جب تين شخص ایک لونڈی كي ملكيت ميں شريک ہوں اور ایک ہی طهر ميں اس سے جماع كريں اور اس كے ہاں كوئی بچہ پيدا ہو جائے اور وه سب اس بچے كا دعوی كريں تو ان كے درميان قرعہ ڈالا جائے گا پهر جو بهی قرعہ كے ذريعے بچے كا مستحق بنے گا وه دوسروں کو ديت كا دو تهائی حصہ ادا كرے گا
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس جبکہ وہ یمن میں تھے ، تین ایسے آدمی لائے گئے جنہوں نے ایک ہی طہر میں ایک عورت (لونڈی ) سے جماع کیا۔ آپ نے دو آدمیوں سے کہا ، کیا تم اس (تیسرے) کے لیے بچے کو مقرر کرتے ہو؟ انہوں نے کہا، نہیں، حتی کہ آپ نے ان سب سے اسی طرح پوچھا لیکن جب بھی آپ دو آدمیوں سے دریافت کرتے تو وہ کہتے، نہیں۔ پھر آپ نے ان کے درمیان قرعہ ڈالا اور بچے کو اس آدمی کے ساتھ ملحق کر دیا جس کے نام قرعہ نکلا تھا اور اس پر دیت کا دو تہائی حصہ بھی لازم کر دیا (کہ وہ بقیہ دونوں کو ادا کرے ) ۔ راوی کہتا ہے کہ یہ بات رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ہنسے حتی کہ آپ کی داڑیں ظاہر ہو گئیں ۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 1987 ، كتاب الطلاق: باب من قال بالقرعة إذا تنازعوا فى الولد ، ابو داود: 2270 ، أحمد: 374/4 ، نسائي: 182/6 ، حميدي: 785 ، ابن ماجة: 2348]
(جمہور، مالکؒ ، شافعیؒ ، احمدؒ) (ہر صورت میں ) قرعہ ڈالنا جائز ہے۔
[نيل الأوطار: 381/4]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر شرعی مسائل میں بھی قرعہ کا اعتبار کیا ہے جیسا کہ ایک آدمی نے چھ غلام آزاد کر دیے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تین اجزاء بنائے پھر ان کے درمیان قرعہ ڈالا اور جن کے نام قرعہ نکلا انہیں آزاد کر دیا ۔
[مسلم: 1668 ، كتاب الإيمان: باب من أعتق شركا له فى عبد ، ابو داود: 3958 ، ترمذي: 1364 ، ابن ماجة: 2345 ، نسائي: 64/4]