معاشرتی اصلاح: نیچے سے یا اوپر سے؟
پاکستان میں کرپشن کے موضوع پر ہونے والی ایک ٹی وی بحث میں، اینکر کاشف عباسی کے سوال کے جواب میں ایک رائے دی گئی کہ "معاشرے کو نیچے سے ٹھیک کیا جائے تو ہی تبدیلی ممکن ہے۔” اس پر اوریا مقبول جان نے چیلنج کرتے ہوئے پوچھا: دنیا میں کوئی ایک معاشرہ دکھائیں جو نیچے سے بدل دیا گیا ہو؟ خورشید ندیم نے فوراً جواب دیا: "رسول اللہ ﷺ کا معاشرہ!”
یہ مکالمہ ایک اہم سوال کو جنم دیتا ہے کہ معاشرتی اصلاح کہاں سے شروع ہونی چاہیے—نیچے سے یا اوپر سے؟ اس پر مزید غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ یہ "یا” کا مفروضہ غیرضروری ہے، کیونکہ اصلاح کے دونوں طریقے نہ صرف ایک ساتھ چل سکتے ہیں بلکہ مکمل بھی کرتے ہیں۔
"یا” کے غیرمنطقی مفروضے
بہت سے معاملات میں، ہم خوامخواہ دو مختلف پہلوؤں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیتے ہیں، حالانکہ ان میں کوئی حقیقی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ اس کی چند مثالیں:
- مغرب کے ساتھ تعلق: کیا مغرب کو اسلام کی دعوت دی جائے یا ان کے ساتھ مزاحمت کی جائے؟ دونوں ممکن ہیں: شدت پسندوں کے ساتھ سختی اور باقی عوام کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔
- قومی مسائل: کیا ہمارا سب سے بڑا مسئلہ انتظامی ہے، سیاسی ہے، یا تعلیمی؟ کیوں نہ ان سب پر بیک وقت کام کیا جائے؟
- معاشرتی اصلاح: کیا معاشرے کو اوپر سے ٹھیک کیا جائے یا نیچے سے؟ درحقیقت، یہ دونوں طریقے ساتھ چل سکتے ہیں۔
اصلاح کا مکمل ماڈل: رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی
رسول اللہ ﷺ نے معاشرتی اصلاح کا ایک جامع نمونہ پیش کیا جس میں اوپر اور نیچے دونوں سطحوں پر کام کیا گیا۔ یہ کہنا درست نہیں کہ آپ ﷺ کا عمل صرف نیچے سے معاشرے کو ٹھیک کرنے تک محدود تھا۔ آپ ﷺ نے ابتدائی طور پر ایک مضبوط جمعیت تیار کی (نیچے سے)، اور پھر اقتدار حاصل کر کے معاشرتی ڈھانچے کو بھی تبدیل کیا (اوپر سے)۔
مثال:
- نبی اکرم ﷺ نے ابتدائی دور میں افراد کی تربیت پر زور دیا۔
- بعد میں اقتدار کے ذریعے عرب کے پورے معاشرتی نظام کو بدل دیا۔
- ریاستِ مدینہ نے ایک مثال قائم کی، جہاں اسلامی اصولوں کے تحت حکمرانی کی گئی۔
فتنہ ارتداد اور حضرت ابو بکرؓ کی مثال
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد، جزیرۂ عرب میں بڑے پیمانے پر ارتداد ہوا۔ حضرت ابو بکرؓ نے اس صورتحال کا مقابلہ کرکے دوبارہ اسلامی معاشرے کو مستحکم کیا۔ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقتدار کی طاقت نے ہی معاشرے کو سنبھالا دیا۔ جیسا کہ حضرت عثمانؓ کا قول ہے:
"اقتدار لوگوں کو قرآن سے بھی زیادہ قابو میں رکھتا ہے”
(تاریخ المدینہ، ابن ابی شیبہ، جلد 3، صفحہ 988)۔
اصلاح کی حکمت عملی: اوپر اور نیچے کا امتزاج
رسول اللہ ﷺ کے دور میں:
- نیچے سے اصلاح: افراد کی تربیت اور ایمان کی جڑوں کو مضبوط کرنا۔
- اوپر سے اصلاح: ریاستی طاقت کے ذریعے معاشرتی قوانین اور نظام کو نافذ کرنا۔
یہ دونوں پہلو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ صرف نیچے سے اصلاح پر زور دینا یا اوپر سے اصلاح کو کافی سمجھنا، دونوں ہی ناقص حکمت عملیاں ہیں۔
تیزرفتار توسیع: حکمت عملی یا رسک؟
رسول اللہ ﷺ کے آخری سالوں میں اسلام کی غیرمعمولی تیزرفتار توسیع کو دیکھ کر کچھ لوگ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ کیا یہ جلدبازی تھی؟ لیکن یہ حکمت عملی اسلامی فکر کے لیے ضروری تھی۔
- کوالٹی اور کوانٹٹی کا امتزاج: ابتدا میں افراد کی تربیت پر زور دیا گیا، جبکہ بعد میں بڑی تعداد میں لوگوں کو اسلام کے دائرے میں لایا گیا۔
- مقصد: معاشرتی نظام کو کلی طور پر اسلام کے تابع کرنا۔
یوٹوپیا ذہنیت اور حقیقت
یہ سوال کہ پہلے تربیت ہونی چاہیے یا توسیع، دراصل یوٹوپیا سوچ کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ:
- معاشرتی تبدیلی کے لیے افراد اور نظام دونوں پر بیک وقت کام کرنا ضروری ہے۔
- اسلامی ریاست ایک مضبوط بنیاد اور عالمگیر اثر کے لیے دونوں پہلوؤں کو ساتھ لے کر چلی۔
نتیجہ
معاشرتی اصلاح کی بحث کو "اوپر سے یا نیچے سے” تک محدود کرنا غیرضروری ہے۔ یہ دونوں طریقے ساتھ ساتھ چلنے چاہئیں۔ رسول اللہ ﷺ کے دور سے لے کر خلفائے راشدین کے دور تک، ہر کامیاب ماڈل نے یہی حکمت عملی اپنائی۔