« باب الأمر بصلة الوالدين وإن كانا مشركين»
مشرک والدین کے ساتھ بھی صلہ رحمی کا حکم
قال الله تعالى:
«وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ » [سورة العنكبوت: 8]
ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود)کی کو شریک ٹھہراےے جسے (تو میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر۔ میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے۔ پھر میں تم کو بتادوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔
وقال اللہ تعالى:
«وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ» [سورة لقمان: 15]
لیکن وہ اگر دباو ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ مگر پیروی اس شخص کے راستے کی کہ جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے، اس وقت میں تمہیں بتادوں گا کہ کیسے عمل کرتے رہے ہو۔
«عن اسماء بنت ابي بكر رضي الله عنهما، قالت:” قدمت على امي وهى مشركة فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستفتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: وهى راغبة، افاصل امي؟ قال: نعم، صلى امك.» [متفق عليه: رواه البخاري 2620. ومسلم 103. ورواه البخاري 5978]
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ میری ماں میرے پاس آئی اور وہ مشرکہ تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قریش کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! میری ماں میرے پاس آئے ہے اور وہ اسلام سے رغبت نہیں رکھتی۔ کیا میں اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔
«عن أبى هرير. قال: مر رسول الله على عبد الله بن أبى بن سلول وهو فى ظل أجمة فقال : قد غبر علينا ابن أبى كبشة، قال ابنه عبد الله بن عبد الله: والذي أكرمك و الذى أنزل عليك الكتاب لئن شئت لاتيتك برأسه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "لا، ولكن بر اباك و أحسن صحبتك . » [حسن رواه ابن حبان فى صحيحه 428، والبزار، كشف الأستار 2708.]
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر عبد اللہ بن ابی بن سلول پر سے ہوا۔ وہ ایک درخت (اجمۃ) کے سایہ میں تھا۔ ابن ابی کبشہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہم پر غبار اڑا دی، تو اس کے بیٹے عبد الله بن عبد اللہ نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو باعزت بنایا اور قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ پر کتاب اتاری، اگر آپ چاہیں تو میں اس کا سر آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، لیکن تم اپنے والد کے ساتھ حسن سلوک کرو، اور ان کے ساتھ بہتر تعلقات رکھو۔