آئیں گے۔ مغربی زبانوں میں کئی الفاظ اپنی ساخت اور ہئیت سے ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے اصل عربی ذرائع ہیں۔ مثال کے طور پر، انگریزی کا لفظ "میر” عربی لفظ "معیار” سے ماخوذ ہے، "انفلوئنزا” عربی کے "انزال الأنف” سے نکلا ہے، اور "ایڈمرل” عربی "امیر البحر” کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
کولمبس، واسکو ڈی گاما اور اسلامی بحری علوم
اہلِ مغرب کولمبس اور واسکو ڈی گاما کو امریکہ اور ہندوستان کا دریافت کنندہ مشہور کرتے ہیں، لیکن یہ حقیقت چھپاتے ہیں کہ کولمبس نے بحری تعلیم اسلامی مدارس سے حاصل کی تھی اور اس نے جو قطب نما استعمال کیا تھا، وہ مسلمان جہاز رانوں کی ایجاد تھی۔ 1498ء میں جب واسکو ڈی گاما مشرقی افریقہ کے ساحل پر ملندی پہنچا تو اسے ایک مسلمان جہاز راں احمد بن ماجد کی مدد ملی جس نے اسے جنوبی ہندوستان کے ساحل تک پہنچایا۔ اگر یہ رہنمائی نہ ہوتی تو واسکو ڈی گاما کبھی ہندوستان تک نہ پہنچ پاتا۔
احمد بن ماجد اور بحری علوم
احمد بن ماجد کا ذکر عرب اور پرتگالی مورخین دونوں نے کیا ہے۔ پرتگالی مورخین نے اسے "معلم کنکا” یعنی ستاروں کی مدد سے جہاز رانی کے فن کا ماہر قرار دیا۔ ابن ماجد نے علمِ بحریات پر کتب لکھیں جن میں بحرِ ہند، خلیج فارس، اور بحرِ قلزم کی جہاز رانی کے اصول درج ہیں۔ مغربی مصنفین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ابن ماجد بحری علوم میں اپنے زمانے کا سب سے بڑا ماہر تھا۔
بحری قطب نما کی ایجاد
یہ کہا جاتا ہے کہ بحری قطب نما بھی ابن ماجد کی ایجاد ہے، تاہم، اپنی کتاب "کتاب الفوائد” میں ابن ماجد وضاحت کرتا ہے کہ قطب نما کی ایجاد اس کی نہیں، البتہ اس نے اس میں مقناطیس لگا کر اسے مزید بہتر بنا دیا۔
احمد بن ماجد کی تصانیف
ابن ماجد کو اڑتیس کتب کا مصنف کہا جاتا ہے، جن میں فلکیات، بحریات، اور جہاز رانی جیسے موضوعات شامل ہیں۔ فرانسیسی مستشرق فیراں بھی تسلیم کرتا ہے کہ جدید بحری علوم پر لکھنے والے پہلے مصنف ابن ماجد ہی تھے۔