سوال:
مشت زنی کی عادت کو اختیار کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیا کتاب و سنت میں اس کی حر مت پر کوئی دلیل موجود ہے؟
جواب:
مشت زنی کی عادت حرام ہے، کیونکہ یہ مضر صحت ہے اور اس کی خرابیاں بہت زیادہ ہیں۔
اہل علم نے اس کی حرمت پر سورہ مومنوں میں موجود اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے:
«فمن ابتغي ور اء ذلك فأولئك هم العادونه» «فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ» [23-المؤمنون: 7]
”پھر جو اس کے سوا تلاش کرے تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں۔“
یعنی جس شخص نے بیوی اور لونڈی کے علاوہ (جنسی تسکین کے لیے) کوئی راستہ اختیار کیا تو وہ حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہے، شیخ محمد الامین الشنقیطی نے بھی اپنی تفسیر ”أضواء البیان“ میں (مشت زنی کی حر مت پر) اسی آیت سے استدلال کیا ہے۔
بعض آثار میں یہ الفاظ مروی ہیں:
«إن قوما يأتون و أيديهم حبالي كانوا يعبثون بمذاكيرهم» یہ جبیر بن سعید تابعی کا قول ہے۔ ديكهيں: [تفسير البغوي410/1]
بلاشبہ (قیامت کے دن) ایک قوم اس حال میں دربار الہیٰ میں پیش ہو گی کہ ان کے ہاتھوں میں حمل ہو گا جن ہاتھوں سے وہ اپنے اعضاء تناسل سے مشت زنی کیا کرتے تھے۔“
لیکن جب ایک جوان آدمی کو زنا جیسی بے حیائی میں ملوث ہونے کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں بعض علماء نے مشت زنی کی اجازت دی ہے، ان کا خیال یہ ہے کہ اس عادت بد کے فرنیہ اس کے جنسی جوش میں قدرے کمی واقع ہو جاتی ہے۔ لیکن اولاً اس پر واجب یہ ہے کہ وہ پاکدامنی اختیار کرنے کے لیے شادی کرے، پس اگر وہ شادی کی طاقت نہ رکھے تو روزے رکھے جس سے اس کی جنسی خواہش میں کمی آ جائے گی۔ واللہ اعلم [عبدالله بن عبدالرحمن الجبر]