اعتراض
میں ایسے خدا کو کیوں پکاروں جو مصیبت میں میری مدد نہیں کرتا؟
جواب
یہ معاملہ کسی دو انسانوں کے لین دین جیسا نہیں ہے کہ "کچھ لو اور کچھ دو” کے اصول پر چلے۔ یہ ایک مخلوق اور اس کے خالق کا معاملہ ہے۔ اگر آپ نے خدا کو خالق مانا ہے تو پھر عبادت کے معاملے میں شرطیں لگانا بے معنی ہے۔ خدا کو بندے کی عبادت اور دعاؤں کی کوئی حاجت نہیں، وہ ان شرائط سے بے نیاز ہے۔ اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے کوئی مانے یا نہ مانے۔
دعا کی قبولیت میں تاخیر کی ممکنہ وجوہات
➊ اسباب کی کمی
دعاؤں کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسباب کی لائن سے مکمل کوشش کریں۔ جب تک کسی چیز کو پانے کے لیے تمام جائز وسائل اور تدابیر اختیار نہیں کی جائیں گی، صرف دعا پر انحصار کرنا درست نہیں۔ معجزے کی توقع رکھنا یا اسباب کو نظر انداز کرنا شریعت کا طریقہ نہیں ہے۔
➋ غلطیوں کی دنیاوی سزا
بعض اوقات انسان کی کچھ غلطیوں کی سزا دنیا میں مصیبتوں یا بیماریوں کی صورت میں ملتی ہے تاکہ آخرت میں ان گناہوں سے نجات حاصل ہو۔
➌ اللہ کی حکمت
ہر دعا فوراً قبول نہیں ہوتی، کیونکہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لیے کب اور کیا بہتر ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی دعائیں بہت تاخیر سے قبول ہوئیں، اور انہوں نے آخر کار شکر ادا کیا۔ کچھ مواقع پر انسان اپنے اصرار سے ایسی چیز حاصل کرتا ہے جو بعد میں اس کے لیے مشکلات کا باعث بنتی ہے۔
ازدواجی مسائل پر اعتراض
ایک شخص نے جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھیں، وظائف کیے، صدقات دیے، لیکن اس کی دعا قبول نہ ہوئی۔ ایسے حالات میں سمجھنا ضروری ہے کہ نیک اعمال کبھی ضائع نہیں جاتے۔ نیک نیت کے ساتھ کیے گئے اعمال کا اجر دنیا کے بعد کا معاملہ ہے۔
دعا کا اصل مطلب
دعا کا مطلب ہرگز اسباب کا انکار نہیں ہے۔ دعا کے ساتھ جائز اسباب کا اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ علاج معالجہ اور کوششیں دعا کا حصہ ہیں۔
نتیجہ
دعا کا اثر صرف ان پر ہوتا ہے جو عزم و ہمت رکھتے ہیں۔ دعائیں بے عمل لوگوں کے لیے نہیں، بلکہ ان کے لیے جو اسباب اور کوشش کے ساتھ اللہ سے مدد چاہتے ہیں۔